پروفیسر ڈاکٹرافر محمود چوہدری اپنی کتاب "سو شکوے سو شکائتیں”میں لکھتے ہیں کہ جب ونگ کمانڈر طاہر انعام امریکی ریپٹر ہائی جیک کرکے لے آئے تو اس کے معائنے اور وڈے بھائی کو ڈیلیوری کے بعد انہیں جے ایف سیونٹین اڑانے کو دیا گیا،گو وہ وائپر اڑانے پر بضد تھے کہ اس پر ان کے ہاتھ خاصے سیدھے ہیں اور وہ اس پر پانچ ہزار گھنٹے کی فلائنگ کا تجربہ رکھتے ہیں اور وہ چائینہ کا مال پسند نہیں کرتےمگر جب انہیں پتہ چلا کہ یہ سب جیفی کو بہتر بنانے کے لیے ان کی مشاورت لینے کے لیے کیا جا رہا ہے تو وہ اس پر راضی ہو گئے.کچھ عرصہ سیمولیٹر پر اڑان کے بعد وہ جیفی کے کاک پٹ میں بیٹھے اور یہ جا وہ جا، اڑان کے دوران ان پر یہ عقدہ کھلا کہ وہ اسے یونہی کمتر سمجھ رہے تھے .اسکا فلی ڈیجیٹائز کاک پٹ اور سوئچز کی عمدہ ترتیب متاثر کن تھی.ہاں سائز نسبتاً چھوٹا تھا اور چاکلیٹ رکھنے کی گنجائش کم تھی(واضح رہے کہ چھ چاکلیٹ اور پانی کی ایک بوتل اور کافی کا ایک سیلڈ مگ اور ایک بسکٹ پیک بظاہر خاصی گنجائش ہے).کمزور انجن کے باوجود پہلے ایک سو اسی درجے کے موڑ کے بعد یہ وائپر پر بھی حاوی ہو جاتا اور نچلی اور درمیانہ فضائی بلندی پر عمدہ کارکردگی دکھا رہا تھا.
کچھ مہینوں کے بعد ایک دن ارحم ارحم مصطفیٰ نے تلمیز جٹ کیساتھ ملکر ایک نیا الیکٹرانک وارفیئر سسٹم اور جامنگ گیئر تیار کر لیا تھا تو اسکو جیفی پر لگا کر چیک کرنے کا فیصلہ ہوا. میرے یعنی بقلم خود کے ذمے اسکو اصلی جنگی ماحول میں جانچنے کا زمہ لگا
تاہم ایک ہی طیارہ اس کام کیلئے استعمال کرنے کی اجازت ملی.
فیصلہ یہ ہوا کہ ایک بابے معراج دین کو آگے بھیجا جائے گا جبکہ جیفی پندرہ میل سے پچیس میل پیچھے نچلی فلائیٹ کرے گا
جب معراج آٹھ میل تک سرحد کے قریب جائے گا تو لا محالہ دشمن کے انٹرسیپٹر اسے انٹرسیپٹ کرنے آئیں گے
تو اسوقت جیفی اپنا جامنگ گیئر استعمال میں لائے گا اور یوں اسکی حقیقی جانچ ہو جائے گی جموں کٹھوعہ سیکٹر کاروائی کا علاقہ چنا گیا کیونکہ دشمن ائیر فورس کے چاروں صف اول کے طیارے (سخوئی ۔ میراج دو ہزار ۔ مگ 29 اور مگ اکیس بائیسن) اس علاقے میں پرواز کرتے نظر آتے تھے اس کے علاوہ ویسے بھی یہ متنازع علاقہ تھا تو یہ عالمی سرحد اور قوانین کی خلاف ورزی نہ تھی.
امام ایک بار پھر جیفی کے کاک پٹ میں تھا
اور میں نے ہمیشہ کی طرح مشکل ٹاسک کو اپنا ذاتی مسئلہ سمجھ کر میراج دین کو خود اڑانے کا فیصلہ کیا
کامرہ ائیر بیس پر دو سائیڈ وائینڈر اور جامنگ پوڈ سے لیس میراج رن وے پر سیدھا ہوا .انجن کی سیٹی نما چیخ بجلی کی کڑک میں تبدیل ہوئی اور لگر فالکن ون ہوا میں بلند ہو گیا.
میراج فضا میں بلند ہو چکا تھا رفتار چار سو ساٹھ ناٹ بلندی تیرہ ہزار فٹ. دونوں ڈراپ لیس سپر سانک فیول ٹینک ساتھ جڑے تھے جو کہ سپر سانک رفتار پر مسئلہ پیدا نہیں کرتے تھے روز اپگریڈ ورژن کے اندر ایک اضافی آلہ راڈار وارننگ ریسیور اور لوکیٹر بھی لگا دیا گیا تھا جو فضائی اور زمینی راڈاروں کی درست نشاندھی اور پہچان کے نظام سے لیس تھا.جلد ہی جیفی کو بھی سہیل اللہ داد کوروٹنہ نے پرواز کے لیے کلیئر کر دیا.پہلی بار ڈوئل ایجکٹر ریک پر چار ایس ڈی ٹین اے میزائل فٹ تھے .دو پی ایل فائیو ای ٹو ہیٹ سیکر دو گیارہ سو لٹر ٹینک اور درمیانہ ہارڈ پوائنٹ پر نیا الیکٹرانک وارفیئر سسٹم اور جامنگ کے آلات گو کہ دونوں نے الیکٹرانک آلات کی جانچ کرنی تھی مگر دشمن سے کچھ بعید نہ تھا.
پہلے بھی نورے کے دور میں وہ بےخوف ہو کر نہتا ایٹلانٹک ہماری سرحد کے بارہ کلومیٹر اندر گرا چکے تھےاس لیئے دونوں کو محتاط رہنے کا کہا گیاتھا. طاہر انعام نے تھرسٹ پوزیشن تبدیل کی ، تھراٹل کو پورا کھول دیا، جیفی کا آرڈی نائنٹی تھری انجن دھاڑا کالا دھواں نکلا پھر چار ہی سیکنڈ میں انجن کا تھرسٹ جو تین ہزار پاؤنڈ تھا انیس ہزار پاؤنڈ پر جا پہنچا.جیفی ایک جھٹکے سے آگے بڑھا. کریوچیف نے دانت رگڑے ،یہ لڑکا باز نہیں آئے گا،آہستہ آہستہ تھراٹل بڑھاتا.
بہرکیف چند ہی لمحوں میں جیفی بھی ہوا میں بلند ہو چکا تھا
بلندی پانچ ہزار فٹ ، دونوں طیارے ایل او سی کیطرف بڑھے ،جلد ہی وہ وہاں پر تھے،میراج نے بلندی پکڑنا شروع کی اور ایک منٹ بائیس سیکنڈ میں پینتیس ہزار فٹ کی بلندی پکڑ لی دشمن کے سرینگر بیس سے جلد ہی دو عدد مگ اکیس بلند ہو کر میراج کی طرف لپکے.میراج کے الیکٹرانک آلات نے ان کی پوزیشن سمت اور رفتار کا تعین کر دیا تھا.ساٹھ میل دور سے ہی بھارتیوں نے
آر ستتر کے لاک لگانے شروع کر دیئے مگر نسبتاً کم بلندی اور کوپیو راڈار کی پرفارمینس اور ساتھ میں الیکٹرانک جامنگ
دشمن راڈار لاک نہ لگا سکا.
اسی دوران جیفی بلند ہونا شروع ہو گیا تھا.پائلٹ نے بیک وقت دونوں مگ اکیس کو لاک کر دیا تھا.بھارتی پائلٹوں کے کان میں راڈار وارننگ ریسیور چیخنا شروع ہو گئے تھے ان کے اپنےراڈار لاک نہ لگنے اور ساتھ ہی میں جیفی کے لاک کیوجہ سے کان میں ٹیں ٹیں ٹیں کی آواز…دونوں نے رخ بدلا اور بھاگ نکلے
اسی دوران پاک فضائیہ کا ایک اواکس بھی سکواڈرن لیڈرسعید اللہ کی زیرنگرانی روٹین کی پرواز پر بلند ہو چکا تھا.یہ ان دونوں کی خوش قسمتی تھی کیونکہ آگے جو ہونیوالا تھا وہ کافی گنجلک صورتحال تھی..محض تیس سیکنڈ ہی گزرے تھے دونوں طیارے اب کلوز فارمیشن میں آ چکے تھےکہ اچانک دونوں کے سچوئیشنل اویئرنیس سکرین پر چھ نقطے ابھرے.راڈار وارننگ ریسیور نے جلد ہی دونوں کو بتا دیا کہ وہ بیک وقت چار سخوئی ایس یو تھرٹی ایم کے آئی اور دو میراج دو ہزار کے راڈاروں کے لاک پر ہیں .دونوں نے فضا میں تیزی سے پوزیشن بدلی اور میراج مزید بلندی پر گیا اور جیفی بائیں طرف مڑا.حیرت انگیز طور پر میراج دو ہزار پر تھامسن سی ایس ایف کا جامنگ سوئیٹ جو میراج تھری پر فٹ تھا اثر انداز نہیں ہو پا رہا تھا .تاہم ارحم مصطفیٰ اور تلمیز جٹ کا گیئر جیفی پر عمدہ کام دکھا رہا تھا جو بھی طیارہ جیفی پر لاک لگاتا جیفی کا سسٹم اسے آٹومیٹک طریقے پر بے اثر کر رہا تھا.تاہم دشمن کی تعداد زیادہ تھی اور وہ پھیل کر گھیرنے کی کوشش کرنے لگے
اچانک ایک میراج نے جیفی پرMBDA Mica rf میزائل کو ہوم آن جامنگ پر کر کے فائر کر دیا تھا .ایک سو بارہ کلو گرام وزنی اور ڈوئل سیکر سے لیس یہ میزائل سٹیلتھ صلاحیت اور بنا دھوئیں کی موٹر سے لیس یہ میزائل خاصا مہلک ہے اور اس سے بچنا بہت مشکل
اب دو مسئلے کھڑے ہو گئے تھے اگر جامنگ گیئر آن رہتا تو میزائل نے سیدھا اس کو تاکنا تھا.اگر جامنگ بند کرتے تو باقی طیارے لاک لگا کر میزائل داغ دیتے.اس موقع پر اب دونوں کو ایک ہی چیز بچا سکتی تھی
(ایڈیٹر نوٹ :محمد عاطف اقبال کا جنون انہیں اس سطح تک لیجا چکا ہے کہ وہ فکشن لکھتے ہیں لیکن حقیقت کا گمان ہوتا ہے. انہوں نے اس تحریر میں پاک فضائیہ کے جہاز کی کارکردگی فنکشن اور اہمیت کو اس طرح اجاگر کیا ہے کہ حیرت ہوتی ہے. یہ تحریر آپ کو پر بار بار حقیقت کا دعوی کرے گی لیکن ہماری درخواست ہے کہ اسے محض فکشن سمجھا جائے تاکہ ہمارے مصنف مزید معلوماتی تحریریں لکھ سکیں )