ایڈیٹر : سید بدر سعید

ایڈیٹر : سید بدر سعید

دھوپ کے پگھلنے تک …!!

وہ ایک طوفانی رات تھی۔ بارش ٹوٹ کر برس رہی تھی۔ وقفے وقفے سے کڑکتی ہوئی بجلی دلوں کو دہلا رہی تھی۔ قسمت نگر کے باسی جہاں اس بارش کو اپنی فصلوں کے لئے نعمت خیال کر رہے تھے وہاں ایسے غریب بھی تھے جنہیں اپنے گھروں کے بہہ جانے کا ڈر لگا ہوا تھا۔ جب بھی اندھیری میں بجلی چمکتی، قسمت نگر ذرا سی دیر کے لئے روشن ہو جاتا، پھر وہی تاریکی چھا جاتی، بالکل اسی طرح جیسے نسل در نسل چلتی ہوئی ان کے مقدر کی تاریکی تیسری نسل کے ہاتھ میں آ چکی تھی۔
چوہدری کبیر اس طوفانی رات میں اپنی فور وہیل جیپ بھگائے چلا جا رہا تھا۔ گاؤں کی گلیوں میں بہتا پانی بھی اس کی جیپ کو نہیں روک پایا تھا۔ یہاں تک کہ اس کی جیپ سلامے جٹ کے گھر کے باہر آن رُکی۔
سلاما جٹ اس وقت اپنی بیٹھک میں اپنے یار امین آرائیں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ امین ارائیں بارش رکنے کا انتظار کر رہا تھا۔ آج بارش کی وجہ سے وقت کچھ زیادہ ہی ہو گیا تھا۔ وہ چاہ رہا تھا کہ بارش رُکے تو اپنے گھر جائے۔ تبھی اس کی بیٹھک کے سامنے چوہدریوں کی جیپ آرکی۔ چند لمحے بعداس میں سے چوہدری سکندر کا منہ چڑھا اور اکلوتا نوجوان بیٹا چوہدری کبیر اُترا۔ وہ دولت اور طاقت کے نشے میں چُور تھا۔ اس کے ہاتھ میں گن تھی، اس نے برستی بارش کی پروا نہیں کی۔ چوہدری کبیر کے پیچھے اس کے ملازم تھے۔ چوہدری کبیر باہر کھڑا رہا اور اس کے ملازموں نے سلامے کو پکڑا اور باہر نکال کر چوہدری کبیر کے سامنے لا کھڑا کیا۔ اس نے سلامے جٹ کو سر سے پاؤں تک دیکھا، پھر انتہائی غصے میں بولا
”اوئے تجھے کہا نہیں تھا کہ تو نے زمین صرف ہمیں بیچنی ہے، کسی دوسرے کو نہیں، پھر تو نے وہ بیچی، اور وہ بھی ہمارے دشمن کو……کیوں؟“
”چوہدری صاحب وہ مجھے اچھے پیسے دے رہا تھا اور ……“ سلامے نے کہنا چاہا تو چوہدری کبیر اُسے ٹوکتے ہوئے بولا
”اور ہم تجھے کم دے رہے تھے۔تجھے یہ سمجھ نہیں آئی کہ ہم نے کیا کہا تھا۔ اب اس کی سزا تجھے ملے گی۔ ہمارے ہی علاقے میں کوئی ہمارے خلاف سر اٹھائے، یہ میں برداشت نہیں کر سکتا۔ تیری اس حرکت سے کوئی دوسرا بھی سر اٹھا سکتا ہے۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے بولٹ مارا تو امین ارائیں نے منت بھرے انداز میں کہا
”چوہدری جی۔! معاف کر دیں اِسے، اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ زمین یہ آپ ……“
”بکواس نہ کر اوئے، تو کون ہے میرے ساتھ بات کرنے کی ہمت کرنے والا…… چل بھاگ یہاں سے“ چوہدری کبیر نے انتہائی غصے میں کہا، پھر سامنے کھڑے سلامے جٹ کے سینے میں کئی گولیاں اُتار دیں۔ فائرنگ کی آواز سے چند لمحوں کے لئے فضا تڑ تڑا اٹھی تھی۔ انہی چند لمحوں میں سلاما جٹ خون سے لت پت زمین پر لوٹ رہا تھا۔ وہ اپنی آخری سانسوں پر تھا، جب چوہدری کبیر اپنی فور وہیل مہنگی جیپ میں بیٹھا اور یہ دیکھے بغیر کے سلاما کس قدر تڑپ رہا ہے۔ وہ وہاں سے چلا گیا۔ امین ارائیں جلدی سے آگے بڑھا۔ اس نے سلامے کو سنبھالتے ہوئے شور مچانا شروع کر دیا۔ فائرنگ کی آواز سے لوگ باہر نکل آئے تھے۔ لیکن کسی کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ سلاما جٹ اس دنیا کو چھوڑ کر جا چکا تھا۔
××××××××××
قسمت نگر کا مقدر بھی کوئی نیا یا انوکھا نہیں تھا۔ وہی جاگیردارانہ تسلط کے تحت مجبور، بے بس اور بے کس لوگ۔ جن کی زندگی خوف، ڈر اور محکومی میں بسر ہو رہی تھی۔ انسانی تذلیل کا وہی بے غیرتانہ نظام ان پر مسلط تھا۔ ایسے ماحول میں سلامے کا قتل بھی کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں تھی۔ ایک طرف غریب کسانوں، مزدوروں اور مزارعوں کے کچے پکے گھروں پر مشتمل گاؤں قسمت نگر تھا۔ اس بستی سے ذرا ہٹ کر سفید رنگ کی پکی اور اونچی حویلی اپنے مکینوں کی طرح پر غرور سر اٹھائے دکھائی دیتی تھی۔ اس حویلی کے مکیں اِن قسمت نگر کے لوگوں کی قسمت بارے فیصلے کیا کرتے تھے۔ وہ حویلی چوہدری جلال سکندر کی پرکھوں کی حویلی تھی۔ یہ اس کے باپ نے بنائی تھی جو اب اس کے بیٹے کو منتقل ہونے والی تھی۔ پہلے اس کا باپ اِن قسمت نگر کے مکینوں کی قسمت بارے فیصلے دیتا تھا، اب وہ دے رہا تھا، کچھ عرصے بعد اس کا بیٹا چوہدری کبیر ان کے مقدر کا مالک بننے والا تھا۔ انسانی تذلیل کا یہ نظام اسی طرح چل رہا تھا کہ اس دن حویلی میں ہلچل مچ گئی۔
شاندار حویلی کے ڈرائینگ روم میں منشی فضل دین بے چینی سے ٹہل رہا تھا۔ وہ چوہدری جلال سکندر کی آمد کا منتظرتھا۔ اس کے چہرے پہ پریشانی تھی، جیسے کچھ انہونا ہو گیا ہو۔ تبھی چوہدری جلال سکندر اندرونی کمر سے باہر آتا ہوا دکھائی دیا۔ وہ لمبے قد کااُدھیڑ عمر، دیہاتی انداز کا روایتی سیاست دان تھاجو کم تعلیم یافتہ توہوتے ہیں، لیکن اپنے رعب ودبدبے کے باعث اپنی بات منوانا جانتے ہیں۔ بھاری سفیدمونچھیں، بڑی بڑی آنکھیں، بڑے چہرے پر جلال، کورے لٹھے کے شلوار قمیص پر ویسٹ کوٹ پہنے، پاؤں میں تلّے دار کُھسہ، وہ بڑے بارعب اور درمیانی چال سے چلتا ہوا آرہا تھا۔ اس نے باہر کی طرف جاتے ہوئے رُک کر منشی کی طرف دیکھا، پھر بڑے کروفر کے ساتھ رُک کر اس سے پوچھا
”ہاں منشی، بول کیا بات ہے؟“
”وہ جی، قتل کیس کی تاریخ کل ہے۔ اور وہ گواہ امین آرائیں ……“ یہ کہتے ہوئے وہ جھجھکتے ہوئے خاموش ہو گیا۔ تبھی چوہدری جلال سکندر نے ماتھے پر تیوری لاتے ہوئے پوچھا
”کیا ہوا ہے اُسے؟“
”سارا مقدمہ اب اسی عینی شاہد پر ہے۔اُس نے اگر عدالت میں گواہی دے دی تو پھر نکے چوہدری کے لیے بہت مشکل ہو جائے گی۔“ منشی نے تیزی سے بتایاتو چوہدری جلال سکندر نے حیرت سے پوچھا
”اس میں اتنا پریشان ہونے والی کیا بات ہے۔ کیاتم لوگوں نے اس کا بندوبست نہیں کیا؟“
”گیا تھاجی میں اس کے پا س …… مگر وہ مانتا ہی نہیں ہے، کہتا ہے گواہی ضرور دوں گا۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے۔“ منشی فضل دین نے تشویش سے کہا تو چوہدری جلال چونک گیا۔ اسے یہ قطعاً اُ مید نہیں تھی کہ کوئی اس کے معاملے میں چوں چراں بھی کر سکتا ہے۔ وہ بولا تو اس کے لہجے میں حیرت تھی۔
”اس کا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا، اُسے نہیں معلوم کہ وہ کس کے خلاف گواہی دے رہا ہے؟“
”خراب ہی لگتا ہے جی اس کا دماغ۔آپ اس علاقے کے حکمران ہیں۔سدا بہار ایم این اے ہیں ……ہر حکومت میں آپ شامل ہوتے ہیں …… آپ کے حکم کے بغیر یہاں پتہ نہیں ہل سکتا۔یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی وہ نکے چوہدری کے خلاف گواہی دے گا۔ عقل خراب والی بات ہی ہے نا جی اس کی۔“
اس کے یوں کہنے پر چوہدری جلال سکندر نے سوچتے ہوئے ہنکارا بھرا پھر تشویش زدہ لہجے میں بولا
”ہوں ……بات یہ نہیں ہے منشی کہ وہ نکے چوہدری کے خلاف گواہی دے رہا ہے …… بلکہ سمجھنے والا نکتہ یہ کہ اس کی جرات کیسے ہوگئی……ہمارے علاقے میں …… ہمارے ہی خلاف، کسی کو کبھی بولنے کی ہمت نہیں ہوئی…… اور اگر کسی نے یہ ہمت کی بھی تھی، تب اس کی زبان ہی نہیں رہی۔ وہ کیسے؟“
”وہی تو میں سوچ رہا ہوں چوہدری صاحب……“ یہ کہتے ہوئے اس نے چونکتے ہوئے کہا،”کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ یہ کسی مخالف کی سازش ہو…… الیکشن بھی تو سر پر آگئے ہیں نا چوہدری صاحب؟“
”الیکشن۔!خیر کچھ بھی ہو منشی،وہ زمین پر رینگنے والا کیڑا …… ہمارے خلاف گواہی تو ایک طرف،اگر وہ ہمارے حق میں گواہی نہیں دیتا تو بھی وہ عدالت تک نہ پہنچ پائے۔ اسے یہ سمجھا دو،……اگر وہ سمجھتا ہے تو……“ چوہدری جلال سکندر نے غصے میں کہا تو منشی عاجزی سے بولا
”میں نے ہر طرح سے کوشش کر کے دیکھ لی ہے چوہدری صاحب……میں اسی لیے حاضر ہوا تھا کہ آج ہی کا دن ہے ہمارے پاس……“یہ کہہ کر وہ ایک لمحے لئے رکا اور پھر بولا،”ویسے اگر آپ حکم دیں تو کیا اسے نکے چوہدری کے حوالے نہ کر دوں؟پھرسب ٹھیک ہو جائے گا۔“ اس کے اس طرح کہنے پر وہ اکتاتے ہوئے بولا
”اُوئے منشی ……باتیں ہی بناتے رہو گے یا کچھ کرو گے بھی، اب یہ معاملہ ختم ہونا چاہیے۔ دو مہینے تو ہو گئے ہیں اس چخ چخ کو۔“
”اب آپ اس کی فکر نہ کریں۔آپ بس معاملہ ختم ہی سمجھیں چوہدری صاحب……آپ بے فکر ہو جائیں اب ……“ منشی خوش ہوتے ہوئے بولا توچوہدری جلال سکندر نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا
”مزید اگر کوئی بات ہوئی تو مجھے بتانا۔“ یہ کہہ کر چوہدری باہر کی جانب چل دیا۔ منشی اس کے پیچھے لپکتا ہوا بڑھ گیا۔ چوہدری جلال سکندر تو شہر جانے کے گاڑی میں بیٹھ گیا جبکہ رات سے منشی کے دماغ میں پکنے والی کئی باتیں لاوے کی طرح اُبلنے لگیں۔ وہ واپس ڈرائینگ روم میں آگیا۔ اب اسے چوہدری کبیر کا انتظار تھا تاکہ اسے نئی صورت حال کے بارے میں بتا کر کوئی نیا مشورہ دے سکے۔
نجانے کتنے برس ہو گئے تھے۔ منشی ان چوہدریوں کا ملازم تھا اور اس ملازمت کے دوران کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ اس کے ذمے کوئی کام لگایا جائے اور وہ کام ہوانہ ہو۔ پہلی بار اسے امین آرئیں کی طرف سے ناکامی ہوئی تھی۔ جس نے منشی کی بات ہی نہیں سنی تھی بلکہ اسے ذلیل کرے بھگا دیا تھا۔ رات بھر وہ یہی سوچتا رہا تھا کہ امین ارائیں کے ساتھ کیا کرنا ہے۔ اسے معلوم تھا کہ چوہدری کبیر ابھی کچھ دیرمیں بیدار ہو کر جاگنگ کرنے کے لئے ڈیرے پر جائے گا۔ اس کے پہنچنے سے پہلے ہی ان کے پالتو غنڈے امین آرئیں کو اٹھا کر ڈیرے پر پہنچا دیں گے۔ یہی سوچتے ہوئے وہ خباثت سے مسکرا دیا۔
چوہدری کبیر ڈیرے سے ذرا دورفصلوں کے درمیان میں بنے کچے راستے پر سے جاگنگ کرتاہوا آرہا تھا۔ اس کے پیچھے جیپ چلی آرہی تھی، جس پر اُس کے محافظ گنیں تانے ہوئے کھڑے تھے۔ وہ جاگنگ کرتاہوا بڑے اطمینان سے ڈیرے میں داخل ہوا۔ اس نے دیکھا صحن کے درمیان میں امین آرائیں کو اس کے ملازموں نے پکڑا ہوا تھا۔ تبھی اس کا خاص ملازم، ماکھے نے تولیہ اور پانی کی بوتل اس کی طرف بڑھائی۔ اس نے امین ارائیں طرف دیکھتے ہوئے پانی کی بوتل پکڑی، چند گھونٹ لے کر پوچھا
”اوئے ماکھے،کیا کہتا ہے یہ…… امین آرائیں؟“
”اپنی ہی بات پر ڈٹا ہوا ہے۔کہتا ہے ہمارے خلاف گواہی دے گا۔“ ماکھے نے طنزیہ انداز میں مسکراتے ہوئے کہا تو چوہدری کبیر حقارت سے مسکراتا ہوا اس کے پاس گیا۔پانی پیتے ہوئے اس کی جانب دیکھا پھر ایک دم سے باقی پانی اس کے چہرے پر پھینکتے ہوئے بولا
”کل تیری عدالت میں پیشی ہے نا۔لیکن تو نہیں جائے گا،جا ہی نہیں سکے گا۔کیونکہ میں نہیں چاہتاکہ تم جاؤ۔“
”چوہدری۔!تم لوگوں نے میرے یار کو قتل کیا ہے۔میرا منہ بند کر لو گے تو خدا کو کیا جواب دوگے۔میری آنکھوں کے سامنے تم نے قتل کیا ہے…… میں گواہی ……“ امین ارائیں نے نفرت سے کہنا چاہا مگر لفظ اس کے منہ ہی میں رہ گئے۔ چوہدری کبیر نے ایک زور دار تھپڑ اس کے منہ پر مارتے ہوئے کہا
”بکواس بند کر،ورنہ تجھے بھی تیرے یار کے ساتھ ہمیشہ کے لئے خاموش کر دوں گاپھر تیری گواہی کون دے گا؟
”کوئی تو ہو گاجو تمہارے اور تیرے باپ کے ظلم روکے گا۔“ اس نے زور سے کہا۔
”تو نے دیکھا تھا نا ……کیسے مارا تھا میں نے اسے ……اس طرح تم بھی …… ہاں تم بھی اوپر پہنچ جاؤگے …… تو نے بھی بڑی منتیں کی تھیں کہ میں اس پر رحم کروں،اسے چھوڑ دوں ……پر نہیں ََََََََََََ…… اسے سزا ملنی تھی وہ میں نے دی۔میں چاہوں تو ابھی تیری زبان بند کر دوں ……لیکن تجھے مارنے کا مجھے کوئی فائدہ نہیں ہے۔“ وہ ہنستے ہوئے بولا
”چوہدری آنے والے وقت سے ڈر۔“ امین ارائیں نے احتجاج کرتے ہوئے کہا تو وہ انتہائی حقارت سے بولا
”اور تو ڈر اپنی زبان درازی سے……اس کی تو سزا تمہیں ملے گی۔“ یہ کہہ کر اس نے اپنے خاص ملازم کو آواز دی،”اوئے ماکھے۔“
”جی نکے چوہدری صاحب۔!“ وہ تیزی سے اس کی جانب لپکتے ہوئے بولا تو چوہدری کبیر نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا
”اسے ایک دو دن اپنے پاس رکھو۔اسے ہی نہیں دوسروں کو بھی معلوم ہو کہ چوہدریوں کے خلاف سوچنا بھی کتنا بڑا جرم ہے۔میں تو اپنے خلاف کسی کو سوچنے بھی نہیں دیتا۔“
”جی نکے چوہدری صاحب۔!“ماکھے نے فرمانبرداری سے کہا توچوہدری کبیر وہاں سے ہٹ کر اپنی جیپ کی جانب بڑھ گیاہے۔
ماکھے نے امین کو بازو سے پکڑا اور دھکے دے کر اندر کی طرف لے جانے لگا۔ امین ارائیں کا جرم یہی تھا کہ وہ سچی گواہی دینا چاہتا تھا، لیکن طاقت نے اسے باندھ کر اندھے کمرے میں پھینک دیا تھا۔ ماحول میں قانون شکنی کی سڑاند پھیل چکی تھی.
(آگے کیا ہوا . یہ جاننے کے لیے ملاحظہ کیجئے” دھوپ کے پگھلنے تک” کی دوسری قسط )

Copyright © The Journalist Today

کچھ صاحب تحریر کے بارے میں

امجد جاوید
امجد جاوید
امجد جاوید درس و تدیس کے شعبے سے منسلک ہیں . پاکستان کے بڑے اخبارات میں بطور ایڈیٹر اپنے فرائض سر انجام دے چکے ہیں . ٹیلی ویژن پر ان کا لکھا ڈرامہ انتہائی پسند کیا گیا . اخبار جہاں سمیت متعدد قومی رسائل و جرائد میں ان کے ناول شائع ہوتے ہیں . اب تک ان کے 28 سے زائد ناول شائع ہو چکے ہیں . عشق اور تصوف ان کا خاص موضوع ہے . مختلف جامعات میں طلبا ان کے تخلیقی کام پر تھیسز کر چکے ہیں . دی جرنلسٹ ٹوڈے میں ان کا ناول قسط وار شائع کیا جا رہا ہے

دیگر مصنفین کی مزید تحاریر

مزاحمتی شاعری اور ہماری ذہنی حالت

شاعری شاید لطیف جذبات کی عکاس ہے یا پھر انسانی جبلت کی لیکن شاعری میں ایسی باتیں کہہ دی جاتی ہیں جو عام انسانی...

ہمارے نمک میں اثر کیوں نہیں

پاکستان اور افغانستان کا آپسی تعلق لو اینڈ ہیٹ جیسا ہے یعنی ایک دوسرے کے بغیر رہ بھی نہیں سکتے اور ایک دوسرے کے...

محکمہ زراعت کا خوفناک پراپرٹی سکینڈل !

اب تک سنتے آئے تھے کہ پراپرٹی میں بہت فراڈ ہوتا ہے ۔ طاقتور مافیا غریب شہریوں کو لوٹ لیتا ہے ، کہیں کاغذات...

پاکستان کا موجودہ سیاسی کھیل

پاکستان کے سیاسی گراونڈ میں اس وقت بہت ہی دلچسپ کھیل جاری ہے، ایک وقت تھا کہ سب یہ سوچ رہے...

اس پوسٹ پر تبصرہ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ سروس کی شرائط سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ ایک تحریری معاہدہ ہے جو اس وقت واپس لیا جا سکتا ہے جب آپ اس ویب سائٹ کے کسی بھی حصے کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کرتے ہیں۔

  1. ہمیشہ کی طرح ایک خوبصورت تحریر ایک خوبصورت دل والے جناب امجد جاوید صاحب کی۔۔۔ماشا ءاللہ

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

یہ بھی پڑھئے

مزاحمتی شاعری اور ہماری ذہنی...

شاعری شاید لطیف جذبات کی عکاس ہے یا پھر انسانی جبلت کی لیکن شاعری میں ایسی باتیں کہہ دی...

ہمارے نمک میں اثر کیوں...

پاکستان اور افغانستان کا آپسی تعلق لو اینڈ ہیٹ جیسا ہے یعنی ایک دوسرے کے بغیر رہ بھی نہیں...

محکمہ زراعت کا خوفناک ...

اب تک سنتے آئے تھے کہ پراپرٹی میں بہت فراڈ ہوتا ہے ۔ طاقتور مافیا غریب شہریوں کو لوٹ...

پاکستان کا موجودہ سیاسی کھیل

پاکستان کے سیاسی گراونڈ میں اس وقت بہت ہی دلچسپ کھیل جاری ہے، ایک وقت تھا کہ...