قیام پاکستان (1947ء) سے عصرِ حاضر تک پاکستانی سیاسی تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالی جائے تو یہ افسوس ناک انکشاف ہوتا ہے کہ ہمارے سیاست دانوں نے قوم کو جذباتی بنایا ہے۔ ان کے رویوں میں عدم برداشت اور انتہا پسندی کو فروغ دیا ہے اور علمی، عقلی، ذہنی اور نفسیاتی تربیت کے لیے کوئی لائحہ عمل نہیں بنایا۔مثلاً 1954ء میں حکمرانوں نے اپنی سیاسی غیر مقبولیت کو تحفظ دینے کے لیے آرمی چیف جنرل ایوب خان کو وزیردفاع بنا لیا۔ اس لیے کہ سیاسی مخالفین کو ڈرایا دھمکایا جا سکے۔ 1957تک جب سیاست دانوں کی گروہ بندی انتہا کو پہنچی تو نہرو نے تبصرہ کیا کہ میں نے اتنی دھوتیاں نہیں بدلیں جتنے پاکستان نے وزیراعظم بدلے۔ قومی اسمبلی مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے ہر چند ماہ بعد ایک نیا گروپ ابھارتی اور عدم اعتماد کے انداز میں پرانے گروپ کو پیچھے اور نئے کو آگے بڑھا دیا جاتا۔نتیجتاً قومی اسمبلی عدم برداشت کے رویوں کی بدولت ایک سیاسی اکھاڑہ بن کر رہ گئی۔ مجبوراً نظم ونسق کو کنٹرو ل کرنے کے لیے فوج کو مارشل لا لگانا پڑا۔
ایوب خان نے اپنے نظم ونسق کے بدولت ملک میں صنعتی انقلاب برپا کیا۔ مگر مشرقی ومغربی پاکستان کی بہت سی سیاسی پارٹیوں کو ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا گوارہ نہ کیا۔ اسمبلیوں کے اندر ہاتھاپائی کی نوبت پہنچ گئی۔ ایم۔پی۔اے۔ ایم۔این۔اے۔ ایک دوسرے کو صرف گالی گلوچ ہی نہ دیتے بلکہ گریبان پکڑنا اور تھپڑ مارنا معمول بناگیا اور منظم تحریک چلائی گئی۔ نتیجتاً یحییٰ خان نے مارشل لگا کر عام انتخابات کروا دیے۔مگر سیاست دانوں کے انتہا پسندانہ اور عدم برداشت کے رویے نے کوئی سیاسی حل نہ نکالا۔نتیجتاً ملک دو ٹکڑے ہو گیا۔ بھٹو نے بطور سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اقتدار سنبھالا۔ آئین دیا، مگر سیاسی مخالفین کے ساتھ عدم برداشت کے رویے نے جلد ایک نئی صورت حال پیدا کی۔ عام انتخابات ہوئے تو اپوزیشن کو جس طرح دیوار سے لگایا گیا تو اس نے احتجاجی تحریک شروع کی۔ حکومت اور اپوزیشن جلد کسی نتیجے پر نہ پہنچے تو مارشل لا لگ گیا۔
1975ء میں غیر جماعتی انتخابات ہوئے مگر الیکشن کے عمل سے باہر رہنے والی جماعتوں کو نیچا دکھانے کے لیے جلد غیر جماعتی ایوان کو مسلم لیگ میں بدل دیا گیااور جلد سیاست دانوں اور فوج کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہوئیں تو1988ء میں اسمبلیاں برخاست کر دی گئیں۔ ایک حادثے کے نتیجے میں ضیاء الحق اور ان کے ساتھی لقمہ اجل بن گئے۔ انتخابات ہوئے بے نظیر بھٹو وزیراعظم، میاں نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب اور کھینچا تانی شروع۔ بیس ماہ بعدا سمبلیاں برخاست کرنی پڑیں، انتخابات ہوئے نواز شریف وزیراعظم بن گئے۔ نوازشریف نے مخالفین کو دیوار سے لگایا حتیٰ کہ وہ فوج سے الجھ پڑا۔ نتیجتاً غلام اسحاق خان نے اسمبلیاں برخاست کیں، نئے انتخابات ہوئے اور بے نظیر وزیراعظم بن گئیں، فاروق لغاری صدر بنے۔اب آصف زردی، فاروق لغاری، نوازشریف، جماعت اسلامی کے درمیان وہ کھینچا تانی ہوئی کہ فاروق لغاری نے بطور صدر اسمبلیاں برخاست کر دیں۔
1997ء میں الیکشن ہوئے میاں نواز شریف وزیراعظم بن گئے۔انھوں نے بے نظیر کے خلاف انتقامی کاروائیاں کیں۔ انھیں ملک سے باہر جانے پر مجبور کر دیا۔نواز شریف امیر المومنین بننا چاہتے تھے اور اس طرح وہ اپنی بادشاہت کے لیے راستہ ہموار کرنے لگے۔ حتیٰ کہ انھوں نے صدر پاکستان، چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف جہانگیر کرامت کو عہدوں سے ہٹا دیااور پھر انھوں نے میدان صاف کرنے کے لیے انجینئر کور کے لفیٹینٹ جنرل ضیاء بٹ کو آرمی چیف لگا دیا۔ یہ چیز فوج جیسے منظم ادارے کے لیے قابل قبول نہ تھی۔ نتیجتاً ایمرجنسی لگا دی گئی اور آرمی چیف پرویز مشرف نے چیف ایگزیکٹو کا منصب سنبھال لیا۔انھوں نے بنیادی جمہوریتوں کا نظام دیا اورڈسٹرکٹ گورنمنٹ کا تصور دیا جو ایک اچھا سسٹم تھا مگر سیاست دانوں نے برداشت نہ کیا اور نہ چلنے دیا۔ انتخابات ہوئے اور ق لیگ نے اقتدار سنبھالا۔ اس کے بعد نواز شریف ملک سے باہر چلے گئے۔
دسمبر 2007ء میں بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا۔ پورے ملک میں فسادات پھیلنے لگے مگر فوج کی دوراندیشی نے سیاست دانوں کو مذاکرات کی میز پر لا کر جمہوری عمل کو بچا لیا۔ الیکشن کے بعد پیپلزپارٹی کی حکومت بنیں۔ 2013ء میں الیکشن ہوئے میاں نواز شریف پھر وزیراعظم، شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب اور پھرملک میں سیاسی عدم برداشت کا رویہ پروان چڑھا۔ حتیٰ کہ فوج کے ساتھ اختلافات اور سکینڈل بھی سامنے آنے لگے۔ ایسے عالم میں عمران خان نے ملک اور قوم کو سنبھالنے کے لیے الیکشن میں حصہ لیا ان کے نعرے عوام کو اچھے لگے مگر اپوزیشن نے انھیں چلنے نہ دیا۔اُن کی حکومت کو ساڑھے تین سال بعد پورے اپوزیشن نے برداشت کرنے کی بجائے عدم اعتماد کا راستہ چنا اس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ حکومت تبدیل ہوگئی مگر عمران خان اور ان کے ساتھی اپوزیشن کے اس طرزِ عمل کو قبول کرنے پر تیار نہ ہوئے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ پوری قوم عدم برداشت اورنفسیاتی انتہا پسندی کا شکار ہوگئی ہے۔لوگ سیاسی اختلافات کو ذاتی اختلافات اور دشمنی میں تبدیل کرنے لگے۔
اب ہم مذکورہ با لا منظر نا مے پر ایک نظر ڈا لتے ہیں تو حقیقت ہم پر آشکا ر ہو تی ہے کہ پا کستانی معاشرے کا فر د مختلف اور با ہم متضا د افکا ر و کیفیا ت سے دو چار ہو تا رہا ہے۔ کبھی فر د کے نز دیک حق کا معیار مختلف اور با طل کی شنا خت مختلف مگر کچھ عر صے بعد ایک مخصو ص حق اور مخصو ص با طل کے تر جمان با ہم شیر و شکر ہو کر لو گو ں کے لئے حیرا نی اور پر یشا نی کا سبب بن جا تے ہیں۔ لو گ کچھ عر صہ ایک گروہ کو درست سمجھتے ہو ئے دو سرے مخا لف بنے رہتے ہیں۔ مگر جلد ہی یہ دو نوں باہم مخا لف گروہ کسی ایک مفا د پر یکجا ہو جا تے ہیں۔ نتیجتاً سا دہ لو ح افراد فکری انتشا ر، جذبا تی بحران اور نفسیا تی مسائل سے دو چا ر ہو تے ہیں۔ لو گو ں کے لئے صحیح اور غلط اور خو ب و نا خو ب میں فر ق کر نا مشکل ہو جا تا ہے۔ بیسیویں صدی کے بعد ہم اکیسیویں صدی کے سترہ بر س دیکھ چکے ہیں۔ مختلف گروہ مفا دا ت کے لئے دوسرے گرو ہوں سے حالت جنگ میں بھی رہے ہیں اور پھر مشترکہ مفا دا ت کے لئے اختلا فا ت بھلا کر ایک میز پر بھی بیٹھ جا تے ہیں۔یہ منظر نا مہ سید ھے سا دھے سادہ لو ح لو گو ں کے لئے نفسیا تی پیچا ک اور الجھنوں کا سبب بن جا تا ہے۔ ضرو رت اس امر کی ہے کہ قو می، بین الا قوا می اور علا قائی صور ت حا ل کے زیرِاثر افرا د پر مر تب ہو نے والے اثرا ت کا جائزہ لیا جائے اور لو گو ں کی نفسیا تی اور فکری راہنمائی کی جائے تاکہ لو گ بد لتے ہو ئے حا لا ت کے سا تھ ہم آہنگ ہو نا سیکھ لیں۔ اگر لو گوں کی در ست خطو ط پر راہنمائی نہ کی گئی تو لو گ حالات کی تبد یلی کے ساتھ تبد یل ہو نے سے انکا ر کر دیں گے اور اس طرح وقت کی رفتار کا سا تھ نہیں دے پا ئیں گے۔ وقت کی رفتا ر لوگو ں اور قو مو ں کے مفا دا ت کی پا بند نہیں ہو تی۔ حالی نے در ست لکھا ہے۔
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی پار ہو یا درمیاں رہے
مختصر یہ کہ لو گو ں کو زند گی بسر کر نے کے لئے لچکدا ر نفسیا تی رویو ں کی ضرور ت ہو تی ہے۔ اگر لو گ لکچدا ر رویے اختیار نہیں کریں گے اور سخت گیر مو قف اپنائیں گے اور یہ سمجھیں گے کہ زند گی دو اور دو چار کی طر ح واضح حصو ں میں تقسیم ہو تی ہے تو یہ طرزِعمل لوگوں کی صحت مند نفسیا تی زند گی کے لئے ضرررساں ثا بت ہو گا۔ لہٰذا فطر ت کے اصو لو ں کے تحت جب تیز آند ھی چلے تو کچھ دیر کے لئے دباؤ قبول کرتے ہوئے جھک جا نا چاہئے۔وگر نہ زند گی کا کا رواں آگے بڑھ جا ئے گا اور لو گ نا کا میوں سے دو چا ر ہو کر رہ جائیں گے۔
پاکستانی سیاست کی تاریخ … کون کون مخالفین کو فکس کرتا رہا ؟
کچھ صاحب تحریر کے بارے میں
اس پوسٹ پر تبصرہ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ سروس کی شرائط سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ ایک تحریری معاہدہ ہے جو اس وقت واپس لیا جا سکتا ہے جب آپ اس ویب سائٹ کے کسی بھی حصے کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کرتے ہیں۔