دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ دولت کے مراکز اور اس کی تقسیم کے انداز ہر سال ایک نئی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ UBS کی حالیہ عالمی دولت رپورٹ 2025 نے ایک بار پھر اس حقیقت کو آشکار کیا ہے کہ دنیا میں ڈالر ملینئرز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن دولت کی تقسیم کا توازن بگڑتا جا رہا ہے۔ یہ رپورٹ عوامی دلچسپی کے حوالے سے نہایت اہم ہے کیونکہ یہ صرف اعداد و شمار نہیں بلکہ آنے والے وقت کے سماجی، معاشی اور سیاسی چیلنجز کی جھلک پیش کرتی ہے۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ ڈالر ملینئرز امریکہ میں ہیں۔ رپورٹ کے مطابق صرف امریکہ میں 2 کروڑ 38 لاکھ سے زائد افراد ایسے ہیں جن کے اثاثے ایک ملین ڈالر سے زیادہ ہیں۔ یہ دنیا کے تمام ملینئرز کا تقریباً 40 فیصد بنتا ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ ہر دس میں سے چار ملینئر صرف امریکہ میں رہتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ 2024 میں وہاں روزانہ اوسطاً ایک ہزار سے زائد افراد نے ملینئر کا درجہ حاصل کیا۔ امریکہ کے بعد چین دوسرے نمبر پر ہے جہاں ساڑھے چھ ہزار سے زیادہ ملینئرز ہیں، جبکہ فرانس، جاپان اور جرمنی بھی اس دوڑ میں نمایاں ہیں۔
یورپ کی طاقتور معیشتیں، جیسے برطانیہ، جرمنی اور فرانس، ابھی تک دولت کے بڑے مراکز ہیں، لیکن ایشیا کی ابھرتی ہوئی معیشتیں جیسے بھارت، چین اور انڈونیشیا تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔ خاص طور پر چین نے گزشتہ دہائی میں لاکھوں نئے ملینئرز پیدا کیے اور اب اس کی حیثیت ایک متوازی اقتصادی بلاک کی ہے۔ اسی طرح بھارت میں درمیانے طبقے کی ابھرتی قوت مستقبل میں اسے ڈالر ملینئرز کی فہرست میں مزید اوپر لے جا سکتی ہے۔
UBS رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کی نجی دولت کا تقریباً 92 فیصد حصہ صرف 56 مارکیٹس میں موجود ہے۔ ان میں امریکہ، چین، بھارت، برطانیہ، جاپان، جرمنی، فرانس، آسٹریلیا، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکی اور جنوبی افریقہ جیسی معیشتیں شامل ہیں۔ یہ فہرست ظاہر کرتی ہے کہ دولت کا بڑا ذخیرہ انہی ممالک میں مرتکز ہے جو پہلے سے معاشی لحاظ سے مستحکم ہیں۔ اس کے برعکس، دنیا کے کئی غریب اور ترقی پذیر ممالک اس دائرے سے باہر ہیں۔
اب ذرا دولت کی تقسیم پر نظر ڈالیں۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کے صرف 1.6 فیصد بالغ افراد کے پاس 226 ٹریلین ڈالر کے اثاثے ہیں، جو دنیا کی کل نجی دولت کا تقریباً نصف ہے۔ دوسری طرف دنیا کی 40 فیصد آبادی کے پاس کل دولت کا محض 0.6 فیصد ہے۔ یہ وہ تضاد ہے جو معاشی نظام کے اندر چھپی ہوئی نابرابری کو بے نقاب کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک طرف امیر ممالک میں روزانہ ہزاروں نئے ملینئرز پیدا ہو رہے ہیں اور دوسری طرف دنیا کے کروڑوں لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
یہ نابرابری صرف معاشی نہیں بلکہ سماجی اثرات بھی مرتب کرتی ہے۔ جب معاشرے میں ایک طبقے کے پاس دولت کے انبار ہوں اور دوسرا طبقہ بنیادی سہولتوں سے محروم ہو تو نتیجہ لازمی طور پر بے چینی، بداعتمادی اور سیاسی عدم استحکام کی صورت میں نکلتا ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ دنیا کے کئی خطوں میں سیاسی ہلچل اور احتجاجی تحریکوں کے پیچھے معاشی ناانصافی کا بڑا کردار ہے۔
رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ شمالی امریکہ دنیا کے 43 فیصد ملینئرز کا مرکز ہے۔ اس کے بعد مغربی یورپ 26 فیصد اور گریٹر چائنا 13 فیصد پر آتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا کے تین بڑے خطے ہی دولت کے اصل مراکز ہیں، جبکہ باقی دنیا نسبتاً پسماندہ ہے۔ اسی لیے افریقہ، جنوبی ایشیا اور لاطینی امریکہ جیسے خطے عالمی معاشی نقشے پر ابھی بھی کمزور دکھائی دیتے ہیں۔
پاکستان کے حوالے سے اس رپورٹ میں واضح اعداد و شمار فراہم نہیں کیے گئے۔ پاکستان ان 56 منتخب مارکیٹس میں شامل نہیں، جس کا مطلب ہے کہ ہماری معیشت ابھی اس معیار پر نہیں پہنچی جہاں عالمی سطح پر اسے نمایاں مقام دیا جائے۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں بھی ڈالر ملینئرز کی ایک محدود تعداد موجود ہے، مگر ملک کی اکثریت غربت اور مہنگائی کے دباؤ میں ہے۔ پاکستان جیسے ممالک کے لیے یہ صورتحال اس طرف اشارہ ہے کہ اگر دولت کی تقسیم منصفانہ نہ ہوئی تو مستقبل میں معاشرتی مسائل اور بڑھ سکتے ہیں۔
یہ سوال یہاں پیدا ہوتا ہے کہ آخر دولت کی یہ نابرابری کیوں بڑھ رہی ہے؟ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ عالمی مالیاتی منڈیوں میں سرمایہ داری کا بڑھتا ہوا غلبہ ہے۔ بڑی کمپنیاں اور سرمایہ کار اپنے اثاثے کئی گنا بڑھانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، جبکہ عام آدمی کی آمدنی مہنگائی کے بوجھ تلے دب جاتی ہے۔ اس کے علاوہ، ٹیکنالوجی نے بھی دولت کی تقسیم میں عدم توازن پیدا کیا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے والے ممالک اور کمپنیاں تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں، جبکہ باقی دنیا پیچھے رہ گئی ہے۔
یہ سچ ہے کہ دنیا میں خوشحالی بڑھ رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2029 تک مزید 53 لاکھ لوگ ڈالر ملینئرز بن جائیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ خوشحالی سب کے لیے ہے یا صرف چند ممالک اور طبقوں کے لیے؟ اگر دولت کا بڑا حصہ صرف چند ہاتھوں میں مرتکز ہوتا رہا تو یہ خوشحالی دراصل نابرابری کو مزید بڑھا دے گی۔
عالمی اداروں اور حکومتوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ معاشی ترقی کا اصل مقصد صرف امیر کو امیر تر بنانا نہیں بلکہ معاشرے کے تمام طبقات کو سہولتیں فراہم کرنا ہے۔ صحت، تعلیم، روزگار اور انصاف تک رسائی کے بغیر کوئی بھی معاشرہ پائیدار ترقی حاصل نہیں کر سکتا۔ اگر دولت کے وسائل کو متوازن طریقے سے تقسیم کیا جائے تو نہ صرف غربت کم ہو گی بلکہ دنیا مزید پرامن اور خوشحال ہو گی۔
آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ UBS کی یہ رپورٹ ہمیں خبردار کر رہی ہے۔ ایک طرف دنیا میں خوشحالی اور دولت میں اضافہ ہو رہا ہے، دوسری طرف یہ دولت چند مخصوص خطوں اور افراد تک محدود ہو رہی ہے۔ یہ نابرابری عالمی معیشت کے لیے ایک بڑی خطرے کی گھنٹی ہے۔ اگر عالمی برادری نے بروقت اقدامات نہ کیے تو آنے والے برسوں میں دولت کی یہ غیر مساوی تقسیم بڑے بحران کو جنم دے سکتی ہے۔