ایڈیٹر : سید بدر سعید

ایڈیٹر : سید بدر سعید

حسین ہاتھ کا کنگن

اسے زمانہ طالب علمی سے ہی لوگوں کی زمینوں پر پھرنے کا بہت شوق تھا وہ اکثر میر،درد،جوش،غالب،حالی اور دوسرے قدیم شعرا کی زمینوں میں اپنی فصل کاشت کرنے کی کوشش کرتا جواب میں اکثر وہ رات کو سوتے میں ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھتا جب کسی شاعر کو اپنے سرہانے ہاتھ باندھے کھڑا ہو ا پاتا اسے محسوس ہوتا کہ جیسے اکثر شاعر اس سے کہہ رہے ہیں ”کاکا۔۔۔! ہم پر رحم،جو زندہ ہیں ان سے زمین چھین کر دکھا“۔وہ اسکول کے دوستوں کے ساتھ ڈرامہ کرتا اورڈرامہ کے دوران ہی اپنی شاعری سنانے کی کوشش کرتا جنہیں چند سموسے،چاٹ کے شوقین طالب علم ایک ڈیل کے تحت دیکھتے، سنتے ہوئے کھاتے۔سرگودھا کے ایک ادبی رسالے میں جب وہ اپنی غزل جس کا ایک مصرع”دل دھڑکتا ہے تو ماتم کی صدا آتی ہے“اشاعت کی غرض سے لے پہنچے تو ایڈیٹر کے پاس ان کے دوست کی غزل بھی پڑی ہوئی تھی جس میں بھی اسی مصرع سے استفادہ کیا گیا تھا ایڈیٹر کے استسفار پر اس کے دوست نے بتایا کہ وہ عموماً اکھٹے ہی بیٹھ کر شاعری کرتے ہیں بس یہ مصرع میں ان کے سامنے گنگنا بیٹھا مذید کھوج نے ایک اور انکشاف کیا کہ ان دونوں نے یہ مصرع کسی اور شاعر کی غزل سے لیا ہے۔جب وہ اپنی شاعری کے محاسن استاد دوست سے معلوم کرنے پہنچے تو انہوں نے ناک پر عینک رکھتے ہوئے ان کی شاعری پکڑ کر ایک نظر ڈالی اور کہا ”یہ کیا ہے؟“۔اس نے پلکیں جھپکاتے ہوئے کہا ”یہ تو آپ نے بتانا ہے میرے مطابق تو شاعری ہے“جب استاد محترم اس کے کلام کو علم عروض کی کسوٹی پر، پرکھ کر کلام موزوں کر رہے تووہ حیرانی سے انہیں کبھی انہیں اور کبھی اپنے کلام کو دیکھ رہا تھا وہ جب اپنا کلام استاد محترم سے کر گھر کی جانب روانہ ہوا تو ان کے اپنے کلام میں سوائے تخلص کے ان کا اپنا کچھ نہ بچا تھااستاد صاحب کی بدولت کچھ شاعری چل تو نکلی تھی لیکن وہ اکثر یہی سوچتے اگر یہ استادمحترم کہیں ”دائیں،بائیں“ ہو گئے تو پھر اس کے آگے ان کی سوچ اور شاعری دونوں جواب دے جاتے۔ استاد محترم بوڑھے ہوتے چلے گئے وہ اور ان کی شاعری جوان ہوتی چلی گئی پھر ایک روز ان کی نظر کسی اور کی زمین پر پڑی اوراس زمین کی رنگینی اسے بھاگئی یہ مصرع ”کاش میں تیرے بن گوش کا بندہ ہوتا“تو جیسے اس کو مجبور کر رہا تھا کہ آؤیہ زمین ہی تمہاری ہے پھر اس نے اپنی شہرہ آفاق نظم ”کاش میں تیرے حسین ہاتھ کا کنگن ہوتا“ مجید امجد کی زمین میں بو دی وہ اپنے تئیں اپنے آپ کو سمجھاتا رہامیں نے اس نظم سے صرف کاش کا لفظ ہی لیا ہے اور یہ سینہ زوری تو نہیں ہے اس نظم نے اس سمیت،مجید امجد کو بھی دوبارہ زندہ کر دیا لوگ اس کی بدولت مجید امجد کے نام سے آشنا ہوئے۔ اس پر ادب اور سکرین کے دروازے کھلتے چلے گئے لوگ اسے سرقہ،چربہ کا نام دیتے رہے اس کے ڈراموں کو خرید کا ڈرامے کہتے رہے لیکن اس میں ایک خوبی ضرور رہی شائد چرچل کا مقولہ پلے سے باندھ رکھا ہے کہ اس نے مڑ کر کسی کی تنقید کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔ جو اس کے استاد محترم تھے ”رات گئے“وہ ان کے لئے اجنبی ٹھہرے اپنے پروگرام میں انہوں نے استاد محترم کی غزل یہ کہہ کر پڑھنے سے انکار کردیا کہ میں انہیں نہیں جانتا۔”باباجی“ کہتے ہیں ”تم لوگ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ ایک بندے نے اگر پانچ راتیں اور چھ دن سائیکل چلائی ہے تو اس نے کتنا جان جوکھوں کا کام کیا ہے،بجائے شاباشی دینے کے یہ کہہ دینا کہ یہ کام تو اس زمین پر صدیوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے یہ کونسا کارنامہ ہے یہ ذیادتی ہے“۔”بونگے بغلول“ کے خیال میں موصوف کو اپنی پرانی شاعری ”دو کی بجائے چائے بنائی تھی ایک کپ۔۔۔افسوس آج ہم بھی فراموش ہو گئے“کی جانب لوٹ جانا چاہئے کیونکہ ناقد ان کی شاعری کی قدر نہیں جان سکتے حالانکہ کس قدر جاندار مصرع ہے ”سمندر میں اترتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں“اب ناقد اس مصرع کو بھی تنقید کے کچوکے لگا رہے ہیں کہ اس میں کونسی سی شاعری ہے جب بندہ پانی میں اترتا ہے تو آنکھیں بھیگ ہی جاتی ہیں۔
اب وہ شاعری،ڈرامہ نگاری،اینکری سے لیکر کالم نویسی تک ہر میدان میں اپنے گھوڑے دوڑا رہا ہے،اب اس کی اپنی زمینیں،جگنو،تتلیاں اور پریاں ہیں اس کے پرستاروں کا ایک ہجوم اس کے تعاقب میں ہے لیکن سائیڈوں پر کھڑے ناقد پھر بھی اس کو ایک جینوئن شاعر نہیں مانتے ”کاش میں تیرے حسین ہاتھ کا کنگن ہوتا“ اس کے نام کے ساتھ چپک کر رہ گیا ہے۔

(ایڈیٹر نوٹ : فکاحیہ خاکہ لکھنا ایک مشکل اسلوب ہے . آج کے اس پرآشوب دور میں قاری کے چہرے پر مسکراہٹ لانا دل گردے کا کام ہے . فاضل مصنف سے ہم یہی کام جبرألے رہے ہیں. یہ محض ایک خاکہ نہیں بلکہ اعتراف فن بھی ہے کہ لکھنے سے پہلے متعلقہ شخصیت کو جاننا ، 0پڑھنا اور سمجھنا لازم ہے . مصنف نے بہرحال خون کے گھونٹ پی کر یہ کام بھی کردکھایا ہے )

Copyright © The Journalist Today

کچھ صاحب تحریر کے بارے میں

کے ایم خالد
کے ایم خالد
کے ایم خالد کو مزاح تخلیق کرتے تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے . پاکستان کے معتبر رسائل و اخبارات میں ان کے لاتعداد نثر پارے شائع ہو چکے ہیں . اپنی فکاہیہ تحاریر پر متعدد ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں . پاکستان ٹیلی ویژن پر ان کا لکھا مزاحیہ پروگرام شوخیاں نشر ہو چکا ہے جبکہ ایک اور مزاحیہ پروگرام"آوے کا آوا" شروع ہوا چاہتا ہے . کے ایم خالد ""دی جرنلسٹ ٹوڈے" کے لیے مستقل اور مضبوط بنیادوں پر لکھ رہے ہیں

دیگر مصنفین کی مزید تحاریر

مزاحمتی شاعری اور ہماری ذہنی حالت

شاعری شاید لطیف جذبات کی عکاس ہے یا پھر انسانی جبلت کی لیکن شاعری میں ایسی باتیں کہہ دی جاتی ہیں جو عام انسانی...

ہمارے نمک میں اثر کیوں نہیں

پاکستان اور افغانستان کا آپسی تعلق لو اینڈ ہیٹ جیسا ہے یعنی ایک دوسرے کے بغیر رہ بھی نہیں سکتے اور ایک دوسرے کے...

محکمہ زراعت کا خوفناک پراپرٹی سکینڈل !

اب تک سنتے آئے تھے کہ پراپرٹی میں بہت فراڈ ہوتا ہے ۔ طاقتور مافیا غریب شہریوں کو لوٹ لیتا ہے ، کہیں کاغذات...

پاکستان کا موجودہ سیاسی کھیل

پاکستان کے سیاسی گراونڈ میں اس وقت بہت ہی دلچسپ کھیل جاری ہے، ایک وقت تھا کہ سب یہ سوچ رہے...

اس پوسٹ پر تبصرہ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ سروس کی شرائط سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ ایک تحریری معاہدہ ہے جو اس وقت واپس لیا جا سکتا ہے جب آپ اس ویب سائٹ کے کسی بھی حصے کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کرتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

یہ بھی پڑھئے

مزاحمتی شاعری اور ہماری ذہنی...

شاعری شاید لطیف جذبات کی عکاس ہے یا پھر انسانی جبلت کی لیکن شاعری میں ایسی باتیں کہہ دی...

ہمارے نمک میں اثر کیوں...

پاکستان اور افغانستان کا آپسی تعلق لو اینڈ ہیٹ جیسا ہے یعنی ایک دوسرے کے بغیر رہ بھی نہیں...

محکمہ زراعت کا خوفناک ...

اب تک سنتے آئے تھے کہ پراپرٹی میں بہت فراڈ ہوتا ہے ۔ طاقتور مافیا غریب شہریوں کو لوٹ...

پاکستان کا موجودہ سیاسی کھیل

پاکستان کے سیاسی گراونڈ میں اس وقت بہت ہی دلچسپ کھیل جاری ہے، ایک وقت تھا کہ...

مزاحمتی شاعری اور ہماری ذہنی حالت

شاعری شاید لطیف جذبات کی عکاس ہے یا پھر انسانی جبلت کی لیکن شاعری میں ایسی باتیں کہہ دی جاتی ہیں جو عام انسانی...

ڈیزائنوں والا شاعر۔۔ وسیم عباس

شاعر یا ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔جو نہیں ہوتا اسے زیادہ داد ملتی ہے کیونکہ اس کا کلام سننے والوں کو بھی بھلا کہاں...