ہم اکثر یہ راگ سنتے ہیں کہ یہ ففتھ جنریشن وار فیئر کا دور ہے۔ لیکن ہم میں سے بیشتر اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے کہ بنیادی طور پر ففتھ جنریشن وار فیئر ہے کیا؟ ہم ٹیکنالوجی میں اتنا پیچھے ہیں کہ ہم ان وار فیئرز سے یکسر لا علم ہیں۔ سوشل میڈیا کو اپنے مقاصد کے لیے کیسے استعمال کرنا ہے، سائبر سیکیورٹی کو کس طرح اپنے عزائم کی تکمیل کا ذریعہ بنانا ہے، فیک نیوز کا سہارا لے کر کیسے رائے عامہ کو ہمورا کرنا ہے یہ سب ففتھ جنریشن وار فئیر کا حصہ ہے۔ لیکن ہم ابھی گوگل کا ایک دفتر پاکستان میں مکمل فعال نہیں کروا سکے لہذا یہ بحث ہی عبث ہے کہ ہم کیسے اور کیوں اس جدید دور کی اصلاحات سے دور ہیں اور کیسے ہم زمانے میں پیچھے رہ چکے ہیں۔
فتھ جنریشن وار فیئر کا ایک بہترین ذریعہ تھیٹر، ڈرامہ، فلم رہے ہیں اور آج بھی ہیں لیکن ہم اس حقیقت سے ایسے چشم پوشی کیے ہوئے ہیں جیسے بلی کبوتر کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتی ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے کہ پاکستان جو قیام پاکستان کے وقت سے ہی ذہین اذہان سے زرخیز رہا اب ہماری صلاحیتوں کو زنگ لگ چکا ہے۔ نیٹ ربی (Nate Rabe) عالمی شہرت یافتہ مصنف ہیں۔ "لالی ووڈ کی آواز: فلسطین کے لیے، عظیم پاکستانی اسٹار نیلو کی محبت کے ساتھ”، ان کا ایک ایسا آرٹیکل ہے جو پاکستان کی فلمی صنعت کا روشن دور ہمیں دکھا رہا ہے۔ آرٹیکل کی بنیاد پاکستانی فلم ” زرقا” ہے۔ اس آرٹیکل کے مطابق پاکستان کی فلمی صنعت ستر کی دہائی کے آغاز تک دنیا کی چوتھی بڑی فلمی صنعت تھی۔ یہ پڑھ کے نہ صرف حیرانگی ہوئی بلکہ ایک انجانی سی خوشی بھی کہ کبھی ہم بھی ایسی فلمیں بناتے تھے۔
بحث دور تک جائے گی، مختصراً اس آرٹیکل کی بنیاد بننے والی فلم زرقا کو ہی دیکھ لیجیے۔ یہ آج تک نہ صرف اُس نسل کی بچی کچھی نشانیوں کے قلوب میں زندہ ہے بلکہ میری نسل کے لوگ بھی جب ریڈیو یا کسی پرانی یاد کے طور پر ” رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے” سنتے یا دیکھتے ہیں تو ایک مرتبہ انسان ساکت ہو جاتا ہے کہ کس خوبصورت انداز سے فیض صاحب نے لکھا اور کیسے شاندار طریقے سے فلمایا گیا۔ "زرقا” سے قبل ” شہید” پردہ سکرین پر آئی اور حیران کن امر یہ ہے کہ اس فلم میں، جو 1962 میں ریلیز ہوئی، کہانی کے کردار پاکستان، خطہ عرب اور یورپ تک بکھرے دکھائی دیتے ہیں۔ آپ ایک لمحہ اندازہ لگائیے کہ ابھی پاکستان کی فلمی صنعت نوجوانی میں ہے اور کہانی اور پکچرائزیشن عرب و یورپ تک کہانیاں فلما رہی ہے۔ اور اس کا موازنہ آج سے کیجیے؟ 2022ء میں ہم نے دنیا کو کیا دکھایا؟ لند ن نہیں جاؤں گی؟ دی لیجنڈ آف مولا جٹ؟ گھبرانا نہیں ہے؟ ٹچ بٹن؟ وغیرہ وغیرہ؟
ہم تو آج تک ہمسایہ ملک لکھنے پہ مجبور ہیں، بھارت نہیں لکھ پاتے بسا اوقات کہ تنقید ہو گی۔ لیکن تھوڑا آگے بڑھیے۔ ایک پاکستانی فلم ” جوائے لینڈ” 2022 میں خبروں کی زینت بنی۔ یہ فلم پردہ سکرین پہ آنے کی خبروں کے ساتھ ہی متنازعہ بن گئی یا متنازعہ بنا دی گئی۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ اور کیوں اس فلم کو متنازعہ قرار دیا گیا؟ ٹرانس جینڈرز کی زندگی، اور ہماری زندگیوں پہ ان کے اثرات کے ساتھ ساتھ اس فلم میں ایک اچھوتا موضوع تھا کہ بے روزگاری کس طرح نوجوانوں کواس سمت لے جاتی ہے جہاں عام حالات میں ہم نہیں جانا چاہتے۔ اس فلم کی خاص بات یہ ہے کہ ہم پر لوگ اس وقت تنقید کرتے ہیں جب ہم کچھ کر رہے ہوں، ہماری بے روزگاری کے دوران کوئی ہمارا حال نہیں پوچھتا۔ بہرحال بات روکتے ہیں، فلم کاجائزہ لیجیے۔ لوویاگیارکی(Lovia Gyarkye)، اینا سمتھ، ایلن ہنٹر، جیسن گوربر، گائے لوج، ریان لوسن، ڈیوڈ ایبچسیانی(Davide Abbatescianni)، یہ تمام افراد فلمی صنعت کے حوالے سے لکھاری اور نقاد ہیں۔ ان تمام افراد نے جوائے لینڈ کو موضوع بحث بنایا۔ ان کا تجزیہ تنقیدی تھا یا توصیفی، یہ الگ موضوع ہے، لیکن کم از کم اس فلم نے عالمی سطح پر اپنا نام تو بنایا۔ ایشین پیسیفیک سکرین ایوارڈز، انڈیپینڈنٹ سپرٹ ایوارڈز، انڈین فلم فیسٹیول آف میلبورن، لندن فلم فسیٹول ایوارڈز جیتنے کے علاوہ، جوائے لینڈ کی سب سے اہم کامیابی کینز فلم فیسٹول میں نامزدگی تھی۔ اور کینز فلم فیسٹول کے ہی دوران Un Certain Regard Jury Prizeاور Queer Palm میں انعام کی حقدار پائی گئی۔
فلم کو اس لیے منتخب کیا گیا کہ اس کا موضوع بہت اچھوتا تھا۔ یہ تمام بحث اس لیے خیال از عبث ہے کہ یہ فلم پاکستان میں ہی پابندی کا شکار رہی۔ وجہ بنی اس کے موضوع کا ہماری معاشرتی اقدار سے متصادم ہونا۔ کیا واقعی ہمارے معاشرے میں اس فلم کی کہانیاں موجود نہیں؟
ایک اور منظر دیکھیے، بھارت میں سید حسن زیدی کی کتاب، مافیا کوئینز آف انڈیا،سے ماخوذ ایک موضوع فلمایا گیا، ” گنگو بائی کاٹھیاواڈی”۔
ایک لڑکی، عشق کے چکر میں، کوٹھے پہ آگئی، کوٹھے پہ نائیکہ نے اس کو زبردستی محبوس کر کے کاروبار پہ لگا دیا، اور پھر کہانی چل نکلی۔ جو الفاظ آرٹیکل میں ہم لکھ رہے ہیں کیا ہم ان الفاظ کو کبھی کسی کہانی کا موضوع بحث بنا سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں.. لیکن اس فلم نے بھارت میں ایک نئی بحث کو جنم دیا۔ فلم اور عالیہ بھٹ پہ تنقید کے باوجود اس فلم نے 68ویں فلم فیئر ایوارڈز میں پندرہ نامزدگیاں حاصل کر کے دس ایوارڈز جیتے۔ اور حیران کن طور پر اس فلم کو بھارت کے اندر اتنی پذیرائی ملی کہ یہ فلم 2022 کی چند بہترین فلموں میں سے ایک قرار پائی۔ بھارت میں عام عورت کیسے طوائف بن جاتی ہے، کس طرح وہ مسائل میں پھنستی اور کیسے ان مسائل سے نمٹتی ہے یہ اس فلم کا مرکزی خیال ٹھہرا۔ اس کے ساتھ فلم کی خاص بات یہ رہی کہ اس دلدل سے گنگو بائی کیسے ایک بچی کو نکالتی ہے اور گھر واپس بھجواتی ہے اور کس طرح اپنی ساتھی خواتین کی فلاح کے لیے سیاست کا رخ اختیار کر تی ہے۔
یہ صرف دو فلموں کا تقابل تھا۔ پاکستان میں ایک اچھوتے موضوع کی فلم کو بین کرنا پڑ جاتا ہے اور عالمی سطح پر پذیرائی کے باوجود یہ فلم پاکستان میں جگہ نہیں بنا پاتی۔ دوسری جانب ایک انتہائی حساس موضوع کو بھارت میں ایسی پذیرائی ملی کہ تنقید پس منظر میں چلی گئی۔ ہالی ووڈ فلم ” دی وائٹ ہاؤس ڈاؤن” میں پورا وائٹ ہاؤس تباہ کرنا دکھا دیا گیا، وہاں کے لوگوں نے فلم کو اس کے مرکزی خیال کی وجہ سے پسند کیا لیکن پاکستان میں ” مالک” کو صرف سائیں لفظ کی وجہ سے بین کر دیا گیا کہ اس لفظ کی مماثلت مخصوص شخصیات کا تاثر دیتی ہے۔ اور اس فلم میں پاکستان کی سیاست کو کرپشن کا گڑھ دکھایا گیا ہے۔ پرائمری کلاس کے کسی بچے سے پوچھیں کہ کیا پاکستان کی سیاست میں کرپشن ہے؟ تو جواب آپ کو مل جائے گا۔
ہم اس ففتھ جنریشن وار فئیر کا ابتدائی مرحلہ ہار رہے ہیں۔ ہمارے تھیٹرز، ڈرامہ اندسٹری اور فلمی صنعت موضوعات کی خود ساختہ کمی کا شکار ہے۔ قحط ہے ایسے موضوعات کا جو ہماری اس صنعت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر سکیں۔ پاکستان میں دس کروڑ کے بجٹ کی فلم پندرہ کروڑ کا بزنس کر جائے تو ہم اسے کامیابی سمجھتے ہیں۔ بھارت اور عالمی فلمی صنعت میں چار گنا زیادہ منافع دینے والی فلمیں بھی اوسط درجے کی شمار ہوتی ہیں۔اور سو کروڑ کے کلب کی فلم کو ہی کامیاب سمجھا جاتا ہے۔ ہم اپنی ترجیحات تبدیل کرنا نہیں چاہتے۔ ہم اس صنعت سے منافع کمانا نہیں چاہتے۔ ہمارے پاس شہدا ء ہیں، غازی ہیں، کے ٹو کی مہمات ہیں، سیاچن کا محاذ ہے، شمالی علاقہ جات کا حسن ہے، قائد اعظم سے لے کر آج تک ایسے سیاستدانوں کی بہتات ہے جو ملک سے مخلص رہے، دہشت گردی کی لہر میں جوانمردی کی داستانیں لکھنے والے جوان ہیں، ہیرا منڈی کی جہدوجہد کرتی طوائفیں ہیں، جان دیتے صحافی ہیں، ملک کی خاطر قربانی دینے والی شخصیات ہیں، سیلاب سے لوگوں کو بچاتے ہوئے جاں دینے والے لوگ ہیں، سکول میں بچوں کو بچانے کے لیے گولیاں کھانے والے استاد ہیں، سڑکوں پہ رلنے والے چھوٹو سے بزنس ٹائیکون بن جانے والے افراد ہیں، زلزلوں میں سب کھو کر دوبارہ کامیاب ہونے والے لوگ ہیں، میڈیا انڈسٹری میں جہدو جہد کرنے والے افراد ہیں، ایدھی ہیں، چھیپا ہیں، ظفر عباس جعفری ہیں، ابھی نندن کا جہاز گرانا ہے، ایل او سی ہے، کشمیر ہے، اور کتنے موضوعات ہیں کہ گنواتے ہوئے صفحات ختم ہو جائیں گے لیکن موضوع ختم نہیں ہوں گے۔ مسلہ ہماری سوچ کا ہے کہ ہم کیا کرنا چاہتے ہیں۔ ہم پاکستان سے محبت کا دعویٰ اس کو عالمی سطح پر روشناس کروا کر پورا کر سکتے ہیں۔ اور ہمارے پاکستان کے اندر کے حالات کو ہم نے خود سازگار بنانا ہے۔ ہم نے خود لوگوں کو نئے موضوعات کا عادی بنانا ہے۔ ہم اگر کل زرقا اور شہید جیسے شاہکار بنا سکتے ہیں جو لوگوں کے دلوں سے محو نہیں ہو پائے تو ہم "وار”، ” خدا کے لیے”، ” پرواز ہے جنوں "، "شیردل” جیسی اوسط درجے کی فلموں کو کیوں مزید بہتر انداز میں نہیں بنا سکتے کہ وہ دہائیوں تک عوام کے قلوب و اذہان پہ راج کریں؟ (اوسط اس لیے کہنے کی جرات کی کہ یہ فلمیں اپنی ریلیز سے دوسال تک بھی لوگوں کے دل میں یاد کے طور پر نہیں رہ پائیں)۔ آئیے مل کر کوشش کرتے ہیں اور کم از کم ایک حوالے سے تو پاکستان کا نام عالمی سطح تک پہنچاتے ہیں یا پھر ایسے لوگوں کی ہی مدد کرتے ہیں جو یہ کوشش کر رہے ہیں۔بھارت اگر ممبئی حملوں پہ فلم بنا سکتا ہے، تاج ہوٹل اور پارلیمنٹ کو موضوع بنا سکتا ہے تو ہم کیوں ایسا نہیں کر سکتے؟ ہالی ووڈ اگر وائٹ ہاؤس کو گرتا دکھانا بھی دکھا سکتا ہے، امریکی پرچم زمیں بوس ہونا فلما سکتا ہے تو ہم کیوں محض ٹرانسجینڈر کے ایشو ک اور لفظ سائیں کی وجہ سے بھی فلم پر پابندی لگا رہے ہیں .کیوں ہمارے پر جلتے ہیں؟ کیوں ہم یہ فیصلہ نہیں کرتے کہ فلم آرٹ ہے بغاوت نہیں .
ففتھ جنریشن وار، فلمی صنعت اور موضوعات کی قلت
کچھ صاحب تحریر کے بارے میں
اس پوسٹ پر تبصرہ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ سروس کی شرائط سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ ایک تحریری معاہدہ ہے جو اس وقت واپس لیا جا سکتا ہے جب آپ اس ویب سائٹ کے کسی بھی حصے کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کرتے ہیں۔