پاکستان اور افغانستان کا آپسی تعلق لو اینڈ ہیٹ جیسا ہے یعنی ایک دوسرے کے بغیر رہ بھی نہیں سکتے اور ایک دوسرے کے ساتھ بھی رہنا دشوار ہے، بقول میرے دادا جنت مکانی
” بھکا پٹھان تے سکھا سلواڑ”
مطلب جیسے سلواڑ(ایک جنگلی پودا جسکے پتے بہت تیزدھار ہوتے ہیں لیکن اسکا تنا بہت ہی باریک ہوتا ہے جو انتہائی آسانی سے ٹوٹ اور کاٹا جا سکتا ہے) لیکن اسکو جب بھی دیکھیں گے وہ ہمیشہ ہی سر اٹھائے کھٹرا نظر آتا ہے، سرکنڈے اور کانے کی طرح، اب اگر دیکھا جائے تو پاکستان ہی وہ ملک ہے جس نے دھائیوں تک اس ملک میں جاری جنگ و جدل سے پریشان عوام کو اپنے ملک میں رہنے کو جگہ اور کھانے کو وہ ہی کچھ مہیا کیا جو اس ملک کی عوام کھا رہی تھی ، انکو آنے جانے کی سہولت تھی وہ آزادی سے باڈر کراس کر کے اپنے آبائی ملک آتے جاتے اور پاکستان میں انہوں نے اپنے کاروبار جما لئے، انکی 3 نسلیں اسی ملک پاکستان میں پیدا ہوئیں لیکن ناجانے نمک میں اتنا اثر کیوں نا ہوا اور پاکستان کو ہمیشہ طعنہ ہی ملتا رہا ۔
بات اگر طعنہ تک ہی ہوتی تو کوئی مسلہ نہیں لیکن بات وہاں خراب ہونا شروع ہوئی جب افغانستان سے پاکستان کی زمینی حدود کی خلاف ورزیاں شروع کی گئیں اور دشمن ملک کےنا صرف سہولت کار کے طور پر کام شروع کر دیا بلکہ اسکے ہراول دستے کے طور پر پاکستان میں حملے اور ریاست کو توڑنے کی کوششوں میں پوری طرح مصروف ہو جانا۔
اگر دنیا بھر کے ممالک اور خاص طور پر مسلم ممالک کو دیکھیں تو جہاں پر بھی مہاجرین گئے انہوں نے مہاجرین کو الگ کیمپس میں اپنی عوام سے ودر رکھا اور انکو کام کاج کی بھی اتنی اجازت نہیں ہوتی لیکن پاکستان نے افغان مہاجرین کو بھائیوں کی طرح اپنی عوام کے ساتھ مل جل کر رہنے اور کام کاج کرنے کی کھلی آزادی دی جسکا جواب پاکستان میں دہشت گردی قتل و غارت اور دشمن ملک انڈیا کی خواہشات کے عین مطابق ریاست کو کمزور کرنا تھا۔
جسکا نتیجہ چند ماہ پہلے یہ نکلا کے پاکستان حکومت نے غیر رجسٹرڈ مہاجرین کو ملک سے باہر نکلانے کا اعلان کیا کیونکہ غیر رجسٹرڈ افغانی ہی زیادہ تر ایسی وارداتوں میں ملوث ہوتے تھے کیونکہ وہ جب پاکستان آتے تو یہ موجود افغانیوں میں گھل مل جاتے اور دہشتگردی کی کاروائیاں کر کے واپس افغانستان نکل جاتے ، غیر رجسٹرڈ کو ملک سے نکالنے پر کیا کچھ ہوا اور کس نے عمل کو اپنی سیاسی ساکھ بڑھانے کے لئے استعمال کیا اس قصہ کو پھر کسی وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں،
لیکن گزشتہ چند ماہ سے ایک بار پھر افغانستان کی زمین استعمال کر کے ریاست پاکستان ، پاک فوج کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف ہونے والے حملے بڑھنے کے ساتھ ہی حکومت نے افغان ریاست کو ان دہشت گرد عناصر کے بابت معلومات مہیا کئیں اور سرجیکل اسٹرائیک کر کے ایسے عناصر کا ایک کیمپ بھی تباہ کر دیا تھا، لیکن حالیہ دنوں میں فوج کی ایک چیک پوسٹ پر حملہ کی وجہ سے ایک لیفٹینٹ کرنل، ایک کیپٹن سمیت 5 جوانوں کی شہادت کے بعد پاکستان حکومت نے افغانستان کے صوبوں خوست اور پکتیکا میں ہوائی حملہ کیا اور پاکستان میں دہشت کرنے والے ٹی ٹی پی کے ایک کمانڈر "حافظ گل نیٹ ورک” کے ٹھکانوں پر حملہ کر کے فوجی چوکی پر حملہ کرنے کا ترکی بہ ترکی جواب دے دیا۔
جس پر اقوام متحدہ میں افغانستان کے مستقل مشن کے قائم مقام سربراہ نصیر احمد فائق نے افغان سرزمین پر حالیہ پاکستانی حملوں کے ردعمل میں کہا ہے کہ یہ حملے بین الاقوامی قوانین اور افغانستان کی علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی ہی
فائق نے کہا: "افغان سرزمین پر پاکستانی فوج کے فضائی حملے بین الاقوامی قوانین، علاقائی سالمیت اور ملک کی خودمختاری کی صریح خلاف ورزی ہے۔”
کسی بھی بہانے افغان سرزمین پر پاکستانی فوجی فضائی حملے بین الاقوامی قانون اور افغانستان کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ ہم ان اقدامات کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ افغان خواتین اور بچوں کا قتل ناقابل قبول ہے اور کسی بھی سیکورٹی خطرات کا جواز پیش نہیں کیا جا سکتا،‘‘
جبکہ پاکستانی حکام کا دعویٰ ہے کہ افغان ہم منصب افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسندوں کی موجودگی کی حمایت کرتے ہیں۔
جبکہ افغانستان کی وزارت خارجہ نے پاکستانی عوام اور نئی سویلین حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ یکطرفہ اقدامات کو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو تاریک کرنے کی اجازت نہ دیں۔
وزارت کے بیان میں مزید زور دیا گیا ہے کہ طالبان کی حملہ آوروں کو پسپا کرنے کی ایک طویل تاریخ ہے اور وہ افغان سرزمین پر حملوں کو برداشت نہیں کرتے۔
لیکن اگر خطہ میں اور خاص طور پر افغانستان میں کسی بھی قسم کی کاروائیوں کے جواب میں امریکہ کا بیان بھی سامنے آ گیا ہے،
امریکا نے کہا ہے کہ پاکستان نے سیکورٹی چیک پوسٹ پرحملے کے بعد جواب میں فضائی کارروائی کی۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے میڈیا بریفنگ میں کہا کہ رپورٹس کے مطابق پاکستان کے فضائی حملے جوابی کارروائی تھی جو چیک پوسٹ پر خود کش حملے کے بعد کی گئی۔ چیک پوسٹ پرحملے میں پاکستانی فوجیوں کے جاں بحق ہونے پر افسوس ہے۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان پر زور دیتے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین دوسروں پر حملوں کے لیے استعمال نہ ہونے دیں۔ پاکستان اور افغانستان اختلافات حل کریں۔ افغانستان دوبارہ دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہ بننے اس بارے میں پرعزم ہیں۔
یہ فضائی حملے مبینہ طور پر خیبر پختونخواہ کے علاقے میں پاکستانی فوجی اہلکاروں پر حملوں کے جواب میں کیے گئے تھے
یہ تو ہوا ، اس حملے کے بعد امریکہ کی جانب سے وہ بیان جو پاکستان کے بیانیہ کی تائید کرتا ہے کے کسی بھی ملک کو آزادی نہیں کے وہ دوسرے ملک میں ہونے والی دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرے اور کسی بھی خود مختیار ملک کی طرح وہ اپنے خلاف ہونے والی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کا حق رکھتا ہے چاہے وہ اس کی سرحدی حدود میں ہو یا سرحد پار کسی دوسرے ملک میں اور پاکستان نے اپنی حق استعمال کیا، یاران من کہہ رہے ہیں کے غیر رجسٹرڈ افغانیوں کو تو واپس بھجوا ہی رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ وسط اپریل سے رجسٹرڈ افغانیوں کو بھی ملک بدری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے
جیسے گزرے چند ہفتے قبل بھی ایک اسلامی ہمسایہ ملک نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی اور پاکستان میں صوبہ بلوچستان میں میزائل مارے یہ کہہ کر کے ہمارے ملک دشمن اس علاقہ میں روپوش ہیں جسکاکھرا جواب اگلے ہی دن پاکستان نے دے دیا اور پاکستان میں ایرانی فنڈڈ دہشتگردی کرنے والے گروپس کے نا صرف کیمپوں پر حملہ کیا بلکہ ان کیمپوں کے کمانڈر کو بھی جہنم واصل کر دیا اور عالمی برادی نے اس حملہ کو بھی پاکستان کا حق کہتے ہوئے جائز قرار دیا تھا۔
یکے بعد دیگرے دو ممالک کی جانب سے ہونے والے حملے اور انکا دندان شکن جواب اور عالمی برادری سے پاکستان کی حمایت اس بات کو ظاہر کرتا ہے کے پاکستان ایک پرامن ملک ہے وہ کہیں بھی دہشت کردی ایکسپورٹ نہیں کرتا بلکہ خود دہشت گردی کا نشانہ ہے اور ان دو واقعات سے انڈیا کو بہت بڑا سیٹ بیک لگا ہے کیونکہ وہ کینیڈا کے بعد امریکہ میں بھی دہشت گردی کے واقعات میں رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے لیکن ہر محاذ اپنے آپ کو مظلوم اور پاکستان کو دہشت گرد ملک ثابت کرنے کی مہم پر لگا ہوا ہے ۔
نوٹ:
اس کالم کی تیاری میں ایرانی، افغانی۔ پاکستانی اور امریکی نیوز ایجینسیز کی انفارمیشن شامل ہے