ارتغرل غازی کے کرداروں کی آمد سے ایک سال قبل البرھانیہ نے پاکستان میں اپنی بنیاد رکھ دی تھی
محفل سے پہلے مخصوص لائٹ جلنا، دوران اذکارتالیاں بجانا اور جھومنا، کئی نئے طریقے البرھانیہ کی پہچان
بظاہر عام سی کوٹھی میں قائم لاہور مرکز کے بارے میں اہل علاقہ کچھ نہیں جانتے، پیروکار گوگل میپ کی مدد سے بلائے جاتے ہیں
پاکستان کے بے شمار نوجوان ترکی سیریز ارتغرل غازی اور ابن عربی سے بہت متاثر ہیں۔ اس سیریز میں ارتغرل غازی اور ان کے مرشد ابن عربی جس انداز میں عبادت اور ذکر کرتے دکھائی دیے اب اسی طرح ذکر کی محفلیں پاکستان کے مختلف شہروں میں شروع ہو چکی ہیں۔ اس کے پیروکار اسے تصوف کا ایک ایسا سلسلہ بتاتے ہیں جو وقت کے ساتھ معدوم ہو گیا تھا اور اب اسے دوبارہ زندہ کیا گیا ہے۔اس کا نام”سلسلہ البرھانیہ“بتایا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 2020 کے آخر میں ارتغرل غازی سیریز کے مرکزی کردار پاکستان آنا شروع ہوئے لیکن اس سے ایک سال قبل پاکستان میں سلسلہ برھانیہ کی پہلی اینٹ رکھ دی گئی تھی اور اسلام آباد میں اس سلسلہ کا پہلا مرکز قائم کیا گیا تھا۔ اب تک پاکستان بھر میں اس سلسلے کے15 مراکز قائم ہو چکے ہیں جہاں ہر جمعرات کو پیروکار اکٹھے ہوتے ہیں۔
حیرت انگیز طور پر اس سلسلہ کے زیادہ تر مراکز پنجاب میں قائم کیے جا رہے ہیں۔ اب تک سلسلہ البرھانیہ کے مراکز اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور،کراچی، مظفرآباد، فیصل آباد، سیالکوٹ، جہلم، کھاریاں، خان پور، واہ کینٹ، جھنگ صدر، ملتان، بھکر اور ساہیوال میں قائم کیے گئے ہیں جہاں عموما درجن بھر پیروکار ہر جمعرات اکٹھے ہوتے ہیں اور مخسوص انداز میں جھومتے اور تالیاں بجاتے ہوئے عبادت کرتے ہیں۔ لاہور میں البرھانیہ کا مرکز سبزہ زار کی ایک کوٹھی میں ہے جس کے باہراس سلسلہ کے حوالے سے کسی قسم کا بورڈ آویزاں نہیں کیا گیا۔ بظاہر اس عام سی کوٹھی کی پیشانی پر اس سلسلہ کا مخصوص لوگو (نشان) لگایا گیا ہے لیکن اس سے کوئی بھی اجنبی شخص اس کوٹھی اور اس کے اندر کیے گئے اقدامات سے متعلق کچھ نہیں جان سکتا یہاں تک کہ اس علاقے کے زیادہ تر رہائشی بھی نہیں جانتے کہ اس کوٹھی یا گھر میں کیا ہو رہا ہے اور یہاں ہر جمعرات کی رات چند افراد کس مقصد کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے بھی کسی قسم کی معلومات دستیاب نہیں کہ پاکستان میں اس سلسلہ کا اصل سربراہ کون ہے اور نہ ہی البرھانیہ پاکستان نے اس حوالے سے کسی قسم کی وضاحت کی ہے۔
اس کے راہنماوں کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں بیعت ایک ہی شخص کی ہوتی ہے جو سلسلہ البرہانیہ کے شیخ مولانا محمد ابراہیم محمد عثمان عبدہ البرھانی ہیں جو اس وقت سلسلہ البرھانیہ کے شیخ طریقت ہیں اور ان کا تعلق سوڈان سے ہے، ان کے علاوہ پوری دنیا میں کسی اور کی بیت نہیں کی جاتی۔
پاکستان میں موجود راہنما شیخ نہیں ہیں اور نہ اپنی بیت لے سکتے ہیں۔صوفیا کی محافل کے برعکس پاکستان میں قائم البرھانیہ کے نیٹ ورک میں سفید ریش بزرگ نظر نہیں آتے بلکہ ان کی بجائے پڑھے لکھے نوجوان نظر آتے ہیں جن میں ایم فل اسکالر توقیر ریاض بھی شامل ہیں جو یہاں البرھانیہ کے راہنما ہیں ۔
توقیر ریاض نے بتایا کہ اس سلسلے کا مرکز سوڈان میں ہے اور یہ اہلسنت و الجماعت کا ایک سلسلہ ہے جس کے مشائخ فقہ مالکی کو فالو کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عرب ممالک سمیت پوری دنیا میں ہمارے مراکز موجود ہیں۔ دنیا کے ہر ملک میں ایک ہی جیسا سیٹ اپ ہے اور ایک ہی طرح سے ذکر کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ہمارا پہلا مرکز راولپنڈی بحریہ ٹاؤن میں 2019ء میں قائم ہوا تھا۔انہوں نے مزید بتایا کہ ابن عربی کا بھی یہی طریقہ تھا جیسا ارتغرل غازی میں دکھایا گیا ہے۔ یہاں ہونے والے اذکار کے مخصوص انداز خصوصا تالیاں بجانے اور بیٹھنے کے ساتھ ساتھ کھڑے ہو کر ایک مخصوص انداز میں جھومنے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ طریقہ صحابہ کرامؓ کے زمانے سے ہے جو متروک ہو چکا تھا اب مشائخ نے اسے دوبارہ شروع کیا ہے۔
اس سلسلہ کے مراکز میں پیلا، سبز اور سفید رنگ نمایاں نظر آتا ہے جس کے بارے میں توقیر ریاض نے بتایا کہ پیلا رنگ اسمائے الہٰی کی عکاسی کرتا ہے، سفید رنگ شریعت کی عکاسی کرتا ہے اور سبز رنگ اہل بیت کی عکاسی کرتا ہے۔انہوں نے اس سلسلہ کے پیروکاروں کی مخصوص زرد رنگ کی ٹوپی کے حوالے سے کہا کہ یہ حضور اکرم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پسندیدہ رنگ ہے اس لیے پہنا جاتا ہے۔سلسلہ البرھانیہ کی محفل کے آغاز میں ایک مخصوص لائٹ روشن کی جاتی ہے جسے محفل کے آغاز میں ایک نوجوان کچھ دیر اٹھا کر کھڑا رہتا ہے اور چند اذکار کے بعد اسے حاضرین کے درمیان رکھ دیا جاتا ہے جبکہ محفل کے اختتام پر اسی طرح وہی نوجوان اس مخصوص لائیٹ کو اٹھا کر کھڑا ہوتا ہے اور چند اذکار کے بعد اسے مخصوص انداز میں بجھا کر ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے ۔ اس حوالے سے توقیر ریاض نے کہا کہ اسے ”زئی“کہا جاتا ہے۔ اس روشنی میں سات رنگوں کو ظاہر کیا جاتا ہے جو سات نفسوں کی علامت ہے۔ اس کو ذکر سے پہلے ہمت کی علامت کے طور پر اٹھایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم عوامی سطح پر چندہ اکٹھا نہیں کرتے بلکہ ذکر کرنے والے اراکین اپنی مدد آپ کے تحت خود لنگر کا انتظام کرتے ہیں۔