شاید کسی بلا کا تھا سایہ درخت پر
چڑیوں نے رات شور مچایا درخت پر
دیکھا نہ جائے دھوپ میں جلتا ہوا کوئی
میرا جو بس چلے کروں سایہ درخت پر
(عباس تابش)
ماحولیاتی مسائل کے حوالے سے اب اعدادوشمار ثانوی حثیت اختیار کر گئے ہیں ۔ اس لیے کہ اب یہ مسئلہ ہر گھر پر دستک دے رہا ہے اور ہر انسان کی زندگی کو متاثر کرنے لگا ہے۔۔۔ یہ ایک ایسی وبا ہے جس کے لیے کسی کو ملامت کرنے کا جواز بھی نہیں رہتا۔۔ نہ اس میں سازشی تھیوری کے گھسے پٹے بیانیوں کی گنجائش رہی ہے۔ ایسا سلگتا عالمگیر مسئلہ جو ہر ملک کا ہی نہیں دنیا کے ہر فرد کا ہے۔ اس لیے کہ اس کے اثرات سے کوئی سمت اور کوئی کونہ محفوظ نہیں۔ سمندر کی تہ سے افلاک کی وسعتوں تک انسانی کردار اور فطرت کے اپنے کچھ اصولوں کی وجہ سے یہ مسئلہ موجود ہے۔۔۔
اور اسے انسانیت کے لیے ایک خطرہ بنانے میں بڑی ریاستوں کا بڑا کردار ہے۔لیکن چھوٹی ریاستوں اور انسانی آبادیوں کو بھی استثنا ء نہیں ۔۔ اس لیے کہ وہ ریاستیں اپنے اپنے حصے کا کام بھی نہیں کر سکیں ۔۔۔
اجتماعی کردار کا نتیجہ یا مکافات عمل اب ہمارے گھر پہنچ چکا ہے ۔ بے ہنگم آبادی مشینوں کی حکومت کاربن کا راج اور فطری ایکو سسٹم کی تباہی کے باوجود ترقی یافتہ اقوام اور باشعور انسانوں کا کسی روڈ میپ کو ممکن بنانے میں ناکام ہو جانا ۔۔ انسان کی اجتماعی سوچ اور شعور کی ناکامی ہے۔
ہماری سائنسی ترقی معلوم انسانی تاریخ میں محیر العقول ہے۔ہم حیران ہیں، جیسی کہ ایجادات آرہی ہیں۔ لیکن ان سب کی ہم قیمت اس ماحولیاتی تباہی کی صورت ادا کرتے ہیں
ہم نے گھوڑوں گدھوں کی جگہ جو کروڑوں کی تعداد میں گاڑیاں چلائی ہیں۔ کارخانے بنائے زندگی کو ڈیوائسز پر منتقل کیا اور مشینوں کے کردار کو زندگی کے ہر شعبے میں پہلی ترجیح بنادیا ہے۔ اور اس ترقی کے منفی اثرات کا خیال نہیں رکھا اور کنٹرول کرنے میں ناکام ہوئے ہیں یہ سب مصائب اس کا لازمی رد عمل ہے
امریکی صدر نے بہت پہلے کلائمیٹ چینج کے حوالے سے بڑے ممالک کی ایک میٹنگ میں کہا تھا کہاکہ ہم متاثر نہیں اس لیے کہ ہمارا اس میں کردار ہی نہیں یا بیت کم تو ہم کیوں حصہ دیں۔ لیکن انہی ایام میں امریکہ میں ایک سائیکلون آیا اور امریکہ میں دو ریاستوں میں بڑا نقصان ہوا ۔ تحقیقی مطالعات ہوئے تو پتہ چلا کہ کہ پڑوسی ریاست میں ہوا کا دباؤ بدلا اور سمندروں میں منتقل ہوا اور امریکی ریاستوں کو متاثر کیا۔ اس کے بعد یہ شعور مزید بہتر ہوا کہ اگر ہم نے یہاں محفوظ رہنا ہے تو ہمیں وہاں کے ماحول کو بچانا ہوگا۔ ہم غلطی کا پہلا نتیجہ ضروری نہیں ہمیں بھگتنا پڑے ۔ اس کا پہلا شکار ہمراہ پڑوسی بھی ہوسکتا ہے۔ اب ماحولیاتی تبدیلیوں میں یہی ہو رہا ہے۔ ہوا اور موسموں کی گرد مصیبتوں کو اٹھائے پھرتی ہے۔ اور کس کا نمبر آتا ہے۔ یہ پتہ چل بھی جائے تو اس وقت بچنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اسی لیے ماہرین ماحولیاتی مسائل کے تدارک کے لیے قبل از وقت طویل منصوبہ بندی کی سفارش کرتے ہیں ۔
ہماری زمین کی جو بنت ہے وہ باہم ملی ہوئی ہے زمین ایک گولہ ہے ایک یونٹ ہے۔ ہمارے پولیٹیکل اور سماجی اشتراک سے زیادہ جیو گرافی مشترکات ہیں۔ ماحول کے حوالے سے اب ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ ہندوستان کا مسئلہ ہے پاکستان کا نہیں یا چین کا مسئلہ ہے امریکہ کا نہیں ہے۔ دنیا کا یہ مشترکہ خوف ایسا ہے کہ جس پر سب کو ایک میز پر اور ایک سلوگن کے ساتھ متحد ہو جانا چاہیے تھا ۔
ہمارا جو ہمالیہ کا ریجن ہے۔ یہ قطبین کے علاوہ میٹھے پانی کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ ،قطبین سے آپ کو دنیا کے دو تین ارب آبادی کے لیے چشمے اور دریا نہیں ملتے۔
یہ فیض والا علاقہ ہے۔پانی کا گرو ہے۔ دنیا کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے ممالک اس ریجن میں ہیں۔ یہاں دنیا کی آدھی آبادی ہمالہ کے دامن میں فیض کے اس سر چشمے کے نیچے بیٹھی ہے۔ اور پانی کا دیوتا اور دیوی ان پہ بوند بوند ٹپکا رہی ہے۔
میٹھے پانی کے گلیشیئر کی صورت ذخیرے کے گرد قدرت نے ایک حصار کھینچا ہوا ہے۔
خاص طور پر پوٹھوہار کا علاقہ اس ذخیرے کا قدرتی حصار تھا ۔شمالی اور بالائی علاقوں کے گلیشیئر تک ملتان و مضافات ریگستانی اور میدانی علاقوں کی شدید گرمی لہر کے پہنچنے میں یہ پہلی حفاظتی دیوار تھی۔ سطح مرتفع پوٹھوہار کے جنگلات اور قدرتی ماحول اس پہلی لہر کو فلٹر کردیتا تھا یوں ٹمپریچر چار پانچ ڈگری کم ہو کر بالائی علاقوں تک پہنچتا تھا۔۔
لیکن پچھلے بیس تیس سالوں میں ہاؤسنگ سوسائٹی اور بہت سی اور وجوہات سے جو قدرتی ماحول اور جنگلات تباہ ہوئے ہیں۔ اب وہاں سے سیدھی گرم لہریں شمال کی طرف سفر کرتی ہیں۔ آگے آزاد کشمیر میں بھی ایک دوسری بڑی حفاظتی دیوار جنگلات کے ایک بڑے سلسلے کی صورت میں تھی۔ جسے محکمانہ اور حکومتی نالائقی نے بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا دیا ہے۔ ایسے ہی اب کاغان سے نیلم اور جہلم ویلی اور پھر آگے دیامر تک جنگلات کا کٹاؤ اور کئی جگہوں سے صفایا
ایک گرم لہر کو میٹھے پانی کے اصل ذخائر تک پہنچنے میں رکاوٹ نہ رہا۔
یوں اب یہ ذخیرہ ٹوٹنے لگا ہے اب برف پگھل نہیں رہی ابل رہی ہے۔ اب یہ محفوظ ذخائر اور ذرائع ختم ہو رہے ہیں۔ہم نے سائنسی ترقی کا جو جن بوتل سے باہر نکالا ہے۔اسے قابو کرنے کے لیے قدرتی وسائل اور ماحول کا توازن بہت ضروری تھا۔
لیکن کاپوریٹ گلوبلائزیشن کے جال میں پھنسے انسان آج بھی سمندروں میں کنکریٹ کے پہاڑ اور جہاز رانی سے خوراک کے بڑے ذخیرے کو تباہ کر رہے ہیں۔ اور پلاسٹک کے تھیلوں کے زہر سے زمین کو بانجھ اور فضا کو زہر آلود کر چکے ہیں۔ ہمارے پاس تباہ کن جنگی ہتھیاروں کا استعمال کجا ۔ ان کی حفاظت تیاری اور موجود ہونا بھی انسانیت کے لیے خطرہ ہے۔
اب ہمارے پاس وہ ذرائع اور عزم نہیں کہ ہم پھر سے اس جن کو بند کر سکیں۔ ہم اور تمام اقوام بھی کوئی ایسا روڈ میپ نہیں بنا سکی کہ ہم کہہ سکیں کہ ہم اس کو کنٹرول کرنے جا رہے ہیں کلائمیٹ کا چیلنج انسانیت کے لیے خطرہ ہے۔ لیکن انسانیت کے وارث لائحہ عمل بناکر آگے نہیں بڑھ سکے۔ یہ ناکامی اور بے حسی اس خطرے کی شدت کو بے رحمی سے بڑھا رہی ہے۔
صرف خطرات کے سالانہ جائزے اس خطرے کو نہیں ٹال سکے۔ ابھی تک صرف رقم مخصوص ہو رہی ہے ۔ جو زیادہ تر میڈا اور ایڈمن اخراجات یا تیسری دنیا کی کرپٹ حکومتوں کے کسی روڈمیپ پر عمل کا منصوبہ نہیں بن سکا کہ کہا جائے کہ ہم نے اپنے فلاں فلاں اہداف حاصل کر لیئے۔۔
دنیا پانی کی کمی قحط بھوک اور سیلابوں کی زد میں آندھیاں سائیکلوں اور درجہ حرارت کے اضافہ سے غیر یقینی اور غیر متوقع ماحولیاتی تبدیلیاں ہماری طرف بڑھ رہی ہیں۔ اور بچنے اور بچانے کا کوئی سنجیدہ عالمی روڈ میپ اور ویژن سامنے نہیں آسکا ۔۔۔ ایک ایسا عفریت جس کی پیشگوئی نہیں بل کہ اس کی یقینی خبر ہے۔ جس کی تیز زہریلی سانسیں وقتاً فوقتاً ہم تک پہنچتی بھی ہیں۔ لیکن سدباب کی سنجیدہ کوششیں ناپید ہیں۔ اور عالمی لیڈرشپ آج بھی اسلحہ سازی اور جنگوں میں الجھی ہوئی ہے۔۔۔
مشینی گرمی ہو یا ٹھنڈک یہ ماحول دوست کسی صورت میں نہیں۔ یہ امیروں کی سہولت ہے بس جس کی قیمت یہ قدرتی ماحول اور عام انسان ادا کرتا ہے۔ ہندوستان میں درختوں اور ہر ذی روح تک کی حفاظت کی جو حساسیت اور تقدیس تھی۔ اس نے ماحول کو بچا رکھا تھا ۔ لیکن جب درخت اور ماحول بچانے کے قانون بنے تو یہ مزاحمت دم توڑ گئی ۔لیکن قانون بھی کام نہ آسکا کہ امیروں نے قانون توڑنے کے راستے پہلے سے تلاش کر رکھے تھے۔ یوں ماحول کے بگاڑ میں قوانین کے باوجود کمی نہ لائی جا سکی۔۔
یاد رہے تاج محل جب بن رہا تھا اور ہندوستان میں کئی اور اس سے پہلے اور بعد بھی کئی راج محل جب تعمیر ہونے لگے تو مقامی لوگوں ا ور خواتین نے شدید مزاحمت کی اور جان کی قربانیاں تک دیں۔۔اور یہ قربانیاں صرف درخت بچانے اور قدرتی ماحول کو محفوظ رکھنے کے لیے تھیں۔ اس لیے کہ وہ معاشرہ جانتا تھا کہ ماحول کی اہمیت کیا وہ فطرت کے تقدس کا سماج تھا۔۔
انسان روایتی زندگی جیتے ہوئے زیادہ فطرت پسند اور ماحول دوست تھا لیکن اس روشن خیالی اور ترقی نے اسے پوری کائنات کا دشمن بنا دیا ۔۔
ماحول کا بڑا دشمن بے ہنگم آبادی اور تعمیرات ہیں
اس سے بڑا خطرہ سامراجی اور کرپٹ ریاستوں کے فیصلے ہیں۔ چونکہ حالات اس نہج پر ہیں کہ اب ریاستوں کی پالیسیاں نہیں عالمی کوششیں ہی ماحول کو بچا سکتی ہیں اور دنیا کی قیادت کرنے والے ممالک ہی اس حوالے سے طویل مدتی قابل عمل منصوبہ بنا کر سدباب کرسکتے ہیں۔ اس لیے اب مقامی کوششوں کو عالمی کوششوں سے مروبط کر کے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔۔ لیکن ایسا ہو نہیں رہا۔ اس کی بنیادی وجہ اپنے ریاستی مفادات اور ماحول کے خطرات کا ادراک اور بہتر عوامی شعور نہ ہونا ہے۔۔
بے ہنگم آبادی مسئلہ بے ہنگم اور ماحول دشمن پالیسیاں عذاب ہیں جنگیں اور اسلحہ کی صنعت عالمی مصیبت ہے۔ زمیں پولی تھین اور فضا گیسوں کے زہر سے بھری ہوئی۔۔۔ اور دنیا بھر کے ممالک آج بھی جنگ آزما ہیں۔ لیڈر سیاست اور اقتدار کی بھوک سے نہیں نکل سکے۔۔۔ کہیں ہتھیاروں کی جنگ اور کہیں ٹیکنالوجی کا مقابلہ ہے۔۔۔۔
غیر یقینی اور بے رحم موسمی اثرات اب ایک لہر کی صورت دنیا بھر میں سفر کرتے اور انسانی زندگی کو متاثر کرتے جارہے ہیں۔ سیلاب کے خطرات بڑھنے کا مطلب قحط کے خطرے کا زیادہ ہونا ہے۔ جنگلات کا اس زمین کے ماحول کو متوازن رکھنے میں کیا کردار ہے اس حوالے سے بھی ماہرین سائنسی معیار کے مطابق ڈیٹا امکان خطرات اور تدابیر دے چکے ہیں۔ اور گزشتہ بیس تیس سالوں میں یہ رقبہ کس تیزی سے ہم ہوا ہے ۔ یہ بھی مستند اعداد و شمار کی صورت میں موجود ہے۔ فضا گندی کیسے ہوئی اور اس کو کیسے صاف رکھ سکتے ہیں۔ یہ سمجھنا بھی مشکل نہیں۔
اب صرف وہ ہمت اور حوصلہ چاہیے جو جنگ عظیم دوم کے بعد دنیا کو پرامن اور محفوظ رکھنے کے لیے پیدا ہوا تھا ۔۔ ماحولیاتی بگاڑ دنیا کو جنگ عظیم سے زیادہ نقصان پہنچا چکا ہے۔ اور اس سے زیادہ نقصان کا اندیشہ ہے۔
منتظر گولو کی ایک نظم
فطرت کے آئینے میں دیکھیئے
میں نے مٹی پر سجدہ کیا
پھول اگے
رنگ نکھرے
خوشبو اٹھی
تتلیاں پہنچی۔۔۔
میں نے فضا کو
گلے لگایا
درخت جواں ہو گئے
پرندے اڑنے لگے
نغمہ سرائی ایجاد ہوئی۔۔۔
آسمان روشن ہے
مٹی میں خوشبو ہے
خوشبووں میں تتلیاں ہیں
فضا ہے
فضا میں پرندے ہیں
پرندوں کی نغمہ سرائی ہے
سمندر ہے
بے چینی ہے
تپش ہے
تم ہو
میں ہوں
نظمیں ہیں۔۔۔
ترجمہ: نادر دایو