گزشتہ دنوں سامنے آنے والی آڈٹ رپورٹ 2023-24 نے پاکستان کے توانائی کے شعبے کی وہ تصویر پیش کی ہے جو برسوں سے وقتی اعلانات اور کاغذی اصلاحات کی اوٹ میں چھپائی جاتی رہی۔ اس ہوش ربا رپورٹ کے مطابق پاور سیکٹر میں 4,800 ارب روپے کی بے ضابطگیاں ریکارڈ ہوئیں.یہ محض اکاؤنٹنگ کی غلطیاں نہیں بلکہ بدانتظامی، ناقص معاہدوں، مالی بدعنوانیوں اور قواعد کی کھلی خلاف ورزیوں کی علامت ہیں۔
یہ حجم کسی ایک دورِ حکومت کے اسکینڈل کی عکاسی نہیں کرتا بلکہ ایک مجموعی نظام کی ناکامی کی نشاندہی ہے۔ کئی معاہدے قانونی تقاضے پورے کیے بغیر کیے گئے، واجب الادا ادائیگیاں بروقت نہ ہو سکیں، بعض منصوبوں کی لاگت ابتدائی تخمینوں سے کہیں زیادہ نکلی اور خریداری کے عمل میں شفافیت کے بجائے من پسند کمپنیوں کو نوازا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عوامی سرمائے کو مسلسل خطرے میں ڈالا گیا۔
اثرات صرف مالی نہیں
یہ بدانتظامی صرف قومی خزانے کے نقصان تک محدود نہیں رہی بلکہ اس نے معیشت، سرمایہ کاری اور صارفین کے اعتماد کو براہِ راست متاثر کیا۔ بجلی کے نرخ بڑھتے ہیں تو عام شہری کے گھریلو بجٹ پر بوجھ پڑتا ہے، لوڈشیڈنگ بڑھتی ہے تو صنعتیں بند ہوتی ہیں اور گردشی قرضہ بڑھتا ہے تو ملک مزید معاشی دلدل میں دھنستا ہے۔ وہ شعبہ جو معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے، برسوں سے کمر توڑ وزن کے نیچے دبا ہوا ہے۔
اداروں کی خاموشی، سوالیہ نشان؟
یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ جب وزارتِ توانائی، نیپرا، بورڈ آف ڈائریکٹرز اور ڈائریکٹر جنرل آڈٹ جیسے ادارے موجود ہیں تو پھر یہ بے ضابطگیاں کون کر رہا ہے اور کون انہیں روکنے میں ناکام ہو رہا ہے؟ اگر یہ ادارے بے بس ہیں تو اصلاحات محض نعرے ہیں اور اگر جان بوجھ کر خاموش ہیں تو یہ قومی مجرمانہ غفلت کے مترادف ہے۔
اب کیا ہو گا ؟
یہ ملین ڈالرز کا سوال ہے کہ یہ خوفناک رپورٹ سامنے آنے کے بعد اب کیا ہو گا ؟
پاکستان کے تجربے بتاتے ہیں کہ اکثر ایسی رپورٹس شور مچنے کے چند دن بعد فائلوں میں دب جاتی ہیں۔ مگر یہ لمحہ فکریہ ہے کہ اربوں روپے کے نقصان کے باوجود کوئی جواب دہ نہیں۔ اگر یہ معاملہ بھی اسی طرح دب گیا تو آنے والے برسوں میں یہ بحران صرف معاشی نہیں بلکہ قومی سلامتی کا مسئلہ بھی بن سکتا ہے۔
کیااصلاحات ناگزیر ہیں؟
اب وقت آگیا ہے کہ ان رپورٹس کو محض رسمی کارروائی نہ سمجھا جائے بلکہ ان پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔ اس کے لیے تین اقدامات ناگزیر ہیں:
شفاف احتساب ذمہ دار افسران اور اداروں کو جواب دہ بنایا جائے، چاہے وہ بدعنوانی ہو یا غفلت۔
نظام کی اصلاحات — خریداری، معاہدوں اور منصوبہ بندی کے فرسودہ طریقے بدل کر شفاف اور جدید نظام اپنایا جائے۔
عوامی شفافیت — ان رپورٹس کو عوام کے سامنے لایا جائے، پارلیمانی مباحثے ہوں، اور میڈیا و سول سوسائٹی دباؤ ڈالیں تاکہ اعتماد بحال ہو۔
یہ رپورٹ صرف پاور سیکٹر کی ناکامی نہیں، یہ ہمارے سیاسی، معاشی اور سماجی ڈھانچے پر ایک سنگین سوالیہ نشان ہے۔ 4,800 ارب روپے کا نقصان کوئی ہندسوں کا کھیل نہیں بلکہ ترقی کی راہوں کو جکڑنے والی زنجیر ہے۔ اگر پالیسی سازوں نے اب بھی کڑوی مگر ضروری اصلاحات نہ کیں تو یہ بوجھ آنے والی نسلوں کے کندھوں پر منتقل ہوگا۔
فیصلہ اب بھی ہمارے ہاتھ میں ہے. یا تو ہم اس بوسیدہ نظام کو جوں کا توں چلنے دیں یا پھر سخت مگر شفاف اقدامات کے ذریعے اسے درست کریں۔ خاموشی اب مزید مہنگی پڑے گی۔