بھارت نے نئی دہلی کی زیر صدارت نو ستمبر کو دو روزہ G20 سربراہی اجلاس میں دنیا کے سب سے طاقتور لیڈروں کی میزبانی کی۔جن کی حفاظت کے لیے تقریباً 130,000 سیکورٹی افسران کو تعینات کیا گیا ۔یہ سمٹ وزیر اعظم نریندر مودی اور عالمی سطح پر بھارت کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے لیے ایک اہم ترین موقع قرار دیا گیا ہے ۔جی 20 گروپ دنیا کے 19 امیر ترین ممالک اور یورپی یونین پر مشتمل ہے جس کا عالمی اقتصادی پیداوار میں حصہ 85 فیصد ہے۔انڈیا کا جی 20 اجلاس کے لیے نعرہ تھا، "ایک دنیا، ایک خاندان، ایک مستقبل”۔
شرکائے کانفرنس
اس کانفرنس میں بھارت نے اب تک اپنے ملک میں دنیا کی بہترین قیادت کا استقبال کیا ہے۔جس میں امریکی صدر جو بائیڈن ، برطانوی وزیر اعظم رشی سنک اور سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ، کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو اور چینی وزیر اعظم لی کی چیانگ سمیت دیگر عالمی رہنما شریک ہیں۔
اس کانفرنس میں جاپان، آسٹریلیا، فرانس اور جرمنی کے رہنما بھی شامل ہوئے جبکہ روسی صدر ولادی میر پوٹن، جنہیں یوکرین کی جنگ کی وجہ سے مغرب کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے، ان کی نمائندگی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کی۔اس کانفرنس میں اقوام متحدہ، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، ورلڈ بینک، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے سربراہان بھی شریک ہوئے۔
پرگتی میدان
یہ تقریب وسیع و عریض اور نئے سرے سے تزئین و آرائش کیے گئے بھارتی میوزیم "پرگتی میدان” میں منعقد کی گئی جو نیو دہلی کے وسط میں واقع کنونشن سینٹر سے زیادہ میوزیم کا درجہ رکھتا ہے۔بھارت کے لیے "یہ ایک اہم اور تاریخی لمحہ تھا”۔
سیکورٹی کے انتظامات
امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے ہوم گارڈز اور پیرا ملٹری بارڈر سیکیورٹی فورس سمیت دیگر سرکاری سیکیورٹی سروسز کے ہزاروں اہلکاروں کو تعینات کیا گیا۔ اس موقع پر متوقع احتجاج اور ریلیوں پر قابو پانے کے لیے، پولیس کی مناسب اور بھاری نفری بھی موجود تھی۔یاد رہے کہ ایسے مواقعوں پر احتجاجی مظاہرے کیے جاتے ہیں ۔
تاہم مرکزی مقام کی حفاظت دہلی پولیس کے ایک اور خصوصی کمشنر رنویر سنگھ کرشنیا کے ماتحت ایک ٹیم نے کی، رنویر سنگھ کا شمار بھارت کے سخت گیر پولیس افسران میں کیا جاتا ہے ۔اگرچہ دارالحکومت نسبتاً پرامن ہے تاہم پچھلے مہینے گروگرام سے ملحقہ صنعتی بستی میں فرقہ وارانہ کشیدگی بھڑک اٹھی تھی جس میں کم از کم سات افراد مارے گئے تھے۔ بیس ملین آبادی والے شہر نئی دہلی کے داخلی راستوں کی سخت حفاظت اور مانیٹرنگ کی گئی ۔اس دوران شہر میں تقریباً 130,000 سیکورٹی اہلکاروں سمیت دہلی پولیس کے اسی ہزار چاک و چوبند دستے موجود تھے ۔
عالمی خبر رساں اداروں کے مطابق بھارتی فضائیہ نے دہلی اور قریبی علاقوں میں بھرپور اور جامع ایرو اسپیس ڈیفنس کے لیے اقدامات کر رکھے تھے۔جبکہ ہندوستانی فوج، بشمول فضائیہ، دہلی پولیس اور نیم فوجی دستوں کے ساتھ کسی بھی فضائی خطرات کو روکنے کے لیے اینٹی ڈرون سسٹم بھی تعینات کئے گئے تھے۔ تقریباً 400 فائر فائٹرز بھی ہمہ وقت کال پر تھے۔
اہم مقامات پر سیکیورٹی کنٹرول روم قائم کئے گئے تھے اور آئی ٹی سی موریا ہوٹل جیسے اہم ہوٹلوں پر خصوصی حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے ۔جہاں بائیڈن قیام کر رہے تھے۔
شہر کی سجاوٹ
مودی نے G20 کی صدارت کو ملک بھر میں ایک قومی تقریب میں تبدیل کر کے رکھ دیا تھا، جس میں گروپ کی مختلف میٹنگز ملک کے اہم حصوں بشمول شورش زدہ ریاستوں اروناچل پردیش اور کشمیر میں سری نگر شہر میں منعقد کی گئیں۔
سڑکوں، ہوائی اڈوں، بس سٹاپوں، پارکوں، ریلوے سٹیشنوں، سرکاری دفاتر اور سرکاری میڈیا کو سال بھر کے لیے جی 20 کے اشتہارات سے آراستہ کیا گیا ۔
نئی دہلی میں، نئے فوارے اور آرائشی پودے ٹریفک کے اہم اشاروں کی زینت بنے ہوئے ہیں جبکہ لنگوروں کے لائف سائز کٹ آؤٹ ، ایک بڑا بندر جس کا چہرہ سیاہ ہے، شہر کے بندروں کے خطرے سے لڑنے کے لیے کئی علاقوں میں لگائے ۔نریندر مودی نے سربراہی اجلاس کی میزبانی کے لیے جولائی میں دارالحکومت میں $300 ملین کی لاگت سے ایک مقام کا افتتاح کیا تھا شنکھ کی شکل کی حامل اس عمارت میں تقریباً 3,000 سے زیادہ افراد بیٹھ سکتے ہیں۔ حکومت نے لیڈروں کو لے جانے کے لیے 180 ملین ہندوستانی روپے ($2.18 ملین) کی لاگت سے 20 بلٹ پروف لیموزین بھی لیز پر لیں۔
روایتی نہ بنیں
واضح رہے کہ بہت سے عالمی رہنما اپنے اپنے محافظوں اور گاڑیوں کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔ ایک سرکاری اہلکار نے بتایا کہ ہندوستان نے ان ممالک سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنے ساتھ لانے والی کاروں اور اہلکاروں کی تعداد کے بارے میں "روایتی” نہ بنیں، لیکن اس نے اس حوالے سے کوئی پابندی نہیں لگائی ۔ تاہم امریکہ سربراہی اجلاس کے ارد گرد ایک ہفتے کے لیے 20 سے زیادہ طیارے لا رہا ہے۔
جی 20 اجلاس میں کیے گئے معاہدے
عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق سعودی عرب اور امریکا نے بین البراعظمی سبز راہداری (گرین کوریڈور) کی تعمیر کے ایک پروٹوکول کی تیاری کے لیے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے ہیں۔سعودی پریس ایجنسی (ایس پی اے) کے مطابق یہ ٹرانزٹ کوریڈور(راہداری) ریلوے کے ذریعے ایشیا کو سعودی عرب کے راستے سے یورپ سے جوڑے گا۔اس کا مقصد تاروں اور پائپ لائنوں کے ذریعے قابل تجدید بجلی اور صاف ہائیڈروجن کی تیز رفتار منتقلی کی سہولت مہیّا کرنا ہے۔مفاہمت کی اس یادداشت پر گروپ 20 کے سربراہ اجلاس کے موقع پر دستخط کیے گئے تھے۔
ایس پی اے کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کا مقصد صاف توانائی کی ترقی، فائبر آپٹک کیبلز کے ذریعے ڈیٹا کی منتقلی اور اس سے ڈیجیٹل معیشت کو وسعت دینا،تجارت کو مضبوط بنانا اور ریلوے اور بندرگاہوں کو باہم مربوط کرکے سامان کی ترسیل کے لیے گذرگاہوں کی تعداد میں اضافہ کرنا ہے۔
جبکہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے بھارت، مشرقِ اوسط اور یورپ کے درمیان اقتصادی راہداری کے منصوبے سے متعلق مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کیے گئے ہیں ۔
انھوں نے ہفتے کے روز بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں منعقدہ جی 20 سربراہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس اقتصادی راہداری سے تینوں خطوں کے درمیان باہمی تجارت میں اضافہ ہوگا۔اس میں ریلوے، بجلی اور ہائیڈروجن کی پائپ لائنیں بھی شامل ہیں اور اس سے بین الاقوامی توانائی کی سلامتی میں مدد ملے گی۔سعودی ولی عہد نے کہا کہ یہ منصوبہ مشرقِ اوسط، یورپ اور بھارت کی بندرگاہوں کو بھی باہم مربوط کرے گا۔
عشائیے کے خوان میں باجرے سے بنی ڈشیز کی نمائش
عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں گروپ 20 کے سربراہ اجلاس میں شریک رہ نماؤں کے ’لذتِ کام ودہن‘ کے لیے عشائیے میں غیرروایتی ’’سبزی خور گالا‘‘پیش کیا گیا اور اس میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے پسندیدہ اناج باجرے سے تیار کردہ کھانوں کی خوب نمائش کی گئی۔
پہلے روز جی 20 سربراہ کانفرنس کے بعد پیش کیا جانے والا سبزی خور مینو بھارت کے ذائقے دار مسالوں سے بھرپور تھا۔اس میں جنگل کے چمک دار مشروم کے ساتھ پیش کی جانے والی گری باداموں والی فیرنی تھی۔اس کے ساتھ ’’چھوٹے باجرے کے لذیذ کرسپس اور کڑی پتے سے مزین کیرالہ کے سرخ چاول” بھی شامل تھے۔ابتدا میں باجرے کے پتوں کے کرسپس کو دہی بھلوں کے ساتھ اوپر رکھا گیا تھا اور مٹھائی میں باجرے سے تیار کردہ خوشبو دار حلوہ بھی تھا۔
واضح رہے کہ بھارت باجرا پیدا کرنے والا دنیا میں سب سے بڑا ملک ہے اوراس کا دوسرا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔یہ گلوٹین سے پاک اناج ہے اور پانی کی کم مقدار کے ساتھ عام زمین پر بھی اگ سکتا ہے۔مودی حکومت 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے اس کی پیداوار اور کھپت کو بڑھانے کے لیے کام کر رہی ہے۔اقوام متحدہ نے بھارت کی تجویز پر 2023 کو باجرے کے بین الاقوامی سال کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے۔
عشائیے کے کھانوں کی فہرست (مینو) میں لکھا ہے کہ ’’بھارت بھر میں اگائے جانے والے باجرے کا ذائقہ،اپنے معزز مہمانوں کو پیش کرنےکے لیے آج کے مینو میں ہم نے اس کے کچھ پکوان شامل کیے ہیں‘‘۔
باجرا گندم سے آدھے وقت میں اگتا ہے اور چاول کے پانی کا 30 فی صد استعمال کرتا ہے۔ مینو میں اسے ’’سپر فوڈ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ باجرا خراب اور خشک حالات میں اگ سکتا ہے اور وہ موسمیاتی تبدیلی اور غذائی تحفظ جیسے مسائل سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔باجرا ہزاروں سال سے ہندوستان کے بہت سے علاقوں میں ایک اہم غذا تھا ، اور اسے دلیے ، روٹی ، ڈوسا پین کیکس اور دال کے ساتھ کھایا جاتا تھا۔
لیکن 1940ء کی دہائی میں ہندوستان میں شروع ہونے والے "سبز انقلاب” کے بعد باجرے کی پیداوار میں کمی دیکھنے میں آئی کیونکہ گندم اور چاول کی ہائبرڈ اعلیٰ پیداوار والی اقسام نے اہمیت حاصل کرلی تھی۔نتیجۃً باجرے کو دیہی غریبوں کی خوراک کے طور پر دیکھا جانے لگا۔
تاہم، اب، ریستورانوں کے باورچی باجرا ٹورٹیلا، پیٹا جیب اور پین کیکس جیسی فیوژن تراکیب کے ذریعے اناج کو بڑھا رہے ہیں، اور مائیکرو بریوریز باجرے پر مبنی شراب پیش کر رہے ہیں۔
بھارت نے 2021 میں چھے کروڑ 40 لاکھ ڈالر مالیت کا باجرا برآمد کیا تھا۔اس سے ظاہرہوتا ہے کہ گذشتہ برسوں کے مقابلے میں اس کی پیداوار میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
اب وہ بھارت کہلائے گا
عشائیہ میں شرکت کے دعوت نامے صدر جمہوریہ بھارت کے نام پر بھیجے گئے تھے۔یہ ہندوستان کا نام ہے جسے مودی اور بہت سے ہندوستانی استعمال کرتے ہیں اوریہ ایک قدیم سنسکرت لفظ ہے اور اب وہ بھارت کو انڈیا، ہند یا ہندوستان کے بجائے سرکاری طور پر اپنانا چاہتے ہیں۔
اس بیان کے بعد یہ افواہیں گردش کرنے لگیں کہ ملک کے انگریزی نام ’انڈیا‘ کا سرکاری استعمال ختم کر دیا جائے گا، جس پر ہندو قوم پرست مودی نے ہفتے کے روز ایک بار پھر "بھارت” ملک کے نام کی تختی کے پیچھے بات کی اور عشائیے کے مینو نے اس نکتے کو تقویت بخشی ہے۔
انھوں نے کہا کہ روایات، رسم و رواج اور آب و ہوا کا مجموعہ بھارت کئی لحاظ سے متنوع ہے۔’’ذائقہ ہمیں جوڑتا ہے‘‘۔
جی20 کانفرنس کا اعلامیہ
دہلی میں ہونے والے جی 20 سربراہی اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ مذہبی عقائد، اظہار رائے کی آزادی اور پر امن اجتماعات کے حق پر زور دیتے ہوئے ہر قسم کی عدم برداشت، مذہبی عقائد کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی مخالفت کرتے ہیں۔اعلامیہ میں لوگوں کے خلاف مذہبی منافرت کی کارروائیوں اور مقدس کتابوں اور علامات کے خلاف نفرت انگیز کارروائیوں کی بھی سخت مذمت کی گئی ہے۔ متفقہ اعلامیہ میں موسمیاتی تبدیلی سے لے کر ماحول دوست ترقی، صںفی مساوات اور انسداد دہشت گردی تک بہت سے مسائل کا احاطہ بھی کیا گیا ہے۔
سعودیہ اور بھارت کے درمیان 50 مشترکہ معاہدوں،سمجھوتوں پر دستخط
عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے سوموار کو نئی دہلی میں ایک تقریب میں خود اور ان کی نگرانی میں دونوں ممالک کے حکام نے دوطرفہ تعاون کے متعدد مشترکہ معاہدوں اور سمجھوتوں پر دست خط کیے ہیں۔
اتوار کو جی 20 سربراہ اجلاس کے اختتام کے بعد نئی دہلی میں سعودی ولی عہد کے لیے باضابطہ استقبالیہ تقریب کا انعقاد کیا گیا۔جہاں وزیراعظم نریندر مودی اور شہزادہ محمد بن سلمان کی موجودگی میں دونوں ملکوں کے حکام کے درمیان دوطرفہ تعاون کے کم سے کم 50 معاہدے اور سمجھوتے طے پائے ہیں۔
ان میں سعودی عرب کی وزارتِ سرمایہ کاری اور بھارت کی قومی ایجنسی برائے فروغِ سرمایہ کاری اور سہولت کے درمیان طے پانے والے متعدد معاہدوں سمیت توانائی ، پیٹرو کیمیکل ، قابلِ تجدید توانائی ، زراعت اور صنعت کے علاوہ سماجی اور ثقافتی شعبوں میں دوطرفہ تعاون بڑھانے کے معاہدے شامل ہیں۔ جس کے بارے میں بھارت کی وزارتِ خارجہ کے سرکاری ترجمان نے سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر اپنے سرکاری صفحے پر اطلاع دی ۔
اعلامیہ پر اقوام متحدہ کا خیر مقدم
اقوام متحدہ نے نئی دہلی میں جی20 کانفرنس میں منظور کردہ اعلامیے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے دنیا میں بڑے پیمانے پر پائی جانے والی تقسیم کے وقت موثر قیادت کی مثال قرار دیا ہے۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کے ترجمان سٹیفن ڈوجیرک نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ نے پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) کی جانب پیش رفت کی رفتار تیز کرنے سے متعلق اعلامیے کی زبان کا خاص طور پر خیرمقدم کیا ہے۔
عالمی ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اعلامیے میں کیے گئے وعدوں اور اس بارے میں پڑھ کر خاص طور پر خوشی ہوئی ہے کہ 2030 کی مقررہ مدت تک ان اہداف کے قریب تر پہنچنے کے لیے بھی سب کو نئی توانائی اور نئی سرمایہ کاری سے کیسے کام لینا ہو گا۔انہوں نے واضح کیا کہ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات اور پائیدار ترقی کے لیے عالمگیر قیادت خاص طور پر ضروری ہے۔
اعلامیے میں اناج سے متعلقہ اُس معاہدے کی بحالی اور اس پر مکمل عملدرآمد کا بھی مطالبہ کیا گیا جو بحیرۂ اسود کے راستے یوکرینی زرعی مصنوعات کو برآمد کرنے کی اجازت دیتا ہے۔نئی دہلی اعلامیے میں ترقی پذیر اور کم ترقی یافتہ ممالک کی طلب کو پورا کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
نئے رکن کی شمولیت
دریں اثںا، جی20 نے افریقن یونین (اے یو) کو نئے رکن کی حیثیت سے اپنے ساتھ شامل کرنے کی منظوری بھی دی اور اقوام متحدہ نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کے ترجمان سٹیفن ڈوجیرک نے کہا کہ اس سے افریقہ کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ اور عالمی منظرنامے پر اس کی اہمیت کی عکاسی ہوتی ہے۔ جب موجودہ بین الاقوامی کثیرفریقی نظام کا بڑا حصہ وضع کیا جا رہا تھا تو افریقہ کا زیادہ تر حصہ بدستور نوآبادیاتی حکمرانی کے تابع تھا اور اسے اپنی بات کہنے کا موقع نہ مل سکا۔ یہ اس عدم توازن کو ختم کرنے کی جانب ایک اور قدم ہے۔
روس کا رویہ
ایسا نہیں تھا کہ کانفرنس کا ماحول بہت زیادہ خوشگوار تھا۔ دیگر عالمی طاقتوں کی روس کے خلاف پائی جانے والی سردمہری کا بھارت کو بخوبی اندازہ تھا ، ان سب معاملات کو سنبھالنے کے لیے میزبان نریندر مودی نے ہر طرف سے سب کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔ روس کی خواہش تھی کہ اسے سنا جائے ۔روسی وزیر خارجہ سرگئی لافروف نے جی 20 سربراہ اجلاس میں کہا ہے کہ بھارت سمیت ڈالر میں تجارت کو کم کرنے کا عمل پہلے ہی شروع ہو چکا ہے۔
جبکہ اسی تناظر میں روس کے صدر ولادی میر پوتین نے اگست میں برکس سربراہ اجلاس سے قبل کہا تھا کہ ’’بلاک کی قیادت رکن ممالک کے درمیان تجارت کو امریکی ڈالر سے ماورا اور قومی کرنسیوں میں تبدیل کرنے کے سوال پر تفصیلی تبادلہ خیال کرے گی۔یہ ایک ایسا عمل جس میں برکس کا نیا ترقیاتی بینک ایک بڑا کردار ادا کرے گا‘‘۔انھوں نے کہا کہ ’’ہمارے اقتصادی تعلقات میں ڈالر سے گریز کا عمل ایک مقصد کے طور پر ناقابل تغیّرانداز میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے‘‘۔
متفقہ اعلامیہ پر ردعمل
رواں سال نئی دہلی میں منعقدہ جی 20 سربراہ اجلاس کے سربراہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اعلامیے کی منظوری کا اعلان ہفتے کے روز کیا۔ جی 20 رہنماؤں نے تالیاں بجا کر اس اعلان کا خیرمقدم کیا۔یوکرین پر روسی حملے کے حوالے سے اعلامیے میں کہا گیا ہے، ’’تمام ریاستوں کو علاقہ حاصل کرنے کے لیے دھمکی دینے یا طاقت استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے‘‘۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’جوہری ہتھیار استعمال کرنا یا استعمال کرنے کی دھمکی دینا ناقابلِ قبول ہے‘‘۔
بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جےشنکر نے کہا کہ ’’گزشتہ چند روز، جغرافیائی سیاسی مسائل پر خصوصاً کافی زیادہ وقت صَرف کیا گیا جو حقیقتاً یوکرین کی جنگ پر مرکوز تھے‘‘۔ انہوں نے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے روس کے ساتھ شدید اختلافات کی روشنی میں مشترکہ بنیاد تلاش کرنے کے لیے بطور سربراہ بھارتی کوششوں پر زور دیا۔
نئی دہلی اعلامیہ، اُن الفاظ کو شامل کرنے میں ناکام رہا، جن پر گزشتہ سال انڈونیشیاء میں منعقدہ جی 20 سربراہ اجلاس میں روس کا نام لے کر اُس کی مذمت کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔یوکرین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے سوشل میڈیا پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’جی 20 کے پاس کوئی قابلِ فخر چیز نہیں ہے‘‘۔