پاکستان میں صوبائی تقسیم کی بحث ہمیشہ سے حساس رہی ہے۔ 1970ء کے بعد ون یونٹ کے خاتمے کے نتیجے میں چار صوبوں کا ڈھانچہ سامنے آیا مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ سوال بار بار اٹھتا رہا ہے کہ آیا بڑے صوبے انتظامی اور عوامی مسائل حل کر سکتے ہیں یا نہیں۔ پنجاب کی آبادی اور اس کے اندر وسائل کی تقسیم ہمیشہ چھوٹے صوبوں کے لیے ایک تشویش کا باعث رہی ہےجبکہ پنجاب کے اندر بھی مختلف خطے محرومی کے احساس کا شکار ہیں۔ اب ایک بار پھر صوبائی تقسیم کی بحث زور پکڑ گئی ہے اور قومی اسمبلی میں ’’مغربی پنجاب‘‘ کے نام سے نیا صوبہ بنانے کا بل پیش ہونے کے بعد یہ موضوع قومی سیاست میں سب سے نمایاں بحث بن چکا ہے۔ 12 اگست 2025 کو رکن قومی اسمبلی ریاض حسین فتیانہ نے ایک آئینی ترمیمی بل پیش کیا جس میں فیصل آباد اور ساہیوال ڈویژن پر مشتمل ایک نیا صوبہ قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس بل کے مطابق قومی اسمبلی میں مغربی پنجاب کو 27 عام اور 8 خواتین کی مخصوص نشستیں ملیں گی یوں کل 35 نشستیں ہوں گی۔ صوبائی اسمبلی کی تشکیل بھی تجویز کی گئی ہے جس میں 58 نشستیں رکھی گئی ہیں، جن میں 46 عام، 10 خواتین اور 2 غیر مسلموں کے لیے مخصوص ہوں گی۔ بل میں یہ بھی شامل ہے کہ ہائی کورٹ کا مرکزی دفتر فیصل آباد میں قائم کیا جائے گا تاکہ عدالتی سہولتیں عوام کے قریب تر ہوں۔ سینیٹ میں بھی مغربی پنجاب کو نمائندگی دی جائے گی، جس سے وفاقی اکائیوں کا توازن کسی حد تک تبدیل ہو گا۔ یہ بل محض ایک انتظامی قدم نہیں بلکہ آئین میں بڑی تبدیلی کا متقاضی ہے۔ بل کے تحت آئین کے متعدد آرٹیکلز، جیسے 1، 51، 59، 106، 175A، 198 اور 218 میں ترمیم تجویز کی گئی ہے۔
پاکستان کے آئین کے مطابق کسی بھی صوبے کے قیام کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ساتھ ساتھ متعلقہ صوبائی اسمبلی میں بھی دو تہائی اکثریت لازمی ہے۔ اس لیے یہ کہنا درست ہوگا کہ یہ قدم بظاہر آسان مگر عملی طور پر نہایت مشکل اور حساس معاملہ ہے۔ سیاسی جماعتوں کا ردعمل بھی اسی حساسیت کو ظاہر کرتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) جو پنجاب کی سب سے بڑی جماعت ہے، اس تجویز پر محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہے کیونکہ پنجاب کی تقسیم اس کے ووٹ بینک پر براہِ راست اثر ڈال سکتی ہے۔ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی جیسے وفاقی سطح پر موجود گروہ اس بل کو انتظامی اصلاحات کے طور پر پیش کر کے عوامی تاثر لینے کی کوشش کریں گے لیکن سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والی جماعتیں اور قوم پرست حلقے اسے اپنے صوبائی مطالبے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق سرائیکی صوبے کے بجائے فیصل آباد اور ساہیوال کو الگ صوبہ بنا دینا ایک سیاسی چال ہے جو اصل مسئلے کو حل کرنے کے بجائے مزید پیچیدہ کر دے گی۔ عوامی سطح پر ردعمل ملا جلا ہے۔ شہری علاقوں میں یہ توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ نئے صوبے کے قیام سے ترقیاتی فنڈز کی منصفانہ تقسیم ممکن ہوگی اور بیوروکریسی عوام کے زیادہ قریب ہو گی۔ لیکن دیہی علاقوں اور سرائیکی خطے میں اس پر تحفظات ہیں کہ یہ اقدام ان کے محرومیوں کے ازالے کے بجائے محض سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے ہے۔
اس حوالے سے سوال یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ نیا صوبائی دارالحکومت کہاں ہوگا، صوبائی اسمبلی اور سیکرٹریٹ کی عمارت کہاں بنے گی، اور بیوروکریسی و پولیس کا ڈھانچہ کیسے تشکیل پائے گا۔ ان سب کے لیے وقت، سرمایہ اور سیاسی اتفاقِ رائے درکار ہوگا جو بظاہر فوری طور پر دکھائی نہیں دیتا۔ مغربی پنجاب کے قیام سے وفاقی اکائیوں کا توازن بھی متاثر ہوگا۔ اس وقت پنجاب قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستوں کا حامل ہے اور یہی معاملہ چھوٹے صوبوں کی شکایات کا باعث رہا ہے۔ اگر پنجاب دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے تو پنجاب کی بالادستی کسی حد تک کم ہو جائے گی اور وفاق میں طاقت کا توازن بہتر ہو سکتا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی خطرہ ہے کہ دوسرے خطے جیسے سرائیکی وسیب، ہزارہ اور کراچی میں صوبائی مطالبات شدت اختیار کر جائیں گے اور یوں یہ معاملہ ایک ملک گیر آئینی بحران کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔
دنیا کے کئی ممالک میں انتظامی بنیادوں پر صوبائی تقسیم کے تجربے ہوئے ہیں۔ بھارت میں کئی ریاستوں کی ازسرِ نو تقسیم کی گئی. نائیجیریا اور ایتھوپیا نے بھی نئے صوبے بنا کر وفاقی نظام کو مضبوط کیا۔ مگر ان مثالوں کے ساتھ یہ حقیقت بھی جڑی ہے کہ اگر صوبائی تقسیم عوامی خواہشات اور لسانی شناخت کو نظرانداز کرتے ہوئے کی جائے تو یہ اقدامات الٹا سیاسی عدم استحکام پیدا کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی یہی خدشہ ہے کہ اگر یہ قدم عوامی اتفاقِ رائے کے بغیر آگے بڑھایا گیا تو یہ نئی تقسیم بجائے سہولت کے مزید مسائل پیدا کرے گی۔
ابھی یہ بل ابتدائی مرحلے میں ہے اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے پاس ہے۔ وہاں سے منظوری کے بعد ہی یہ دوبارہ ایوان میں آئے گا۔ اگر یہ دو تہائی اکثریت حاصل کر لیتا ہے تو یہ پاکستان کی آئینی تاریخ میں ایک بڑی تبدیلی ہوگی۔ لیکن اگر یہ محض ایک سیاسی حربہ ثابت ہوا تو یہ نہ صرف عوامی اعتماد کو مزید کمزور کرے گا بلکہ علاقائی قوم پرستی کو بھی ہوا دے گا۔ اس وقت وفاقی قیادت کے لیے یہ لمحہ ایک بڑا امتحان ہے۔ کیا یہ حکومت تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر اس آئینی ترمیم کو ایک قومی اتفاقِ رائے میں بدل سکتی ہے یا یہ بل بھی دیگر تجاویز کی طرح محض کاغذی کارروائی بن کر رہ جائے گا؟ حقیقت یہ ہے کہ مغربی پنجاب بل محض ایک صوبے کی تقسیم کا معاملہ نہیں بلکہ پاکستان کے وفاقی نظام کی سمت متعین کرنے والا ایک اہم سنگِ میل ہے۔