ہم میں سے اکثر لوگوں کو فلسطین اسرائیل دیکھنے کا بہت شوق ہوتا ہے . مجھے بھی تھا .میں 2010سے لندن میں مقیم تھا اور جب بھی موقع ملتا تھا . اپنے پسندیدہ ممالک کی سیاحت کے لئے نکل جایا کرتا . اسرائیل فلسطین جانے کا بھی پلان تھا لیکن سوچا کہ 2021 میں مجھے برٹش پاسپورٹ مل جانا ہے . تو کیوں نہ برٹش پاسپورٹ پہ اسرائیل فلسطین کا وزٹ کیا جائے . نومبر 2021 میں مجھے برٹش پاسپورٹ ملا تو اس وقت کرونا کی پابندیاں عروج پہ تھیں . جب پابندیاں کچھ نرم ہوئیں تو میں نے جون 2022 میں فلسطین اسرائیل وزٹ کرنے کا فیصلہ کیا . 11 جون 2022 کی صبح میری لفتھانسا ایئر لائن کی فلائٹ تھی . لندن سے تل ابیب براستہ میونخ .
خیر جناب سفر بلکل آرام سے کٹا اور میں تل ابیب کے بین گورین ائیرپورٹ پہنچ گیا .
امیگریشن پہ مجھے اندازہ تھا کہ مجھے ویٹ کرنا پڑے گا . تمام مسلمان نوجوانوں کو ویٹ کروایا جاتا ہے کیونکہ ان کا بیک گراؤنڈ چیک کیا جاتا ہے . خاص ٹرینڈ اور انتہائی ذہین نوجوان امیگریشن آفیسرز مسلمانوں کے انٹرویو کرتے ہیں . مجھ سے انہو ں نے گنتی کے پانچ سوال کئے . اس کے بعد ویٹ کرنے کو کہا .میرے پاس برٹش اور پاکستانی دونوں پاسپورٹس ہیں . میں نے امیگریشن افسر کو دونوں پاسپورٹ دکھا دیئے . ان امیگریشن آفیسرز کا رویہ بہت فرینڈلی ہوتا ہے کیوں کہ یہ ان کے ملک کا چہرہ ہیں. خیر جناب میں آرام سے بیٹھ کے لیپ ٹاپ پہ گانے فلمیں دیکھتا رہا . تین گھنٹے بعد مجھے میرا پاسپورٹ اور ویزا دیا گیا . اسرائیل دنیا کے کسی بھی پاسپورٹ پہ اب انٹری ایگزٹ سٹیمپ نہیں لگاتا . ایک نیلے رنگ کا کاغذ ہوتا ہے . وہی آپ کا ویزا ہے . اسی پہ آپ کی انٹری ہے . آپ کے پاسپورٹ پہ ایسی کوئی نشانی نہیں ہوتی کہ آپ نے اسرائیل وزٹ کیا ہے .
مجھے حیرت تب ہوئی تھی جب چند ماہ کے بعد لبنان کے ائیرپورٹ پہ امیگریشن افسر کو پاسپورٹ دیکھ کے پتا لگ گیا تھا کہ میں اسرائیل جا چکا ہوں . اب یہ پتہ نہیں کہ اس نے تکا مارا تھا یا پاسپورٹ پہ کچھ ایسا تھا جس سے اس کو اندازہ ہو گیا .
خیر جناب … میں نے تل ابیب ائیرپورٹ سے کیب لی اور سنٹرل تل ابیب میں اپنے ہوسٹل کی طرف روانہ ہو گیا .میرا ہوسٹل تل ابیب کے مشہور زمانہ ساحل پہ تھا جو کہ میڈی ٹیرین سمندر کے کنارے پہ واقع ہے . جب کیب سے اترا تو دیکھ کے مزہ آ گیا . رنگ اور روشنیاں … میوزک … صفائی …. بہت سے لوگ سمندر کنارے جوگنگ کر رہے تھے . والی بال کھیل رہے تھے . جو باقی لوگ تھےوہ میوزک سن رہے تھے . مشروبات انجوئے کر رہے تھے اور گپیں مار رہے تھے .
اگلے دن میں ساحل سمندر کی سیر کے لئے گیا . اس کے بعد تل ابیب کی گلیوں میں گھومتا رہا . سٹی سنٹر دیکھا . تل ابیب شہر اپنی سٹارٹ اپ کمپنی ز کے لئے مشہور ہیں .اس شہر کو آپ مذہبی شہر تو نہیں کہ سکتے . یہ سیکولر شہر ہے . کٹر یہودیوں کے اپنے الگ محلے ہیں . نارمل سیکولر نان پریکٹسنگ یہودیوں کے الگ محلے ہیں . کٹر یہودی اپنے محلے میں کسی سیکولر یہودی کو بلکل برداشت نہیں کرتے . بہرحال جی … میں نے دو دن اس شہر میں خوب انجوئے کیا .
اگلے دن میں نے گولان ہائیٹس کا ٹرپ بک کیا . یہ شام اور اسرائیل کی سرحد ہے جہاں کئی خوفناک جنگیں ہو چکی ہیں . ٹور کمپنی نے بہترین طریقے سے ٹور کروایا . سیاحوں کو بلکل سرحد کے آخری کونے تک لے جایا جاتا ہے جہاں ملک شام اور لبنان بالکل سامنے نظر آتے ہیں . اسرائیل نے اپنی سرحد کے آخری انچ تک کاشتکاری کی ہوئی ہے . جب کہ شام کی سائیڈ بنجر پڑی ہوئی تھی .
گولان ہائیٹس سے شام کو واپسی ہوئی . اسی وقت ہوسٹل سے اپنا بیگ اٹھایا اور بس کے اڈے پہ پہنچا جہاں سے مجھے یروشلم جانے والی بس لینا تھا . اسرائیل بالکل چھوٹا سا ملک ہے . تل ابیب سے یروشلم تک کا فاصلہ صرف پینتالیس منٹ کا ہے .
رات کو یروشلم پہنچا اور اپنے ہوسٹل پہنچا . میں نے اتنے ممالک گھومے ہیں . اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یروشلم کا سٹے ان مجھے سب سے بہترین ہوسٹل لگا .
اسرائیل دنیا کے مہنگے ترین ممالک میں سے ایک ہے . لیکن پھر یہاں پہ تنخواہیں اور سہولیات بھی اسی حساب سے ہیں .معیار زندگی بہترین ہے . ہر چیز کی سہولیات اور نظام بہترین ہے . کم از کم تنخواہ ماہانہ پندرہ سو سے دو ہزار امریکی ڈالرز کے مساوی ہے . فلسطینیوں کو بھی یہی تنخواہیں ملتی ہیں . اسی لئے فلسطینیوں کی اکثریت اسرائیلی علاقوں میں ملازمت کرتی ہیں . فلسطینیوں کے اپنے علاقے بیت الحم ، راملہ ، نابلس ،الخلیل ، جینین وغیرہ ہیں .وہاں پہ فلسطینی اتھارٹی کی حکومت ہے . ان علاقوں میں کم از کم تنخواہ پانچ سو امریکی ڈالرز کے مساوی ہے . فلسطین کا دوسرا حصہ غزہ ہے جو اسرائیل اور مصر کے درمیان ہے . وہاں حماس کی حکومت ہے . وہاں سیاحوں کی انٹری ممکن نہیں . وہاں پہ صرف چیرٹی ورکرز وغیرہ جا سکتے ہیں.
خیر جناب … میں یروشلم میں تھا . اگلے دن ڈوم آف دی راک اور مسجد اقصیٰ کی زیارت کے لئے گیا . وہاں جا کے نوافل ادا کئے. ویڈیوز اور تصاویر بنائیں . قبلہ اول کی زیارت کرتے وقت بہت ہی اچھا لگ رہا تھا . اس علاقے کو مسلم کوارٹر کہتے ہیں . اس کے باہر اسرائیلی پولیس کھڑی ہوتی ہے جو صرف مسلمانوں کو اندر جانے دیتی ہے . اندر فلسطینی اتھارٹی کی بھی سیکورٹی ہوتی . غیر مسلم ٹورسٹ صرف چند مخصوص اوقات میں جانے دیتے ہیں . اس میں بھی ان کو ڈوم آف دی راک اور مسجد اقصیٰ کے اندر جانے کی اجازت نہیں ہوتی . صرف باہر سے تصویریں بنا سکتے ہیں . یروشلم کی فضاوں میں کچھ الگ ہی بات ہے . جون کا مہینہ تھا اور گرمی تھی لیکن اس گرمی میں بھی کوئی خاص تکلیف نہیں ہوتی . گرمی لگے تو سائے میں کھڑے ہو جائیں . ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں.
رات کو یہودیوں کی مقدس دیوار گریہ پہ گیا . دیوار گریہ تک کوئی بھی جا سکتا ہے . بس سر پہ ٹوپی ہونی چاہیے اور لباس موڈیسٹ ہونا چاہیے . اگلے دن میں نے ویسٹرن وال ٹنلز کا ٹور کیا . ہمیں دیوار گریہ کی بنیادوں تک لے جایا گیا . پورا انڈرگرونڈ ایریا گھومایا اور ساری تاریخ بتائی گئی .اس کے بعد میں اس چرچ میں بھی گیا جہاں حضرت عیسی کو صلیب چڑھایا گیا تھا .
یروشلم کے بعد میں بیت الحم گیا . وہاں حضرت عیسی کی جائے پیدائش کا وزٹ کیا جہاں اب ایک چرچ ہے .
اس کے بعد میں فلسطین کے شہر الخلیل پہنچا جہاں مجھے مسجد ابراہیمی کی زیارت کرنا تھی۔ مسجد ابراہیمی ایک قبرستان کے اوپر بنی ہوئی ہے۔ اس قبرستان میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی پوری فیملی کی قبریں ہیں۔ یہ جگہ مسلمانوں اور یہودیوں دونوں کے لئے مقدس ہے ۔ کوئی سو سال پہلے یہاں عرب مسلمانوں نے یہودیوں کا قتل کیا۔ ان کا بدلہ لینے کے لیے 1994 میں ایک یہودی سیٹلر مسلح ہو کے اس مسجد میں نماز کے وقت گھس آیا ۔ اس نے اندھا دھند فائرنگ کر کے تیس سے زیادہ مسلمانوں کو شہید اور ڈیڑھ سو کو زخمی کر دیا۔ آج اس کا کچھ حصہ مسجد ہے اور باقی یہودیوں کا سینا گوگ ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقبرہ مسلمانوں کی مسجد میں ہے جبکہ حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت ہارون کے مقبرے یہودی سینا گوگ میں ہیں.
اس کے بعد میں رامله شہر گیا . وہاں سے نابلس اور پھر جینن . جینن شہر کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اسرائیل کے لئے بہت hostile جگہ ہے . وہاں اکثر جہادی گروپس کے خفیہ کیمپس ہیں .
یہ تمام شہر گھومنے کے بعد میں واپس یروشلم آیا . پورے فلسطین اسرائیل میں کہیں بھی کوئی چیکنگ نہیں ہوتی . صرف اور صرف اس وقت چیکنگ ہوتی ہے جب فلسطینی ایریا سے اسرائیلی ایریا میں آ رہے ہوں . وہ بھی اسرائیلی فوجی آپ کا پاسپورٹ یا آئی ڈی دیکھتا ہے . اور بس جاؤ . کوئی سوال جواب نہیں .
اگلی صبح میں یروشلم سے اردن بارڈر کی طرف نکلا .اسرائیل اردن بارڈر کا نام کنگ حسین ایلن بائے برج ہے . ایگزٹ بالکل آسان ہے .امیگریشن افسر پاسپورٹ چیک کر کے ایگزٹ کر دیتا ہے . ایگزٹ کی پنک شیٹ دیتا ہے جو کاغذ کا چھوٹا سا ٹکڑا ہوتی ہے . میں نے نے ایگزٹ کا سارا پراسیس صرف پانچ منٹ میں مکمل کر لیا . کیونکہ اس وقت بالکل بھی رش نہیں تھا . بارڈر کراس کر کے میں نے کیب لی . عمان کے کوئین عالیہ انٹرنیشنل ائیرپورٹ پہنچا . وہاں سے فلائی دبئی کی فلائٹ لی اور براستہ دبئی پاکستان واپس آ گیا . کیونکہ پاکستان میں انٹری کے وقت پاکستانی پاسپورٹ پیش کرتے ہیں . اس لئے مجھے کوئی مسلہ نہیں ہوا .
اس کمال اور یادگار سفر کو میں نے اختصار سے بیان کیا ہے . ابھی بھی سینکڑوں باتیں ہیں جو میں لکھ سکتا ہوں لیکن تحریر پہلے ہی بہت طویل ہو چکی ہے .اس پورے سفر میں میں محتاط تھا لیکن کسی بھی جگہ کسی نے بھی مجھے نہ تنگ کیا اور نہ تعصب کا مظاہرہ کیا . اس سارے علاقے کا کنٹرول اسرائیل کے پاس ہے اور وہ خود کو ٹورسٹ فرینڈلی اوپن کنٹری کہتے ہیں. میں نے سو فیصد سچائی اور ایمانداری کے ساتھ بطور سیاح اپنا تجربہ شیئر کیا ہے .اسرائیل اور فلسطین کا علاقہ کمال ہے . اگر زندگی میں آپ کو موقع ملے تو ضرور وزٹ کریں.