ایک طرف یہ نظریہ اور سوچ رائج العام ہے کہ جمہوری نظام حکومت کی فعالیت اور ملکی معیشت میں استحکام مسلسل حق رائے سے مشروط ہیں۔ جن ممالک میں انتخابی عمل بغیر کسی تعطل کے ہوتا ہے وہاں جمہوریت اور معیشت دونوں ہی ترقی کی منازل طے کرتی ہیں اور اپنے اقتصادی اہداف بھی آسانی سے پورے کرتی ہیں۔رواں سال صرف پاکستان میں ہی نہیں دنیا کے ساٹھ سے زائد ممالک میں انتخابات ہو رہے ہیں جس کے بعد ایک مکتبہ فکر اسے معیشتوں کی بحالی سے جوڑ رہا ہے اور ایک کے مطابق معیشت پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا ، عوام کو پہلے سے زیادہ مہنگائی اور غربت کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ان کے مطابق انتخابات اور نئی حکومتوں کے قیام کا ییہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ نئی معاشی پالیسیوں کا نفاذ ہو گا اور دودھ کی نہریں جاری ہوں گی بلکہ نئی حکومتیں بھی انہی پالیسوں کو جاری رکھیں گی جو پچھلی حکومتوں نے اختیار کیں۔ بس چہرے بدلیں گے اقتدار کے محاسن پر کوئی دوسری سیاسی جماعت براجمان ہو جائے گی مگر عوام کے حالات میں کس قسم کی انقلابی تبدیلیاں آئیں گی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا۔
جیسا کہ پہلے بتایا کہ 2024 دنیا بھر میں انتخابات کا سال ہے اس سال دنیا کی نصف آبادی کی نمائندگی کرنے والے 60 سے زائد ممالک انتخابات کے مراحل سے گزریں گے اور ایک اندازے کے مطابق چار بلین لوگ ووٹ کا حق استعمال کریں گے ۔اس میں 27 ممالک پر مشتمل یورپی یونین سمیت تقریبا 60 ملکوں اور کئی خطوں کے لوگ اس میں شامل ہوں گے۔ ممکنہ طور پر اس دوران کم و بیش افریقہ کے 18، ایشیا کے 17، شمالی امریکہ کے پانچ، ایشیا کے چار اور جنوبی امریکہ کے دو ممالک بھی کم و بیش قومی انتخابات میں حصہ لیں گے۔ امریکہ میں قائم تھنک ٹینک انٹیگریٹی انسٹیٹیوٹ نے پیشنگوئی کی ہے کہ رواں سال جتنے بڑے انتخابات ہوں گے اس میں دنیا کی تین بڑی جمہوریتیں کہلائےجانے والے ممالک بھارت، امریکہ اور انڈونیشیا کے دو ارب سے زائد شہری بھی اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے ۔انتخابات کے حوالے سے جنوبی ایشیا سب سے مصروف خطہ ہوگا ۔بنگلہ دیش میں گزشتہ روز سات جنوری کو انتخابات کے لیے ووٹ ڈالے گئے اس میں چوتھی بار حسینہ شیخ وزیراعظم بن گئی۔ جبکہ بنگلہ دیش کی دوسری بڑی پارٹی نیشنلسٹ پارٹی کی قیادت وزیراعظم خالدہ ضیا کر رہی تھیں جنہوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا ہے۔ بھوٹان میں عام انتخابات کے لیے ووٹنگ نو جنوری کو ہو گی، مالدیب میں اپریل میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں سری لنکا میں اس سال انتخابات ہونے کی امید ہے، کیونکہ وہاں 2018 کے بعد سے ابھی تک عام انتخابات نہیں ہوئے کیونکہ ملک کے صدر معیشت کو بچانے کے لیے انتخابات کو ٹال رہے تھے۔
پاکستان میں عام انتخابات اٹھ فروری کو ہوں گے، انڈونیشیا میں 14 فروری کو اس کے بعد اپریل اور مئی میں بھارت میں تقریبا 90 کروڑ افراد ووٹ کا حق استعمال کریں گے۔ امریکہ میں 16 کروڑ رجسٹر ووٹر پانچ نومبر کو اپنے 60ویں صدر کا انتخاب کریں گے۔ اسی طرح یورپی یونین جہاں انتخابات چھ سے نو جون تک ہونے ہیں۔ اس میں نو دیگر یورپی ممالک میں بھی انتخابات ہوں گے روس اور یوکرین جیسی دو متحرب ریاستیں بھی ان ممالک میں شامل ہیں جہاں متعلقہ صدارتی انتخابات 15 سے 17 مارچ اور 31 مارچ کو طے ہیں۔ برطانیہ کے وزیراعظم رشی سونک کے حالیہ بیانات کے مطابق ان کے ملک میں عام انتخابات 2024 کے درمیان میں ہوں گے ۔2024 کے پانچ اہم انتخابات کا ذکر کریں تو ایک بڑا الیکشن امریکہ میں ہوگا جہاں ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے ۔86 سالہ جو بائیڈن اور ان کے مقابلے پر 77 سالہ ڈونلڈ ٹرمپ مدمقابل ہیں .اسی طرح روس میں پیوٹن آئندہ چھ برس کی حکمرانی کے لیے پرامید ہیں ۔اٹھ دسمبر کو انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ پانچویں مدت کے لیے انتخاب لڑ رہے ہیں اور 2030 تک اقتدار میں رہیں گے یاد رہے کہ 2020 میں روسی صدر نے ائین میں ترمیم کی تھی تاکہ انہیں 2036 تک نظریاتی طور پر اقتدار میں رہنے کی اجازت مل جائے۔
اسی طرح پاکستان کے الیکشن بھی اہمیت کے حامل ہیں اور دنیا بھر کی نظریں پاکستان پر جمی ہیں یہاں نواز شریف کی واپسی اور عمران خان کی گرفتاری نے صورتحال کو انتہائی حد تک دلچسپ بنا دیا ہے۔ اس حوالے سے پاکستانی عوام آٹھ فروری کو اپنی تقدیر کا فیصلہ کریں گے جس میں مسلم لیگ نون پیپلز پارٹی پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی سمیت دیگر جماعتیں انتخابی عمل میں حصہ لیں گی پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت کا الیکشن بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔جہاں مودی کا دبنگ پاور پلے ہونے جا رہا ہے وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی قوم پرست بی جے پی تیسری بار وزیراعظم بننے کے لیے امیدوار نظر آتے ہیں۔ اسی طرح جون میں ہونے والے دنیا کے سب سے بڑے بین الاقوامی پول میں 400 ملین سے زیادہ لوگ یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ یہ ووٹ دائیں بازو کی پاپولسٹ کی حمایت کا امتحان ہوگا جن کے پاس امیدواروں کے طور پر گیرٹ وائلڈرز اسلام مخالف نظریات کے حامل ہیں میں ۔میسکیو میں پہلی بار خاتون صدر منتخب ہوں گی اور اس بار دار الحکومت کی ایک بائیں بازو کے سابق مئیر اور ایک مقامی کاروباری خاتون مد مقابل ہیں، یاد رہے کہ میکسیکو جیسے روایت پسند ملک میں پہلی بار کوئی خاتون صدر بن کر تاریخ رقم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ مجموعی طور پوری دنیا انتخابی عمل کے ذریعے تباہی کے کنارے کھڑی ہے۔۔ امید کی جا رہی ہے کہ اس سے نئی حکومتوں کے قیام سے مقامی،علاقائی اور عالمی سطح پر معیشت کو بھی استحکام حاصل ہو گا ۔
اب کچھ باتیں ہو جائیں پاکستان میں ہونے والے انتخابات کی جس کی تیاریاں زوروں پر ہیں، ان انتخابات کے حوالے سے بھی عالمی سطح پر چند "خوش کن رپورٹس” کا اجراء کیا گیا ہے۔پاکستان سے متعلق عالمی بینک کی تازہ رپورٹ میں بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی سیاسی ہنگامہ آرائی سے اعتماد میں کمی اور نجی شعبے کی طلب میں سست روی آسکتی ہے۔رپورٹ میں عالمی بینک کا کہنا ہے کہ الیکشن کے بارے میں غیر یقینی صورتحال، سیاسی، سماجی بے چینی اور تشدد سے نجی شعبوں کی افزائش کی رفتار کو سست، غیرملکی سرمایہ کاری میں کمی اور معاشی ترقی کو متاثر کر سکتی ہے۔رپورٹ کے مطابق رواں سال پاکستان اور جنوبی ایشیائی ممالک میں الیکشن کا انعقاد ہوگا، ایسے جنوبی ایشیائی ممالک جن کی مالی پوزیشن کمزور ہے ان میں الیکشن پر اٹھنے والے اخراجات سے مالی کمزوریوں میں اضافہ ہو گا، تاہم الیکشن کے بارے میں غیر یقینی صورتحال ختم کرنے سے الیکشن کے بعد ترقی میں بہتری آ سکتی ہے۔
پاکستان میں انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن سے لیکر سیاسی جماعتوں اور میڈیا سے لیکر عام شہری بھی اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے بے چین نظر آتے ہیں ۔ غیر ملکی ریٹنگ ایجنسی ایس اینڈ پی گلوبل نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں عام انتخابات کے بعد گورننس میں مزید بہتری کی توقع ہے۔ایشیا پیسیفک ممالک پر مشتمل مارکیٹ انٹیلی جنس رپورٹ میں ایجنسی کی جانب سے بھی بتایا گیا ہے پاکستان سٹاک ایکس چینج میں ہونیوالی تیزی سرمایہ کاروں کے معیشت پر اعتماد کا مظہر ہے ،جس کا بنچ مارک کے ایس ای 100انڈیکس 2023کی چوتھی سہ ماہی میں 35فیصد کا اضافہ ہوا۔وفاقی ادارہ شماریات کے مقامی پیداوار کے جاری اعداد شمار سے ظاہر ہوتا ہے معیشت توقع سے زیادہ بہتر کارکردگی دکھا رہی ہے، 2023کی آخری سہ ماہی میں مقامی پیداوار میں 2.13فیصد کا اضافہ ہوا جبکہ اس سے پہلی سہ ماہی میں 2.7فیصد منفی تھی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے آئی ایم ایف نے اکتوبر میں کہا تھا پاکستانی معیشت سال 2023میں 0.5فیصد سکڑ جائیگی جبکہ سال 2024میں پاکستانی معیشت میں 2.5فیصد کی شرح سے ترقی کی پیشگوئی کی تھی۔
سال 2023کی آخری سہ ماہی میں پاکستان سٹاک ایکس چینج خطے کی بہترین کارکردگی کی حامل مارکیٹ کے طور پر ابھری، پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام میں قرض ملنے اور معاشی اصلاحات سے فائدہ ہورہا ہے،ریٹنگ ایجنسی کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے آئی ایم ایف کی جانب سے توانائی کی کمپنیوں اور بینکوں پر عائد شرائط سے ان کو فائدہ ہوگا۔ پاکستان میں آنیوالے دنوں میں بنیادی شرح سود میں کمی کی توقعات ہیں۔ بنیادی شرح سود میں متوقع کمی سے سٹاک ایکس چینج میں حصص کی خرید و فروخت بڑھ سکتی ہے، پاکستانی روپے کی قدر میں استحکام بھی سٹاک مارکیٹ میں تیزی کا اہم سبب ہے۔ پاکستان میں اس وقت حصص اپنی حقیقی قیمت سے کم پر ٹریڈ ہورہے ہیں، پاکستانی بینکوں کے حصص کی قیمت اس وقت بھی 3.1گنا کم ہے۔ایس اینڈ پی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے گزشتہ 3ماہ کے دوران سٹاک ایکس چینج میں ہونیوالی تیزی میں بینکاری شعبے کے حصص اہم رہے۔ بینکاری شعبے کی کارکردگی کے حوالے سے ایشیا پیسفک ایس اینڈ پی گلوبل مارکیٹ انٹیلی جنس فیوچر رپورٹ میں پاکستان سے 11بینکوں کو شامل کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں بینک الحبیب 89.96 فیصد مجموعی ریٹرن کیساتھ 15ویں نمبر پر رہا۔پاکستانی بینکوں نے رپورٹ میں 5اعلی پوزیشنز میں سے 4حاصل کرلیں۔ رپورٹ میں عسکری بینک 59.48فیصد سٹاک ریٹرن کیسا تھ دوسرے نمبر پر رہا۔ فیصل بینک کا ریٹ آف ریٹرن 48.85اور حبیب میٹروپولیٹن بینک کا 51.56فیصد ریٹرن آن سٹاک رہا جبکہ انڈونیشیا کے پی ٹی بینک نے رپورٹ میں پانچویں پوزیشن حاصل کی ہے۔
نگران وفاقی وزیر تجارت، صنعت اور سرمایہ کاری ڈاکٹر گوہر اعجاز نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ 2024 کے اختتام تک پاکستان کی برآمدات میں خاطر خواہ اضافے ہونے کی توقع کی جا رہی ہے اور سال کے اختتام تک ملکی برآمدات 20 ارب ڈالر کی سطح تک پہنچ سکتی ہیں ۔وزارت تجارت کے جاری اعلامیہ کے مطابق ڈاکٹر گوہر اعجاز نے کہا کہ گزشتہ سال جولائی 2023 میں پاکستانی برآمدات کم ہو کر 2.068 ارب ڈالر کی سطح تک آگئی تھی نگران حکومت نے موثر اور جامع حکمت عملی کےذریعے برآمدات کو بڑھانے اور تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لیے کوششیں کی ۔انہوں نے کہا کہ ان کوششوں کے نتائج دسمبر 2023 میں واضح طور ہر سامنے آئے جب برآمدات کا حجم 2.812 ارب ڈالر تک پہنچا جو کہ 511 ملین ڈالر کا قابل ذکر اضافہ ہے۔ وزیر تجارت نے کہا کہ صنعتوں کو توانائی کی فراہمی کو یقینی بنا کر پاکستان نے کامیابی کے ساتھ برآمدات کو بحال کیا ہے، خاص طور پر امریکہ اور یورپی یونین کی منڈیوں تک پاکستانی مصنوعات کی رسائی کو یقینی بنایا گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ برآمدی صلاحیت میں بحالی ، سال 2024 کے اختتام تک برآمدات کو 20 ارب ڈالر تک پہنچا سکتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ موثر برآمدی حکمت عملیوں کے ذریعے پائیدار اقتصادی ترقی کو فروغ دیا جا سکتا ہے اور حکومت اس مقصد کے حصول کے لیے پرعزم ہے ۔
اسی طرح دنیا کے مختلف ممالک کی معیشت کے حوالے سے تجزیے پیش کرنے والی امریکی فرم گولڈمین سیکس نے بھی پاکستان کی معیشت کے حوالے سے بڑی پیشنگوئی کر دی ہے ۔ جس کے مطابق 2075 میں دنیا کی سب سے بڑی معیشت چین کی ہو گی۔گولڈمین سیکس کے مطابق 2075 میں چین 57کھرب ڈالرز کے ساتھ پہلے نمبر پر ہوگا جبکہ بھارت کی معیشت 52 اعشاریہ 5 کھرب ڈالرز کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہوگی۔گولڈمین سیکس نے بتایا کہ امریکا کا نمبر تیسرا ہوگا اور اس کی معیشت 51 اعشاریہ 5 کھرب ڈالرز ہوگی۔اس کے علاوہ انڈونیشیا چوتھی، نائجیریا پانچویں اور پاکستان 12 اعشاریہ 3 کھرب ڈالر کے ساتھ دنیا کی چھٹی بڑی معیشت ہوگا۔مجموعی طور پر یہ رپورٹس ایک طرح سے مسقبل کے خوش آئند دنوں کو پیش کر رہی ہیں تاہم زمینی حقائق بالکل ان کے برعکس ہیں کیونکہ جب تک معاشی تبدیلیوں کے اثرات کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچتے ہر دعویٰ بے بنیاد اور بے معنی ہے چاہیے وہ برآمدات کے حوالے ہو یا اسٹاک منڈیوں کے بارے میں ۔ غربت،بھوک، بے روزگاری اور مہنگائی زمین کی عریاں سچائیاں ہیں اور ترقی کے دعویٰ خوش آئند باتیں ۔