مغل شہنشاہ شاہجہاں ہی کے زمانے میں نئی دہلی میں وہاں کی پرانی زبان نئے سرے سے زندہ ہوتی ہے ۔ جو عہدِ عالمگیری میں برج بھاشا کے قدم ادبی حلقوں سے اُکھاڑ دیتی ہے۔ بعض مُحققین ( کیفیہ صفحہ نمبر 25 از پنڈت دتاتریہ کیفی۔ پنڈت جی نے یہ حوالہ نہیں دیا کہ غزل مذکورہ کہاں سے دستیاب ہوئی) کے مطابق اردو کی اولین غزل جو اس وقت دستیاب ہے شاہ جہاں ہی کے عہد میں پنڈت چندر بھان برہمن ( 1574 تا 1662 ) نے لکھی تھی۔
جس کا حوالہ "مقدمہ تاریخِ زبانِ اردو”تالیف ڈاکٹر مسعود حسین خان ایم اے پی ایچ ڈی ( علیگ ) ڈی لٹ ( پیرس ) صدر شعبہء اردو ، جامعہ عثمانیہ، حیدر آباد دکن کی کتاب کے صفحہ نمبر 125۔126 ہے۔ پاکستان میں اس کے ناشر اردو مرکز لاہور ہے ۔
آپ غزل ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔
خدا جانے یہ کس شہر اندر ہمن کو لاکے ڈالا ہے
نہ دلبر ہے نہ ساقی ہے نہ شیشہ ہے نہ پیالا ہے
پیا کے ناوں کی سِمرن کیا چاہوں کروں کیسے
نہ تسبیح ہے نہ سِمرن ہے نہ کنٹھی ہے نہ مالا ہے
پیا کے ناوں عاشق قتل با عجب دیکھے ہوں
نہ برچھی ہے نہ کرچھی ہے نہ خنجر ہے نہ بھالا ہے
خوباں کی باغ میں رونق ہووے تو کس طرح یاراں
نہ دونا ہے نہ مردا ہے نہ سوسن ہے نہ لالہ ہے
برہمن واسطے اشنان کے بھرتا ہے بگیا سیں
نہ گنگا ہے نہ جمنا ہے نہ ندی ہے نہ نالا ہے
خصوصی نوٹ ۔۔۔۔۔
غزل مذکورہ زبانِ دہلوی کی نشاط الثانیہ کا پہلا نقش کہا جا سکتا ہے۔