ہر شخص کی قیمت وہ ہنر ہے جو اُس شخص میں ہے۔یہی تو وجہ تھی کہ رحیل پروفیسراختر صاحب کا دیوانہ تھا۔ہوتا بھی کیسے نہ شہر کے انگلش لٹریچر کے آسمان ِادب کے درخشندہ ستارے،ماڈرن ادب پر گہری نگاہ رکھنے والے،جن کا طوطی سارے شہر میں بولتا تھا،وہ سب کے سب تواُن کے شاگرد تھے۔
پرنسپل شپ سے ریٹائیر ہونے کے بعد،پڑھانے کا چسکا ایسا چسکا ہوتا ہے کہ انسان کی جان نہیں چھوڑتا، قریبی لڑکوں کے اصرار پر،سر نے ایم۔اے کی کلاس اپنے گھرمیں شروع کر دی۔گھر کے مین گیٹ کے ساتھ، رنگ برنگے پھولوں کی بیلوں میں سے بل کھاتا لوہے کی سیڑ ھیوں سے راستہ،مستطیل نما کمرہ میں جاتا۔یہ ہی کمرہ لڑکوں کے لئے ایک سکول آف تھاٹ تھا۔کلاس کے آغاز کے لئے سر نے کبھی کوئی اشتہار یا کلاس کے باہر کوئی بورڈ نہیں لگوایا تھا۔ سارا سال لڑکے آتے رہتے تھے اور کلاس بنتی رہتی تھی۔اس کلاس میں مختلف کالجوں کے سٹوڈنٹ آتے تھے۔ اس کلاس سے،ان ریگولر سٹوڈنٹس کا فائدہ تو ہوتا ہی رہتا تھا لیکن اُن کے ساتھ ساتھ تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ،نادار، لاچار،حالات کے ستائے ہوئے،پرائیویٹ طالب علم اس کلاس سے بھی بہت زیادہ مستفید ہوتے رہتے تھے۔سر کا کمال تھا کہ انگلش لٹریچر پر مضبوط گرپ ہونے کے ساتھ ساتھ،بچوں کو پاس کروانے کا فن بھی جانتے تھے۔ ان پرائیویٹ طالب علموں کی وجہ سے وہ اس کلاس کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ وہ خود بھی کہا کرتے تھے،
This class is my life-blood………….my life-plug.
ایک دفعہ انھوں نے ایک سکول کے فنکشن کی صدارت کرتے ہوئے، اپنے پروفیشن،اپنی priortyکے بارے میں بڑی وضاحت سے خود کہاتھا at all,that is the classroom. My domain,if any, پروفیسر سے لے کر پرنسپل بننے تک کا سفر انھوں نے نہایت محنت سے طے کیا تھا۔حقیقت میں اپنی روح کی گہرائی تک وہ ایک استاد ہی تھے۔کالج میں بھی انھوں نے محض خانہ پری کیلئے اس پروفیشن کو جوائن نہیں کیا تھا۔وہ کالج میں دھاڑی لگانے نہیں آتے تھے۔۔۔۔۔۔کالج آئے۔۔۔حاضری لگائی۔۔۔کلاس میں گئے،کتاب کھولی۔۔۔۔۔۔موبائیل پر فون آ گیا۔۔۔۔۔آدھا گھنٹہ پار۔۔۔۔۔۔۔ واپس آئے۔کہا،اس سبق میں تو مجھے کوئی خاص بات نظر نہیں آتی۔۔۔۔۔۔۔۔کل خلاصے سے فلاں فلاں سوال یاد کر لینا۔۔۔۔۔بچوں کا خانہ خراب۔۔۔۔۔آپ کے پی۔ایچ۔ڈی کرنے کا بچوں کو کوئی فائدہ نہ ہوا۔ٹائم دیکھتے رہے ٹائم ختم۔۔۔۔وہ آئے ۔۔۔وہ گئے۔ پاکستانی ایجوکیشنل سسٹم کو ان دھاڑی دار استادوں نے تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ان کی سلیکشن میں بھی ان کی قابلیت۔۔۔۔ان کی ڈگریاں دیکھ کر کی جاتی ہے نہ کہ ان میں پڑھانے کا جذبہ۔۔۔۔۔اِن کا ٹیچنگ کی طرف میلان دیکھ کر۔لیکن سر کا کیا تھا،کلاس شروع ہوئی۔۔۔۔سبق میں غرق ہوجاتے۔ان کے پاس جو علم تھا اس کو سٹوڈنٹ تک مکمل دیانت داری کے ساتھ پہنچانے کی کوشش کرتے۔اپنے علم کا رعب نہ جماتے بلکہ ان کو،ان کے لیول تک اتر کر علم سے سیراب کرنے کی کوشش کرتے۔یہی وطیرہ۔۔۔یہی عادت اپنی اس کلاس میں رہی۔۔ وہ پڑھاتے نہیں تھکتے تھے۔۔۔۔پڑھاتے ہوئے خود بھی لطف لیتے تھے۔
عظیم استاد تو وہ تھے ہی لیکن انسان بھی بہت بڑے تھے۔اُس وقت جب وہ ایران سکالر بن کر،انٹر نیشنل پرشین کانفرنس میں،شاہنامہ فردوسی۔۔۔۔۔ایک عظیم ایپک،پر اپنا مقالہ پڑھنے گئے تھے۔جب وہاں ایک بہت بڑی لائبریر ی میں دوسروں مدوبین کے ساتھ گئے تھے۔مختلف کتابوں کو دیکھتے ہوئے انھوں نے ایک کتاب دیکھی۔ اس کو ریک سے نکالا۔ آنکھوں سے لگایا اُس کتاب کو چوما، دوبارہ اُس کو اُسی ریک میں رکھ دیا۔ دوسروں ساتھیوں میں سے ایک ساتھی بھی اُس ریک کے قریب پہنچا،ریک سے وہی کتاب نکال کراس کو غور سے دیکھا۔حیران ہوا،سر کے پاس گیا،کہ شاید غلط فہمی میں کسی اور کتاب کو قرآن سمجھ کر آنکھوں پر لگا اور چوم آئے ہیں۔ سرکی توجہ اس امر کی طرف مبذول کروائی کہ انھوں نے بھی اس کتاب کو غور سے دیکھا،وہ قرآن نہیں بلکہ اقبال لاہوری کی کتاب ہے۔سر نے دھیمے لہجہ میں جواب دیا، ”ہاں میں جانتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگرچہ یہاں تو میں ایک سکالر بن کر آیا ہوں۔۔۔۔۔لیکن بنیادی طور پر ایک بک بائینڈر کا بیٹا ہوں۔۔۔۔۔۔میں نے کتاب دیکھی اس کا سن دیکھا،اس سال بک بائینڈنگ کا ٹھیکہ میرے والد صاحب کے پاس تھا۔اس کتاب کو میرے والد کے ہاتھ لگے ہوئے ہوں گے۔۔۔اس لئے میں نے اس کتاب کو چوما بھی اور آنکھوں کو بھی لگایا۔ان کی آنکھیں چھلک پڑیں۔آپ کے ساتھیوں کو جیسے سکتہ ہو گیا۔“
جب اُس نے کالج میں ابھی ایم۔اے کی تعارفی کلاس جوائن کی،سر کے پہلے ہی فقرے نے اُس کی ساری توجہ اپنی جانب مبذول کر وا لی تھی جب انھوں نے دھیرے سے کہا،لٹریچر حیران ہونے اور حیران کرنے کا نام ہے۔انھوں نے پہلے ہی دن کہا تھا،اگر آپ ادب کے ان کرداروں کے ساتھ ہنس اور رو سکتے ہیں تو لٹریچر رکھیں ورنہ چھوڑ دیں۔“ان سے ادب پڑھنے کا سواد اُس کے منہ سے پھر ساری زندگی نہ جا سکا۔شیکسپیئر کا پلے،ہملٹ شروع ہوا، پھر کیا تھا،
To be or not to be,That is the question یہ لائنیں شروع ہوہیں،ہفتہ دو ہفتہ ان لائنوں ہی کو کنگالتے گزر گئے۔
Robert Browning شروع ہوا،
Browning,sDramatic Monologue
عنوان کو چھوٹے چار حصوں میں تقسیم کیاجاتا۔براؤنگ۔۔۔ ڈرامیٹک۔۔۔۔۔مونو۔۔۔۔۔لاگ اور لیکچر شروع ہو جاتا۔ پڑھاتے نہ مرشدکو ہوش نہ سنتے مریدین کو۔ ڈرامہ ہو کہ ماڈرن یا کلاسک شاعری،نثر ہو کہ ناول،جو انھوں نے پنتیس سا ل تک کالج میں پڑھایاتھااور اس پیپرکے وہ ایگزامینر بھی رہے تھے۔کسی بھی لائن کو لیا جاتا۔لفظوں کو disectکیا جاتا، اس کے ہر شیڈکو ڈسکس کیا جاتا۔۔۔۔۔۔ لفظوں کے مختلف معنی دیکھے جاتے،تھیم سمجھایا جاتا، ہر سٹوڈنٹ کو اس بحث میں involveکیا جاتا۔ ایک بات کہی جاتی اور دوسری ان کہی بات سمجھی جاتی۔ مثلا وہ کہتے، وہ بہادر ہے،یہ بات کہی جاتی اور وہ بذدل نہیں ہے،سمجھی جاتی۔اَن کہی باتوں اور مطالب کو سمجھنے کی سعی کی تربیت،اس کلاس میں دی جاتی۔ جس کو کہتے ہیں نا بال کی کھال کی اُتارنا،وہی عمل اس کلاس میں ہوتا۔
سر ایک صاحب رائے انسان تھے۔اُن کے ایک ایک لفظ کا،ایک ایک فقرہ کا وزن ہوتا۔وہ سمجھاتے جاتے،یہ دنیا واقعات کا ایک سمندر ہے۔واقعات کی اس انارکی میں غیر ضروری واقعات کو حذف کر کے خوبصورت واقعات کو بہترین ترتیب دینے کا نام ادب ہے۔یہ ایک ادیب ہی کا کمال ہے کہ وہ ایک خاص وقت۔۔۔۔ یا لمحات کے جذبات کی شدت کو کیچ کر کے صحفہء قرطاس پر منجمد کر دیتا ہے،مردہ لمحات ہمیشہ کے لئے زندہ و جاوید ہو جاتے ہیں حالانکہ انسان فطرتی طور پر اپنی پوری زندگی،کسی معاملہ میں ایک جیسے جذبات نہیں رکھتا۔ اُس کی رائے اور سوچ بدلتی رہتی ہے۔ کسی کو ساری عمر ایک ہی intensityکے ساتھ نہیں چاہا جا سکتا۔ وہ تشریح کرنے لگتے،ادب کا کام انسان کو اپنے آپ کی سمجھ دینا ہے تاکہ وہ دوسروں کے جذبات سمجھ سکے اور ان سے ہمدردی کر سکے۔ وہ کہتے کہ ادب اگرچہ ایک شعوری کوشش کانام ہے لیکن اس میں لاشعو ر کی ایک بہت بڑی کنٹر ی بیوشن ہے۔ وہ حسن کو صداقت کے مترادف سمجھتے اور حسن کو فوری مسرت کا ذریعہ جانتے۔یہیں سے کیٹس اور ورڈورتھ تک پہنچ جاتے۔A thing of beauty is joy forever.
Truth is beauty,beauty truth,that is all.
وہ وضاحت کرتے،یورپ نے خوبصورتی کا تصور ہی بدل کر ہی رکھ دیا۔کبھی انسان کے اندر کی روحانی خوبصورتی کو اصل خوبصورتی سمجھا جاتا۔خوبصورتی اور روحانیت کا سمبل لائیٹ کی صورت میں پیش کیا جاتا۔یورپ میں جیسے جیسے مادیت بڑھتی گئی ویسے ویسے اندرونی روحانیت ختم ہوتی گئی۔یورپ نے آہستہ آہستہ اپنا سارا فوکس ظاہری خوبصورتی پرکر لیا۔۔۔۔۔۔۔جسمانی خوبصورتی کو گلوری فائی کیا جانے لگا۔ human body میں خوبصورتی تلاش کی جانے لگی۔ انبیاء کرام کی برہنہ تصویر یں پیش کی جانے لگیں۔ وہ موسیقی کو کانوں کی اور مصوری کو آنکھوں کی شاعری بتاتے۔ وہ اصرار کرتے کہ وزن کے بغیر بھی عظیم شاعری ممکن ہو سکتی ہے۔وہ کہتے کہ نثر میں الفاظ بہترین ترتیب میں اور شاعری میں بہترین الفاظ بہترین ترتیب میں پیش کئے جاتے ہیں۔
وہ ڈرامہ کو، An actment of a story on the stage اور کشمکش کو Confict is the essence of drama.بتاتے۔ شارٹ سٹوری اور ناول کی کیا خوبصورت تعریفیں کیاکرتے۔ان دونوں کے فرق کو بڑے احسن طریقے سے سمجھاتے۔وہ کہتے، اگر اندھیرے کمرہ میں جایا جائے،ٹارچ روشن کی جائے، صرف ایک چیز پر روشنی ڈالی جائے،اس کو بیان کیا جائے تو یہ کہانی ہو گی۔ اگر روشنی ٹریول کرتی،کمرے کی آپس میں مربوط مختلف چیزوں کو واضح کرتی جائے تو یہ ناول ہے۔اگر زندگی کے کسی ایک پہلو کو ڈسکس کیا جائے تووہ شارٹ سٹوری ہے اگر زندگی کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کی جائے تو یہ ناول ہو گا۔ وہ کہتے،اکثر سٹوڈنٹ کیلئے پلاٹ اور کہانی کے فرق کی وضاحت نہیں ہو پاتی۔وہ مثال دیتے،ایک بادشاہ تھا اور ایک ملکہ تھی۔بادشادہ مر گیا اور ملکہ بھی مر گئی،یہ کہانی ہے۔بادشاہ مر گیا اور اس کے غم میں ملکہ بھی مر گئی۔یہ پلاٹ ہے۔بس یہی cause and effect کی جو chain بنتی ہے۔اسی کو پلاٹ کہتے ہیں۔واقعات میں جب منطقی ربط نہیں بن رہا ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہی عنصر بہت اہم ہے۔۔۔۔۔۔۔ہماری فلموں اور ڈراموں میں واقعات میں منطقی ربط نہیں بن پاتا۔۔۔۔۔۔۔پلاٹ کمزور ہو جاتا ہے۔ piece of writing اپنا اثر کھو دیتی ہے۔اثر کے لئے حقیقت کی عکاسی کی بہت ضرورت ہے۔حقیقت بذاتِ خود خوبصورت۔۔۔۔۔گلیمرس ہے۔سر فرماتے، ضروری نہیں بہت پڑھا لکھا ہو تو وہ ہی بہت اچھا استاد ہو سکتاہے۔۔۔۔۔۔۔۔بلکہ حقیقت میں اچھا استاد وہ ہوتا ہے جو سٹوڈنٹ کو ان کا سبق آسان سے آسان طریقے سے سمجھاسکے۔استاد کا کام میٹریل کو خوبصورت اور سمجھانے کیلئے آسان بنا کر پیش کرنا ہے۔ سر بڑے دکھ سے کہتے،نئی نسل sense of direction کھو چکی ہے۔استاد کا کام سٹوڈنٹ میں چھپی صلاحیتوں کا کھوج لگا کر ڈھونڈنا اور ان کوpoint out کرنا ہے۔ ان میں موجود skills کو پالش کرنا بھی استاد کا ہی کام ہے۔سبق میں read between the lines کا سمجھانا استاد کے فرائض میں شامل ہے۔ استاد کا کام سبق کے مطلقہ علم اور واقعات کو relateکرنا، انہیں زیادہ سے زیادہ علم مہیا کرنا ہے تاکہ ان کو زندگی گزارنے اور سمجھنے میں مدد ملے کیونکہ کلاس اور کلاس کے کام نے تو آخر ایک دن ختم ہو جانا ہوتا ہے۔اس کے بعد عملی زندگی کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا بیکراں سمندر ان کا منتظر ہوتا ہے۔ وہ کہتے،ٹیچنگ اور لکھنے میں ایک بات کامن ہے۔ استاد اور لکھنے والے کی شخصیات بہت اہم ہوتی ہیں۔ان کی شخصیات جتنی چارمنگ ہو گی اتنا ہی ان کا سبق اور رائٹنگ اتنی ہی دلچسپ پو گا وہ کہتے،خدا نے اپنے بندوں کو بہت خوبیوں سے نوازا ہوا ہے۔اللہ تعالی اگر کسی سے کوئی خوبی اگر واپس لیتا ہے تو اس کو اس کے بدلے ڈھیر خوبیاں عطا بھی فر ما دیتا ہے۔یہ بندے کا کام ہے کہ اپنی خوبی کو پہچانے۔۔۔۔۔۔اپنا مقصد پہچانے۔۔۔۔اور مقصد ہمیشہ مشکل ہوتا ہے۔۔۔۔۔جتنا بڑا مقصد ہو گا اتنا بڑا چیلنج ہو گااسے حاصل کرنے کے لئے اسے اتنی زیادہ محنت کرنی پڑے گی۔ وہ کہتے،ٹیچنگ اور لکھنے میں ایک بات کامن ہے۔ استاد اور لکھنے والے کی شخصیات بہت اہم ہوتی ہیں۔ان کی شخصیات جتنی چارمنگ ہو گیں اتنا ہی زیادہ ان کا سبق اور رائٹنگ دلچسپ ہو گی۔ سر کیا خوبصورتی سے وضاحت کرتے،ہم جو کہانیاں،ناول یا ڈرامہ پڑھتے یا دیکھتے ہیں،ہمارے اندر بھی ان کرداروں کے ساتھ ایک دنیا بنتی بگڑتی رہتی ہے۔ہم دیکھتے ہیں مخصوص حالات میں کردار کیا کرتے ہیں اور کیا نتیجہ نکلتا ہے۔اس طرح ایک خاص کردار اسی ماحول میں مختلف reactکرے گا۔اس سے ہماری انڈرسٹینڈنگ پروان چڑھنے لگتی ہے،ہمارا ادراک ڈویلپ ہونے لگتا ہے۔۔۔۔۔۔اور اسی کو بصیرت کہتے ہیں۔انسان، انسان ہی کی طرح complicated ہوتا ہے اس لئے وہ کسی کے بارے سر Sweeping Judgement نہیں دیتے تھے۔ سر کے ساتھ گزارے۔۔۔۔۔۔۔۔۔یا شاید اُن کی جوتیاں سیدھیاں کرتے دو سال اگر رحیل کی زندگی سے نکال لئے جاتے تو شاید باقی کچھ نہ رہ جاتا۔
پھر کیا تھا،سر نے پروز(نثرProse) کا پیپر پڑھانا شروع کی۔ آف پیرنٹس اینڈ چلڈرن( Parents and Chlidren Of) مضمون پڑھانا شروع کیا۔اب کیا تھا والدین،۔۔۔۔۔۔ماں۔۔۔۔باپ۔۔۔ بچے،ایک ٹرائی ایکا(ٹرائی اینگل)شروع ہو گئی۔تمھید میں، والدین کے حقوق شروع ہوگئے۔ماں کا ٹاپک شروع ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔انگلش،اردو اور پنجابی ادب حوالوں سے بھر دیا گیا۔میکسم گورکی کی بات One can talk endlessly about mothersسچ دکھائی دینے لگتی۔انور مسعود کی اٹھایئس لائنوں کی نظم نے پانسہ ہی بدل دیا۔دل کرنے لگتا کہ گھر جا کر ماں کے قدم چومے اور اس سے لاڈکرے۔
آف پیرنٹس اینڈ چلڈرن،سر کا فوکس ماں پر ہی رہا۔وہ واقعہ تو سب کو ہلا کر رکھ گیا۔جب ایک آدمی ایک اللہ کے ولی کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے بتایا کہ دنیا کا کوئی گنا ہ اس نے نہیں چھوڑا۔وہ پوچھ رہا تھا کہ کیا اس کے گناہ معاف ہو سکتے ہیں۔اس ا للہ کے ولی نے صرف یہی پوچھا تھا کیا اس کی ماں زندہ ہے؟ نہیں اس نے جواب دیا تھا۔انھوں نے کہا،جاؤ اور اپنے والد کی خدمت کرو اور ان کا قرضہ ادا کرو۔ جب وہ شخص چلا گیا اور حویلی سے باہر نکل گیا تو انھوں نے اس کی پشت دیکھ کر حسرت سے کہا تھا،کاش اس کی ماں زندہ ہوتی!۔۔۔۔۔۔اس کے گنا ہ فورا معاف ہو جانے تھے! کلاس سے واپسی پر سر کے بتائے ہوئے ideas کے بارے، الفاظ کے اندر بند معانی کے سمندر کے بارے سوچتا رہتا۔راستہ انھی سوچوں میں کٹ جاتااور اس کا سٹاپ آ جاتا۔اس کو سفر کٹنے کا احساس ہی نہ ہوتا تھا۔
بچوں کی باتیں شروع ہوتیں تو ساری دنیا ان میں سمٹی ہوئی نظر آتی،ان کی معصوم عادات، حرکات، اور صفات مجسم شکل میں سامنے آ کھڑی ہوتیں۔اور ان کے بغیر گھر قبرستان کا سماں پیدا کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔اسے لگنے لگتا،
They are the natural commedian of the world,great stage.
They do wrong things at wrong time.Jerome K.Jerome
باپ کی بات چھڑتی تو لمحات سکڑتے ہوئے محسوس ہوتے۔اس کو یاد تھا صبح جب اس کا والد نماز کے لئے اٹھتا۔اس کو ایک دو آوازیں دیتا اگر وہ گہری نیند سویا ہوتا۔۔۔۔۔۔تو شفقت پدری سے مجبور ہو کر اس کو نہ اٹھاتا۔۔۔کہ شاید پڑھتے پڑھتے لیٹ سویا ہے۔اگر اس کی قسمت اچھی ہوتی تو اس کی آنکھ کھل جاتی۔وہ بھی باپ کی نماز کے لئے بچھی چٹائی سے پیچھے چٹائی بچھا کر نماز پڑھتا۔اور منہ اندھیرے چوری چوری اپنے باپ کا چہرہ دیکھنے کی کوشش کرتا۔چہرہ پر نظر پڑھنے سے ان کی داڑھی کے سفید بال دیکھ کر اس کو لگتا کہ اس کا حج ہو گیا ہے اور اس نے در جنت دیکھ لیا ہے۔
اس دن بھی وہ کلاس سے جلدی نکل پڑا تھا۔ واپسی پر، دوست کے والد کی بیمار پُرسی کیلئے ہسپتال بھی جانا تھا۔وہ ہسپتال کیلئے نکل پڑا۔ عجیب سی کفیت اس پر چھائی ہوئی تھی۔ سر کے گھر،کوئی ڈیڑھ کلو میٹرپیدل چل کر وہ بس سٹاپ پر پہنچا۔بس پر سوار ہوا۔رش کافی تھا۔ایک سواری کے اترنے سے اس کو جگہ مل گئی اور وہ سیٹ پر بیٹھ کر لیکچر کے مطلقہ باتوں میں گم ہورہا تھا۔
چوک میں بس رکی اور پھر چلی۔ یکدم بس میں موجود کچھ سواریاں شور کرنے لگیں،بس روکیں۔۔۔۔۔۔بس روکیں۔۔۔۔بس کے گیٹ سے بندہ لٹک رہا ہے۔۔۔۔۔۔شور پھر اٹھا۔۔۔۔بندہ گر گیا۔۔۔۔۔۔بندہ گر گیا!!گاڑی روکو۔۔۔۔۔!!گاڑی رُکی۔سواریاں نیچے اتریں۔شور مچ گیا،بندہ گاڑی کے نیچے آ گیا۔۔۔۔۔!! انا فانا بس خالی ہو گئی۔لوگ بس سے بیس،پچیس قدم پیچھے گرے ہوئے بندے کی طرف لپکے۔۔۔۔۔۔۔وہ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہجوم کے دائرہ سے نکل رہے تھے۔وہ تو پہلے ہی کمدلہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔بکھرا ہوا خون نہیں دیکھ سکتا تھا۔ بڑی مشکل سے سیٹ سے اٹھا اور ہمت کر اُس گرے ہوئے آدمی کو دیکھنے چل پڑا۔ وہ سوچ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔پتہ نہیں اُس بندے کے گاڑی کی طرف لپکنے سے پہلے آٹومیٹک گیٹ بند ہو گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ یا، مصنوعی روشنیوں میں اس کو شیشے کا گیٹ نظر نہیں آیا تھا۔۔۔ یا۔۔۔ شاید بس میں سوار لوگوں کے شور سے گھبرا کر اس نے چھلانگ لگا دی تھی۔۔۔۔یا کہ اس بچارے کا ہاتھ پھسل گیا تھا۔
وہ اس کے قریب پہنچا۔ہجوم کو چیر کر اس کے قریب ہو گیا۔گاڑیوں کی تیز منعکس روشنی میں اس کا چہرہ قدرے صاف
دکھائی دے رہا تھا۔پتہ نہیں کیا مقناطیسی طاقت ہوتی ہے اس سڑک اور ٹائروں میں کہ جب بھی کوئی گرتا ہے یہ اس کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔وہ چوک سے ذرا آگے،سڑک کے بائیں کنارے گرا پڑا تھا۔وہ اُلٹا گرا پڑا تھا۔اس کی ٹانگیں شمال کی طرف اور سر جنوب کی طرف تھا۔بازو صلیب کی طرح پھیلے ہوئے تھے۔گر کر اس کا رخ مغرب کی طرف ہو گیا تھا۔اُس کے کپڑے میلے میلے لگ رہے تھے۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔پاؤں میں پرانی ہوائی چپل تھی۔۔۔۔۔پھیلے ہوئے سے بائیں بازو کی ہتھیلی میں لگے کسی زخم پر میلی سی پٹی لپٹی ہوئی تھی۔بس کا پچھلا چوڑا ٹائر اس کے سر پر سے گزر گیا تھا۔اس کا سر بس کے وزن سے تھوڑا لمبوترا ہو گیا تھا۔حیرانگی والی بات تھی کہ اس کا سر با لکل صحیح سلامت تھا۔۔۔۔۔۔بس گاڑھا خون۔۔۔۔۔اُس کے کانوں سے بہہ کر گردن تک آ گیا تھا۔۔۔۔۔وہ شاید تڑپنے سے بھی بہت پہلے چند سینکڈز میں مر چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے پھیلے ہوئے دائیں ہاتھ کی انگلیوں میں ایک شاپر تھا۔۔۔۔۔۔جس میں سستے سستے چتری والے آٹھ،دس کیلے تھے۔ جن میں سے تین،چار شا پر سے نکل کر باہر سڑک پر بکھرے ہوئے تھے۔۔۔۔۔لیکن اس کی شہادت والی انگلی نے شاپر کی طنابیں ابھی تک تھام رکھیں تھیں!!