آج پاکستان کی تاریخ کا اہم ترین دن تھا ۔جمہوری ممالک میں الیکشن ایسا دن سمجھا جاتا ہے جب عوام اپنے ووٹ سے اپنی تقدیر کا فیصلہ کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ووٹر ٹرن آؤٹ انتہائی کم ہے، تقریبا آدھے سے زیادہ ووٹرز اپنا حق استعمال ہی نہیں کرتے ۔ اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ گزشتہ چند ہفتوں سے ہم انہی وجوہات کو جاننے کے لیے مختلف ڈیٹا بیس پر کام کر رہے تھے جس کے دلچسپ نتائج سامنے آئے
ووٹرز کو ایکٹیو کرنے کے لیے دنیا بھر میں کام ہوتا ہے ۔ کئی ممالک باقاعدہ پولنگ ڈے کو قومی دن کے طور پر بھی مناتے ہیں جن میں ہمارے ہمسایہ ممالک بھارت اور بنگلہ دیش بھی شامل ہے جہاں باقاعدہ ووٹ ڈالنے کے لیے لوگوں کو موٹیویٹ کیا جاتا ہے ۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ٹرن آؤٹ زیادہ ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ 2020 میں کانگرس کے انتخابات کے لیے ووٹر ٹرن آؤٹ 70.8 فیصد تھا ۔ امریکہ میں زیادہ ٹرن آؤٹ کی ایک وجہ مختلف ریاستوں کی جانب سے اپنے نوجوان شہریوں کے لیے رجسٹریشن اور ووٹ ڈالنے میں سہولیات مہیا کرنا ہے ۔ دوسری جانب پاکستان میں ابھی تک صورتحال بہتر نہیں ہو سکی ۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی بعض ایسے اقدامات کیے جاتے ہیں جو ووٹرز کے پولنگ سٹیشن تک جانے میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ کئی مثالیں موجود ہیں جن کے مطابق اس الیکشن میں بھی ایک ہی گھر کے افراد کے پولنگ سٹیشن الگ الگ اور دور دور ہیں جبکہ ان کا ووٹ قریبی پولیسنگ سٹیشن میں بھی رکھا جا سکتا تھا۔ ایسا نہ ہونے کی وجہ سے خاص طور پر نوجوان لڑکیوں اور بزرگ خواتین کے لیے ووٹ ڈالنے کے لیے آنا جانا مشکل ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح گزشتہ سالوں میں وفات پا جانے والے بہت سے افراد کا ووٹ بھی حالیہ ووٹر لسٹ میں شامل ہے ۔ اگر ان چیزوں کو ٹھیک کر لیا جاتا تو یہ ووٹر ٹرن آؤٹ مزید بہتر ہو سکتا تھا۔
پاکستان کی سیاسی صورتحال پر نظر رکھنے والے صحافی حسام درانی نے بھی گزشتہ چار الیکشن کا کل ووٹ ٹرن آؤٹ اور سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کی تفصیلات بھیجیں جو خاصی دلچسپی کی حامل ہے ۔
الیکشن 2018 میں کل ٹرن آوٹ 51.7 فیصد تھا۔ اس الیکشن میں رجسٹر ووٹرز کی تعداد 10 کروڑ 59 لاکھ 60 ہزار تھی جن میں سے 5 کروڑ 49 لاکھ 8 ہزار 472 افرد نے ووٹ ڈالا۔ ان میں سے تحریک انصاف کو 1 کروڑ 68 لاکھ 60 ہزار 675 ووٹ ملے جو کہ 30.7 فیصد تھے جبکہ مسلم لیگ ن کو 23.55 فیصد یعنی 1کروڑ 29 لاکھ 35 ہزار236 ووٹ ملے ۔ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان چند لاکھ ووٹ کا فرق تھا ۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کو 69 لاکھ 13 ہزار 410 ووٹ ملے ۔ آزاد امیدواروں کو 60 لاکھ 60 ہزار 894 جبکہ ایم ایم اے جو 25 لاکھ 69 ہزار 971 ووٹ ملے ۔ تحریک لبیک کو 22 لاکھ 34 ہزار 338 ووٹ ، جی ڈی اے کو 11 لاکھ 93 ہزار 444 ووٹ ، اے این پی کو 8 لاکھ 15 ہزار 993 ووٹ ، ایم کیو ایم کو 7 لاکھ 31 ہزار 993 ووٹ جبکہ ق لیگ کا ووٹ بنک 5 لاکھ 17 ہزار 403 ووٹ تھا
الیکشن 2013 میں ووٹر ٹرن آوٹ 53.62 فیصد تھا ۔۔اس الیکشن میں کل ووٹرز کی تعداد 8 کروڑ 61 لاکھ 89 ہزار 835 تھی جن میں سے 4 کروڑ 62 لاکھ 17 ہزار 482 ووٹ کاسٹ ہوئے ۔ ان میں سے مسلم لیگ ن کو 1کروڑ 48 لاکھ 74 ہزار 104 ووٹ ملے جبکہ تحریک انصاف کو 76 لاکھ 79 ہزار 954 ووٹ ملے ۔ پیپلز پارٹی کا ووٹ بنک 69 لاکھ 11ہزار 218 تھا ۔ اس الیکشن میں آزاد امیدواروں کو 58 لاکھ 80 ہزار 658 جبکہ ایم کیو ایم کو 24 لاکھ 56 ہزار 153 ووٹ ملے تھے۔
الیکشن 2008 میں ٹرن آوٹ 44.11 فیصد تھا ۔ اس وقت کل ووٹرز کی تعداد 8 کروڑ 7 لاکھ 96 ہزار 382 تھی جبکہ 3 کروڑ 56 لاکھ 37 ہزار 12 افراد نے ووٹ ڈالے ۔ اس الیکشن میں پیپلز پارٹی کو 1 کروڑ 6 لاکھ 66 ہزار 548 ووٹ ملے جبکہ مسلم لیگ ق کا ووٹ بنک 80 لاکھ 7 ہزار 218 تھا ۔ مسلم لیگ ن کو 68 لاکھ 5 ہزار 324 ووٹ ملے ۔ اس الیکشن میں آزاد امیدواروں کو 38 لاکھ 65 ہزار 954 ووٹ ملے جبکہ ایم کیو ایم کو 25 لاکھ 73 ہزار 395 ووٹ ملے ۔ ایم ایم اے کا ووٹ بنک 7 لاکھ 66 ہزار 244 جبکہ اے این پی کا ووٹ بنک 7 لاکھ 4 ہزار 811 تھا
الیکشن 2002 میں ٹرن آوٹ 41.68 فیصد تھا ۔ اس الیکشن میں کل ووٹرز کی تعداد 7 کروڑ 19 لاکھ 13 ہزار 850 تھی جن میں سے 2 کروڑ 99 لاکھ 72 ہزار 353 افراد نے ووٹ ڈالا ۔ ن میں سے پیپلز پارٹی کو 73 لاکھ 61 ہزار 423 افراد نے ووٹ دیا جبکہ مسلم لیگ ق کو 68 لاکھ 98 ہزار 587 ووٹ ملے ۔ مسلم لیگ ن کا ووٹ بنک 32 لاکھ 92 ہزار 659 اور ایم ایم اے کو ووٹ بنک 31 لاکھ 81 ہزار 483 تھا ۔ اس الیکشن میں ایم کیو ایم کو 9 لاکھ 20 ہزار 381 ووٹ ملے تھے
اگر ہم گزشتہ چار انتخابات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ 2002 سے 2013 تک ووٹر ٹرن آوٹ میں اضافہ ہوا ہے اور یہ 41.68 سے بڑھ کر 53.62 فیصد تک پہنچا لیکن اس کے بعد ٹرن آوٹ پھر کم ہونا شروع ہو گیا ہے ۔ 2018 کے الیکشن میں ٹرن آوٹ 2013 کی نسبت کم تھا ۔ اگر آج بھی ووٹرز باہر نہ نکلے تو یہ ٹرن آوٹ مزید کم ہو سکتا ہے۔
اس الیکشن میں نوجوانوں کے ووٹ کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔ یاد رہے اس وقت پاکستان کی آبادی 24 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے جس میں سے رجسٹر ووٹر کی تعداد 12 کروڑ 85 لاکھ 85 ہزار 760 ہے جس میں سے 43.85 فیصد یعنی 5 کروڑ 59 لاکھ 25 ہزار 940 ووٹر کی عمر 18 سے سے 35 سال کے درمیان ہے ۔پاکستان نوجوانوں کی آبادی کے حوالے سے دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آج کے الیکشن میں جتنے نوجوان ووٹرز ہیں اتنے تو آج تک پاکستان کے کسی الیکشن میں کل ووٹ کاسٹ نہیں ہوئے۔ اندازہ لگائیں کے 2018 میں کاسٹ ہونے والے کل ووٹ 5 کروڑ 49 لاکھ 8 ہزار 472 تھے جبکہ آج ووٹ کی اہلیت رکھنے والے نوجوانوں کی تعداد 5 کروڑ 59 لاکھ 25 ہزار 940 ہے ۔ نوجوانوں کا ووٹ اتنی زیادہ طاقت کا حامل ہے کہ یہ آج حکومت بدلنے اور سیاسی جماعتوں کو بنانے یا گرانے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ آج شام تک واضح ہو جائے گا کہ نوجوانوں کو اپنی اس مخفی طاقت کا کتنا اندازہ ہے اور ووٹ سے ملک کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھنے والے نوجوان اپنی اس طاقت کا کتنا استعمال کرتے ہیں