پاکستان میں انتخابات کا عمل مکمل ہو چکا ہے . اب حکومت کسی کی بھی بنے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ نئی حکومت کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا . ملک کی معاشی صورت حال کیا ہے ؟ نئی حکومت کو اقتدار سنبھالتے ہی کن معاشی مسائل کا سامنا ہو گا . کیا پہلا بجٹ عوام دوست ہو گا اور سب سے اہم یہ ہے کہ دیوالیہ ہونے کے خطرات سے ٹکراتے پاکستان کو اس صورت حال سے نکالنے کے لیے کیا اقدامات کرنے ہوں گے. اس حوالے سے ِدی جرنلسٹ ٹوڈے نے معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر قیس اسلم سے خصوصی گفتگو کی
ڈاکٹر قیس اسلم کہتے ہیں کہ پاکستان کی معاشی صورتحال بہت اچھی نہیں ہے .ہماراگروتھ ریٹ اس وقت 0.5 فیصد ہے اور آئی ایم ایف کے مطابق یہ اگلے سا ل 0.2 فیصد تک جائے گا.اسی طرح ہمارا ٹیکس کا نظام بہت فرسودہ ہے جس میں ان ڈائریکٹ ٹیکسز کا بہت بوجھ ہے. بے روزگاری 8فیصد سے زیادہ ہے،افراط زر 30 ،32 فیصد پہ ہے ، انٹرسٹ ریٹ 22 فیصدپر ہیں . ہماری انڈسٹری اس وقت بیٹھی ہوئی ہے ،ڈالر کا ریٹ ہائی ہے .ابھی ہم نے قرضے واپس کرنے ہیں لیکن صنعتی ترقی ہو ہی نہیں رہی. جب تک صنعتی ترقی نہیں ہوگی یہ سب چیزیں حل نہیں ہوں گی
انہوں نےبتایا کہ نئی حکومت کو جو مسائل درپیش ہوں گے اس میں سب سے بڑا چیلنج بیرونی قرضے اور بیلنس آف پیمنٹ ہوگا، لانگ ٹرم صنعتی ترقی بھی بہت بڑا چیلنج ہوگا ، غربت اور افراط زر کو دور کرنا ،مارکیٹ میں قیمتوں کو اور ڈالرز کونیچے لانا بہت بڑا چیلنج ہوگا. بے روزگاری دور کرنے کے علاوہ سرکاری اثاثہ جات کو بروئے کار لانا بہت ضروری ہوگا .ٹیکس کے حوالے سے رسٹرینٹس آئی ایم ایف نے ڈالے ہوئے ہیں جب تک فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ نہیں آتی یہ مسائل حل نہیں ہو سکتے
ہر حکومت کا دعوی ہوتا ہے کہ وہ آتے ہی ایسا عوام دوست بجٹ لائے گی جس سے عام شہریوں کے مسائل حل ہو جائیں گے لیکن ڈاکٹر قیس اسلم کہتے ہیں کہ کوئی بجٹ بھی عوام دوست نہیں ہوتا، سارے بجٹ اس لیے ہوتے ہیں کہ حکومتیں چلیں ،پاکستان کے پاس فیڈرل حکومت کے ساتھ ساتھ صوبائی ،گلگت بلتستان اور آزاد کشمیرکی حکومتیں ہیں . اس کے علاوہ کئی ایسے ادارے ہیں جو سفید ہاتھی بن چکے ہیں .جب تک حکومت کا حجم چھوٹا نہیں کیا جائے گا، بیوروکریسی میں اور لیگل ریفارمز نہیں کیے جائیں گے تب تک بجٹ اسی طرح بنے گا اور مہنگائی رہے گا . انہوں نے بجٹ کے استعمال کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ کا 50 فیصد سے زیادہ ہم قرضہ واپس کرتے ہیں ، 13 فیصد دفاعی بجٹ ہے ،8 فیصد پینشنز پر چلا جاتا ہے یعنی 70 فیصد تو یہی چلا جاتا ہے . 7فیصد بجٹ حکومت کو چلانے کے لیے خرچہ ہے . اسی طرح اس بجٹ میں 7 یا 8 فیصد پروونسز کو دینا ہے اور دوسری سبسڈیز دینے کے لی لگتا ہے .تو ہم کہیں 9.4 بلین روپیز کے ٹیکس لگائے ہوئے ہیں اور 7.5 بلین کے ایک قرضہ جات ہیں.ان حالات میں جب صرف ٹیکس ہی ٹیکس ہو جاتے ہیں تو جو بجٹ بنے گا اسے عوام دوست بجٹ نہیں کہہ سکتے
پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے ماہر معاشیات ڈاکٹر قیس اسلم کا کہنا ہے کہ شارٹ ٹرم میں تو میری تجویز ہے کہ آئی ایم ایف سے جان چھڑائیں اور اپنے سورسز سے بجلی پیدا کریں، اپنے سورسز انڈسٹریلائیزیشن کریں، آپ اپنی معدنیات کو ویلیو ایڈ کریں اور ان کو ایکسپورٹ کریں . اسی طرح لانگ ٹرم میں اپنا تعلیمی نظام 21کیسویں صدی پہ لانا پڑے گا، ملک کے سارے بچوں کو بہت اچھی تعلیم دینی پڑے گی انہیں مواقع مہیا کرنے ہوں گے ،انڈسٹریلائزیشن کرنی پڑے گی،ایگریکلچر ریفارمز لانی پڑیں گے ،پانی چھوٹے کسان تک پہنچانا پڑے گا ،بجلی سستی کرنی پڑے گی ،ایس ڈی جیز پہ کام کرنا پڑے گا ،کلائمٹ چینج سے بچنے کے لیے درخت لگانے پڑیں گے .یہ بہت مشکل کام ہے مگر ناممکن نہیں ہے . ان مسائل سے نکلنے کی بنیاد انڈسٹری ہے اور انڈسٹری چلانے کے لیے اپنی بجلی سستی کرنی ہو گی .اسی طرح ایگریکلچر ہماری فوڈ سکیورٹی ہے جس کے لیے اپنا پانی چاہیے .اسی طرح سروسز سیکٹر بہت اہم ہے اس کو سپورٹ کریں اور ایکسپورٹ ایبل بنانا بہت ضروری ہے
اس صورت حال سے واضح ہوتا ہے کہ نئی حکومت کو اقتدار سنبھالتے ہی خوفناک معاشی بحران اور مسائل کا سامنا ہو گا جس سے پاکستان کو نکالنے کے لیے فوری ریفارمز کی جانب جانا ہو گا ۔ حکومت نےاگر ان مسائل کو سنجیدگی سے نہ لیا توملک خدانخواستہ مزید بحرانوں کا شکار ہو سکتا ہے اور حکومت کے لیے بھی مدت پوری کرنا مشکل ہو جائے گا ۔ ضروری ہے کہ حکومت اقتدار سنبھاتے ہی شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم پالیسز کو اپناتے ہوئے معاشی صورت حال بہتر بنانے پر توجہ دے تاکہ عام پاکستانی کی زندگی آسان ہو سکے