الیکشن کا زور تھا اور تمام امیدواران اور انکے سپورٹر و ،ووٹرز بڑھ چڑھ کر الیکشن کمپین کر رہے تھے، پارٹی کے لیڈران اپنے مدمقابل پارٹیوں کے لیڈران کے لتے لے رہے تھے، کوئی کسی کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی رقم نکالنے کی کوششوں میں تھا تو کوئی کسی کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی تیاریاں کر رہا تھا، کسی کو رہ رہ کر مہنگائی کا غم کھا رہا تھا تو کسی کو دوسرے کی بدعنوانی نظر آ رہی تھی، کوئی کسی کے گھر اور گھریلو عورتوں تک بھی حملہ آور تھا تو کوئی یہودی ایجنٹ تھا، کسی کو پٹرول و ڈیزل کے پرمٹ کا طعنہ دیا جا رہا تھا تو کسی کو فارن فنڈنگ کے مسائل درپیش تھے، کسی کو ہاوسنگ پراجیکٹ و صاف پانی کی کمپنیوں کے مسائل درپیش تھے تو کسی کو صدقہ و خیرات کی آمدنی کے حساب کتاب میں گڑبڑ کے مسائل،کسی پر پنکچر لگانے کا الزام لگایا گیا اور بعد میں اسے سیاسی بیان گردان کے مٹی پاو والا فارمولہ اپنایا گیا۔
خیر یہ تو اکھاڑے میں ہوتا ہی ہے بہت سارے پہلوان میدان میں اترتے ہیں اور ایک ہی فاتح ٹھہرتا ہے اور جو فاتح ہوتا ہے وہ رستم پاکستان کا گرز اٹھاتا ہے اور ہارنے والے ہمیشہ ہی اپنے خلاف دھاندلی کی شکایت کرتے ہیں جیسے کے ہم نے ایک الیکشن میں 4 حلقے کھولنے کا شور سنا اور جب معاملات الیکشن کمیشن سے ہوتے ہوئے عدالتوںمیں آئے تو مدعی پارٹی نے اپنی ہی عدم توجہ سے وہ تمام کے تمام کیسسز ہار دئیے،
الیکشن ختم ہوا، حکومت بنانے کی تیاریاں شروع ہوئیں کہیں جہاز و ہیلی کاپٹر اڑنا شروع ہوئے کہیں کسی ادارے سے کہلوایا گیا اور ایک مثالی حکومت بن گئی، چلو بھیا یہ اونٹ تو کسی کروٹ بیٹھا لیکن سیاسی چالیں اور بیانات دینے والے ہمیشہ کی طرح پھر ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھےکیونکہ مار ا ماری کا دور گزر چکا تھا سیاسی لیڈران جو قبل از الیکشن ایک دوسرے کا کاٹ کھانے کو دوڑ رہے تھے بمعہ اپنے ووٹرز و سپوٹرز کے بعد از الیکشن وہ تمام کے تمام شیر و شکر ہوئے اور دریاء سیاست میں آئی تغیانی ختم ہوتے ہی انتہائی آرام سے بہنا شروع ہو گیا۔
لیکن جو پارٹی حکومت میں آئی تھی شاید اسکی خصلت میں آرام تھا ہی نہیں بقول دادی جنت مکانی کے
"ایہہ بچہ پارہ کھا کے جمیا اے کدھرے ٹکدا ،ای نہیں”
اگر ہم الیکشن 2018 کی بات کریں تو 87 سیاسی پارٹیوں سمیت ایک بڑی تعداد میں آزاد امیدواروں نے حصہ لیا ، حکومتی پارٹی اور اسکی معاون سیاسی پارٹیوں اور آزاد امیدواروں کے علاوہ تمام کی تمام سیاسی پارٹیاں جو کے ایوان میں شامل تھیں کے آپس میں ہمیشہ ہی روابط رہے اور سب کے سب اس بات پر متفق تھے کہ انکی لڑائی الیکشن کی حد تک ہی ہے اور اسکے بعد انکا جینا مرنا اسی ملک میں ایک دوسرے کےساتھ ہی ہے لیکن حکومتی پارٹی نے تو جیسے قسم کھا رکھی تھی اور انہوں نے سیاسی رواداری و اخلاقی پاسداریوں کو ایک سائیڈ کر کے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا لی،
وقت نے ایکبار پھر کروٹ لی اور حاکم وقت کردہ و ناکردہ گناہوں کی سزا کے باعث جیل میں ہے پھر الیکشن کا بگل بج اٹھا اور عوام نے الیکشن کی تیاری شروع کر دی، سیاست دانوں نے ایک بار پھر سے اپنی اپنی کمانیں کس لیں اور ایک دوسرے پر تاک تاک کر حملے شروع کر دئے لیکن اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے، جبکہ دوسری جانب ایک پارٹی جو کے جیل سے آڈرز لے کر اپنا الیکشن لڑ رہی تھی کی روش میں کوئی تبدیلی نا آئی ، نا ہی انکے سربراہ کی گفتگو میں کوئی فرق آیا اور نا ہی دیگر لیڈران کے الفاظ میں کوئی نرمی آئی، مطلب انہوں نے گزشتہ 5 سال کی لگائی ہوئی گرہوں میں مزید اضافہ کرنا شروع کر دیا
آج کے دن جبکہ الیکشن گزرے 7 روز ہو چکے ہیں ابھی تک کسی بھی جماعت کی سیٹیں اتنی نہیں ہیں کے وہ خود سے حکومت بنا سکیں ، تو وہ ہی تمام کی تمام سیاسی پارٹیاں پھر سے سیاسی بصیرت یا اخلاقی پاسداری کی خاطر مل بیٹھیں اور مل کر حکومت بنانے اور ساتھ چلنے کے فارمولے طے کرنے شروع کر دئیے ہیں جبکہ اسیر جیل کی جانب سے پریس ریلیز آتی ہے کے وہ الگ سے اپنی حکومت بنائیں گے وہ چوروں، ڈاکووں و لٹیروں کے ساتھ بیٹھنا پسند نہیں کرتے، یہ پریس ریلیز اس بیان کے جواب میں تھی جسمیں کہا گیا تھا کے ہم مصالحت کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کے پی ٹی آئی بھی ہمارے ساتھ مل کر چلے۔۔۔
خیر اسیر جیل کی پارٹی جو کے ایک صوبے میں کثیر سیٹوں کے باعث حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے لیکن پھر بھی مکمل حکمرانی کے لئے انکو دیگر پارٹیوں کی ضرورت ہے ، اس دوران انہوں نے اپنے ہاتھوں کی لگائی گرہوں کو کھولنے کی کوشش کی تو ایسا نا ہو سکا کیونکہ انہوں نے مرکز میں جس پارٹی کے ساتھ اتحاد کیا وہ بیچاری خود ایک بھی سیٹ نا جیت سکی اور نا ہی انکے پاس عوام میں کسی بھی قسم کی پذیرائی ہے، صوبے میں حکومت میں انہوں نے جماعت اسلامی سے رابطہ کیا جو کے ایک زمانے میں انکی حلیف تھی اور دونوں نے مل کر کے پی کے میں حکومت کی تھی لیکن اس بار انہوں نے صاف جواب دے دیا، اسی طرح بلوچستان عوامی پارٹی نے بھی صاف صاف جواب دے دیا،
دوپہر میں ایک لیڈر اسیر جیل سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہیں کے بانی پارٹی نے تمام سیاسی جماعتوں سے بات کرنے کی ڈیوٹی لگا دی ہے اور پی پی پی سے بھی رابطہ کیا جاوے گا
تھوڑی دیر بعد دیگر دو لیڈران بھی جیل سے ملاقات کے بعد باہر آتے ہیں اور پریس کانفرنس میں بتاتے ہیں کے بانی پارٹی نے پی ڈی ایم کی جماعتوں سے ملاقات و گفتگو کرنے سے منع کر دیا ہے اس لئے ہم پی پی پی سے کوئی رابطہ نہیں کریں گے اور دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو تف ہے ایسی نگران حکومت پر جوآئے دن پٹرولیم مصنوعات بلکہ خصوصا ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کرتے جا رہی ہےجس سے عام عوام کا تو جینا مشکل ہوتا ہی جا رہا ہے وہیں پر اب پی ٹی آئی بھی ڈیزل کی مرہون منت ہونے کے باعث تیل پانی کی امداد واسطے ایک ایسی جماعت کے در پر آ بیٹھے ہیں جہاں جانا تو ایک طرف اس در کی جانب دیکھنا بھی انکے لئے گناہ کبیرہ تھا۔۔
اسی لئے کہتے ہیں کے ایک وقت آتا ہے جب ہاتھوں کی لگائی گرہیں دانتوں سے بھی بہت مشکل
آپ نے جس بات کو انتہائی شائستگی سے تحریر کیا اس کو عام لوگ عمران خان کا تکبر کہتے ہیں اور تکبر کے نتیجے میں وہ سیاسی حمایت سے محروم ہوچکا ہے اس کا حریف نوازشریف اپنے اعلی اخلاق کی وجہ سے مقبول ہورہا ہے جب کہ عمران صرف اپنے جاہلوں میں مقبول ہے۔۔۔۔ملک عملی طور پر دو طبقات میں منقسم ہے ایک وہ جو جاہل بدزبان ہیں ان میں ہر طرح کی بدکرداری موجود ہے دوسرے کم از کم بدزبان نہیں ہیں دونوں میں تعاون کےلئے کوئ چیز مشترک نہیں ہے اس کو مولانا بڑے پیار سے ٹکڑے ٹکڑے کردیں گے مولانا کو یہ جہلا نہیں سمجھ سکے