ویسے تو گزشتہ تین سالوں سے یہ اطلاعات آرہی تھیں کہ پاکستان میں قرض دینے والی ایپلیکیشنزپہلے سود کی مناسب شرح پر قرض دینے کا جھانسہ دیتی ہیں اورجب کوئی مجبور شہری اُن سے قرض لے لیتا ہے تو پھر وہ مُختلف طریقوں سے شہری کو بلیک میل کرتی ہیں اور اُسے اس حد تک حراساں کیا جاتا ہے کہ وہ خودکُشی پر مجبور ہوجاتا ہے۔ چونکہ یہ سُننے میں توآرہا تھا لیکن اس کے کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں تھے، اس لیے نہ تو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے اس کا کوئی نوٹس لیا اور نہ ہی حکومت نے کوئی کاروائی کی لیکن گزشتہ دنو ں راولپنڈی میں ہونے والے ایک افسوسناک واقعے میں جب محمد مسعود نامی ایک شخص نے ایزی لون اور بھروسہ لون نامی ایپس کا لون ادا نہ کرسکنے اور اُن کی دھمکیوں سے تنگ آکر خود کُشی کرلی تو میڈیا بھی سرگرم ہوگیا اور حکومت بے بھی اس کا فوری نوٹس لیا۔ مقتول مسعود کی بیوہ نے بتایا کہ مسعود جو کہ کُچھ عرصے سے بیروزگار تھا، اُس نے بچوں کے سکول کی فیس کے لیے ایزی لون ایپ سے تیرہ ہزار قرض لیا۔ محض چند دنوں میں وہ قرض ایک لاکھ تک پہنچ گیا حالانکہ قرض دینے سے قبل لون ایپ والوں نے سود کی شرح صرف چودہ فیصد بتائی تھی، اس قرض کواُتارنے کے لیے مسعود نے بھروسہ لون نامی ایپ سے قرض لیا جو کُچھ ہی دن میں بڑھ کر سات لاکھ رروپے تک پہنچ گیا اور قسط نہ دے سکنے کی وجہ سے مسعود کو بلیک میل کیا جانے لگا اور مسعود نے بلیک میلنگ سے تنگ آکر خودکُشی کر لی۔
اگرچہ گزشتہ دو سالوں سے لون ایپس کی بلیک میلنگ کے واقعات سننے میں آرہے تھے اور ایک دو خود کُشی کے واقعات بھی سُننے میں آئے تاہم مسعود کی خود کُشی سے قبل کسی واقعے نے سوشل میڈیا اور حکومتی ایوانو ں میں اس طرح ہلچل نہ مچائی جیسی اس واقعہ نے۔ سوشل میڈیا پر واقعے کے تشہیر کے بعد ایف آئی اے نے بھی نوٹس لیا اور ا لون ایپس کے خلاف کاروائیوں کا آغاز کیا گیا۔
مسعود کی افسوسناک خودکُشی کے بعد ہم چند لکھنے والے ساتھیوں نے فیصلہ کیا کہ خودکُشی کے مزید واقعات کی روک تھام کے لیے ہم اپنا کردار ادا کریں۔ اس مقصد کے لیے ہم نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ لگا دی اور عوام سے اپیل کی کہ اگر وہ کسی لون ایپ کی بلیک میلنگ کا شکار ہورہے ہیں تو خودکُشی نہ کریں، ہم سے رابطہ کریں۔
ہماری اپیل کے جواب میں آٹھ سو سے زائد لوگوں نے ہم سے رابطہ کیا،یعنی ہمارے پاس آپ کو سنانے کے لیے آٹھ سوسے زائد داستانیں ہیں۔ اگرہم کُچھ ایسی داستانوں کو نظر انداز بھی کر دیں جن کی تصدیق نہیں ہوسکی تو بھی پانچ سو سے زائد مصدقہ داستانیں آپ کو سنانے کے لیے کئی سو صفحات درکار ہوں گے جو کہ ظاہر ہے ممکن نہیں، اس لیے ہم چند ایسی داستانوں کا انتخاب کرنے پر مجبور ہیں جو کہ زیادہ تکلیف دہ اور سبق آموز بھی ہیں۔ ان داستانوں کو آپ تک پہنچانے کا مقصد فقط اتنا ہے کہ پاکستان کے سادہ لوح عوام ان لو ن ایپس کی بلیک میلنگ سے واقف ہوں اور آئندہ یہ لون ایپس نہ کسی کو بلیک میل کرسکیں اور نہ کوئی خود کُشی پر مجبور ہو۔
اس سے قبل کہ ہم یہ داستانیں صفحہ قرطاس پرمنتقل کریں، یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ آپ کو ان لون ایپس کے کام کرنے کا طریقہ سمجھا دیں۔
لون ایپس کیسے کام کرتی ہیں؟
قرض شخصی ہو یعنی آپ کسی شخص سے قرض لیں یا کسی ادارے سے ظاہر ہے یہ انتہائی قدم بندہ کسی مجبوری ہی کی بناپر اٹھاتا ہے اور جب یہ مجبور شخص کسی لون ایپ کا سہارا لیتا ہے تو لون ایپس اُس سے بہت ساری شرائط منواتی ہے اور وہ اپنی مجبوری کی وجہ سے ہر شرط مانتا چلا جاتا ہے۔
جیسے ہی کوئی شخص کوئی بھی لون ایپ ڈاؤن لوڈ کرتا ہے وہ ایپ سب سے پہلے اُس کی فون بک تک رسائی مانگتی ہے کیونکہ اُس شخص نے اپنی فون بک یا کنٹکٹس میں اپنے تمام جاننے والوں اور رشتہ داروں کے فون نمبر محفوظ کیے ہوتے ہیں۔ یہ رسائی دیئے بغیر لون ایپ مزید کاروائی آگے نہیں بڑھاتی اس لیے مجبوراََ ہر شخص کو لون ایپ کو یہ رسائی دینا پڑتی ہے۔ اس کے بعد لون ایپ گیلری یعنی کہ موبائل میں محفوظ کی گئی تصاویر تک رسائی مانگتی ہے اور صارف کو یہ رسائی بھی دینا پڑتی ہے۔ قرض دیتے وقت لون ایپ والے انتہائی مناسب شرح سود بتاتے ہیں یعنی دو یا چار فیصد، صارف کے ذہن میں خیال آتا ہے کہ سود کی شرح زیادہ نہیں اور وہ مقررہ وقت میں آسانی سے قرض سود سمیت ادا کر دے گا لیکن جیسے ہی وہ قرض لیتا ہے وہ ایک عذا ب میں پھنس جاتا ہے۔ لون ایپ والے قرض لی گئی رقم سے کئی گنا زیادہ رقم کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ دس ہزار قرض لینے والے کو قرض لینے سے قبل یہ سمجھایا جاتا ہے کہ اُس نے صرف بارہ ہزار ادا کرنا ہوں گے لیکن قرض لینے کے فوری بعد اُسے پیغام آجاتا ہے کہ آپ نے پچیس ہزار فلاں تاریخ سے قبل ادا کرنا ہیں۔صارف پریشان ہوجاتا ہے اور اتنی بھاری رقم کی واپسی سے معذوری ظاہر کرتا ہے۔ لون ایپ والے اصرار کرتے ہیں، وہ انکار کرتا ہے، پھر سلسلہ دھمکیوں تک پہنچ جاتا ہے،اگر دھمکیوں کے بعد بھی صارف رقم اضافی سود سمیت ادا کرنے کو راضی نہ ہو تو وہ صارف کے موبائل فون میں محفوظ فون نمبروں پر رابطہ کرتے ہیں اور اُنہیں بتاتے ہیں کہ فلاں نام کے شخص نے اُن سے اتنا قرض لیا ہے اور اب ادا نہیں کر رہا۔ یہ ٹیلی فون کالزعا م طور پر رشتہ داروں یا دوستوں کو جاتی ہیں، اگر اب بھی صارف رقم ادا نہ کرے تو لون ایپس والے اُس کی گیلری سے تصویریں اُٹھا کر اُنہیں ایڈیٹ کرتے ہیں اور اُس کے رشتہ داروں کو بجھوا نے لگتے ہیں۔ اس حرکت کے بعد یا تو صارف قرض سود سمیت اداکرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے یا خودکُشی جیسا انتہائی قدم اُٹھا لیتا ہے۔
لون ایپس کے مظلوموں کی داستانیں
سُور کی شکل اور گالی
ؒلاہور کے رہائشی ایک رکشہ مکینک نے بتایا کہ اُس کی والدہ کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی جسے وہ ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے، علم ہواکہ اُنہیں دل کا دورہ پڑا ہے اور ہسپتال میں داخل کرلیا گیا۔ چونکہ گھر میں کوئی اور مرد موجود نہیں تھا، اس لیے اُس نے اپنی دُکان بند کی اور والدہ کے ساتھ ہسپتال میں تیمارداری پر مامور ہوگیا۔ والدہ کوئی دو ماہ ہسپتال میں رہیں جس کے بعد اُن کا انتقال ہوگیا۔ اس دوران جمع پونجی ماں کے علاج اور تدفین پر خرچ ہوگئی۔ دکان پر پُہنچا تو دُکان پر دو تالے نظر آئے۔ پڑوسی دکانداروں نے بتایا کہ دُکان کا مالک آیا تھا، دو ماہ کا کرایہنہ دینے کی وجہ سے اُس نے دُکان کو تالا لگا دیا ہے۔رکشہ مکینک نے فون کرکے مالک کی منت سماجت کی اور وعدہ کیا کہ اُسے دُکان کھول کر کام کرنے دیا جائے وہ دو ماہ کا کرایہ چند دنوں میں ادا کردے گامگر مالک نہ مانا البتہ اُس نے مکینک پر یہ مہربانی ضرور کی کہ اُسے کہا کہ اگر وہ ایک ماہ کا کرایہ بھی ادا کردے گا تو دُکان کھول کر کام کرنے کی اجازت مل جائے گی، اب اس ایک ماہ کے کرائے کے لیے اُس نے کسی دوست کے مشورے سے لون ایپ والوں سے تیس ہزار روپے قرض لیا۔ چند دن بعدلون ایپس والوں کی جانب سے پیغام آیا کہ آپ قرض کی رقم اور فنانس چارجز (سُود) پچاس ہزار روپے آج ہی ادا کردیں ورنہ آپ پر جُرمانہ عائد ہوگا اور آپ کو اسی ہزار روپے ادا کرناہوں گے۔
میسج ملتے ہی اُس نے ہیلپ لائن پر کال کی اور بتایا کہ قرض دیتے وقت تو ایپ انتظامیہ نے ایسی کوئی بات نہیں کی تھی اور اُس کے پاس قرض ادا کرنے کے لیے پندرہ دن کی مہلت ہے مگر ہیلپ لائن والوں نے اُسے مزید ڈرا دیا اور کہا کہ پچاس ہزار فوری ادا کریں ورنہ آپ بُری طرح پھنس جائیں گے۔ چونکہ وہ رقم ادا نہ کر سکا،اس لیے بُری طرح پھنس گیا۔ لون ایپ والوں نے پہلے اُس کے رشتہ داروں کو فون کرنا شروع کیے، رقم پھر بھی ادا نہ ہوسکی تو اُنہوں نے اُس کی گیلری میں سے اُس کی تصویر اُٹھائی، اُس پر سور کی شکل چپکائی اور لکھا کہ ”یہ وہ سُور ہے جو قرض لیتا ہے، مگرادا نہیں کرتا “ اور تصویر اُس کی ساس کے نمبر پر وٹس ایپ کر دی۔ اُس نے پھر ہیلپ لائن پر فون کرکے احتجاج کیا مگر لون ایپ والوں نے اُس کی ایک نہ سُنی اور اُسے ہی ڈراتے رہے۔ پھر کسی دوست نے اُس کی مدد کی اور وہ اسی ہزار ادا کرکے اپنی جان چھڑانے میں کامیاب ہُوا۔
قرض ادا نہ کرسکنے والی بیوہ کو بدکاری کی دعوت
ایک بیوہ نے رابطہ کیا اور بتایا کہ اُس نے اپنی بیٹی کی سکول کی فیس کے لیے لون ایپ سے دس ہزار روپے ادھار لیا۔لون ایپ والوں نے کہا تھا کہ دس ہزار کے بدلے میں بارہ ہزار ادا کرنا ہوں گے۔ بیوہ نے سوچا کہ سکول میں بچی کو روز نہ بے عزت کیا جاتا ہے، بہتر ہے کہ سُود پر قرض لے لُوں چنددنوں تک کہیں سے انتظام ہُوا تو رقم ادا کر دوں گی مگر وہ انتظام نہ ہوسکا۔ دس ہزار سُود سمیت پچاس ہزار بن گئے۔ دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہُوا۔ بیوہ کے داماد کو کال کی گئی، وہ بھی غریب آدمی ہے تاہم وہ کہیں سے دس ہزار کا انتظام کرنے میں کامیاب ہوگیا اور دس ہزار لون ایپ والوں کو ادا بھی کر دیئے مگر لون ایپ والے باقی کی رقم کے لیے اصرار کرتے رہے۔ بیوہ کے بقول ایک دن لون ایپ کے ایک آپریٹر نے اُنہیں کہا کہ اگر رقم ادا نہیں کر سکتی ہوتو ہمارے صاحب کے ساتھ آکر سو جاؤ، تمہارا قرض ادا ہوجائے گا۔ بیوہ کہتی ہیں کہ اُنہوں نے اُسے گالیاں دیں جس کے بعد اُس نے بیوہ کی بیٹی کی تصویر ایڈیٹ کرکے اُنہیں وٹس ایپ کی جس میں وہ برہنہ تھی۔ بیوہ نے جب ہم سے رابطہ کیا تو ہم اُن کا کیس ایف آئی اے کے سائبر کرائم یونٹ میں لے گئے، جن کی مداخلت سے مزید پانچ ہزار دے کر بیوہ کی جان بخشی کی گئی۔
توہین رسالت کا کیس بنوانے کی دھمکی
ایک عیسائی صارف نے بتایا کہ اُس نے کرسمس کے موقع پر ایک لون ایپ سے بیس ہزار روپے قرض لیا۔ اگلے دن ایپ والوں کی طرف سے میسج آیا کہ فوری چالیس ہزار ادا کریں ورنہ روزانہ پانچ ہزار روپے جرمانہ عائد ہوتا رہے گا۔ اُنہوں نے بھی ہیلپ لائن پر کال کی اور بتایا کیا کہ ابھی کل ہی تو قرض لیا ہے۔ اتنی جلدی اتنا سوُد کیسے بن گیا لیکن ایپ والوں نے اُس کی ایک نہ سُنی اور اُسے مزید دھمکیاں دیتے رہے۔ صارف کے بقول چند دن بعد ایک آپریٹر نے اُسے کال کر کے ایک لاکھ روپے فوری ادا کرنے کا کہا۔ اُس نے احتجاج کیا اور کہا کہ میں نے صرف بیس ہزار روپے قرض لیا تھا اور بیس ہزار روپے پر آپ زیادہ سے زیادہ پانچ ہزار سُود لے لو، یہ ایک لاکھ کیسے بن گیا تو آپریٹر ٖ غصے میں آگیا اور صارف کا گالیاں دینے لگا، صارف نے بھی جوابی گالیاں دیں تو آپریٹر نے دھمکی دی کہ اگر کل تک ایک لاکھ نہ دیا تو تمہارے اوپر توہین رسالت کا مقدمہ درج کرا دیں گے کیونکہ تمہاری آواز تو ہمارے پاس آگئی ہے اور اس آواز کو کیسے استعمال کرنا ہے، یہ ہم خوب جانتے ہیں۔صارف کے رابطہ کرنے پر اس کا کیس بھی ہم ایف آئی میں لے کر گئے اور ایف آئی کی مداخلت سے صارف کی گلو خلاصی ہوئی۔
قارئین! کہانیاں تو کئی ہیں اور سب دردناک لیکن طوالت کا خوف رُکاوٹ ہے۔ عام طورپر کالج اوریونیورسٹیوں کے طلباوطالبات فیس فوری ادا کرنے کے لیے یا کسی دوست یار کی فرمائش پوری کرنے کے لیے ان لون ایپس سے قرض لے لیتے ہیں۔ وہ اپنے والدین کو بھی نہیں بتاتے اور ان لون ایپس کے ہاتھوں بلیک میل ہونے لگتے ہیں۔ ا س لیے خدارا اپنے بچوں کو سمجھائیں کہ وہ کسی بھی صورت ان لون ایپس کے چنگل میں نہ پھنسیں۔
آپ کو اب یہ بتاتے ہیں کہ خدانخواستہ اگر آپ کو کسی لون ایپ سے قرض لینا ہی پڑے تو آپ کیا کریں۔
سب سے پہلے تو کوشش کریں کہ کسی دوست،رشتہ دار یا عزیز سے ادھار پکڑ لیں اور ان لون ایپ کی طرف نہ جائیں لیکن اگر خدانخواستہ ایسا کرنا ہی پڑے تو لون لیتے وقت اُن کی تمام شرائط کے سکرین شارٹ لیتے جائیں۔ قرض جتنی مدت کے لیے لیں، کوشش کریں اُس مدت کے اندر ادا کردیں۔ لون ایپ والے جب بھی فون کریں، اُن کی کال ریکارڈ کریں اور اگر وہ کوئی دھمکی دیں تو اس بات کا انتظار نہ کریں کہ وہ دھمکی پر عمل کر سکیں، نہ یہ سوچیں کہ محض دھمکی ہے وہ کُچھ نہیں کرسکتے بلکہ فوری طور پر ایف آئی اے سائبر کرائم یونٹ کو شکایت درج کرائیں، شکایت آپ آن لائن بھی درج کرا سکتے ہیں۔ اس کے لیے ویب سائٹ کا ایڈریس یہ ہے۔
www.fia.gov.pk اس ویب سائٹ پر جا کر سائبر کرائم یونٹ کو سیلیکٹ کریں اور اپنی شکایت درج کرائیں۔ پھر سات دن کے اندر اپنے نزدیکی ایف آئی اے آفس میں جاکر متعلقہ افسر سے خود ملیں اور اُسے تمام ثبوت دیں تاکہ وہ لون ایپ والوں کے خلاف کاروائی کر سکے۔
مافیا کا نیٹ ورک… جس کے ریڈار پر آنےوالے خودکشی کر لیتے ہیں !
کچھ صاحب تحریر کے بارے میں
اس پوسٹ پر تبصرہ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ سروس کی شرائط سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ ایک تحریری معاہدہ ہے جو اس وقت واپس لیا جا سکتا ہے جب آپ اس ویب سائٹ کے کسی بھی حصے کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کرتے ہیں۔