پاکستان کے سیاسی گراونڈ میں اس وقت بہت ہی دلچسپ کھیل جاری ہے، ایک وقت تھا کہ سب یہ سوچ رہے تھے کے الیکشن کا اعلان ہونے کی دیر ہے ملک میں کچھ نا کچھ سیدھا ہونا شروع ہو جائے گا اعلان ہو گیا تو عوام نے کہا کے چلو الیکشن ہونے دیں پھر چیزیں سیدھی ہونا شروع ہو جائیں گئیں لیکن نا تو الیکشن کے اعلان کے بعد حالات سیدھے ہوئے اور نا ہی الیکشن کے بعد اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا نظر آ رہا ہے۔
سیاسی جوڑ توڑ جو الیکشن سے پہلے کا خاصہ ہوتے ہیں اور الیکن کے بعد بھی اسی طرح سے جارو ساری ہیں، الیکشن سے پہلے جو دھماچوکڑی مچی تھی اس میں کسی بھی قسم کی کمی نظر نہیں آ رہی، جو الزامات پہلے لگ رہے تھے وہ اب بھی جاری و ساری ہیں جیسے فوج کو آڑے ہاتھوں لیا جا رہا تھا بالکل اسی طرح بلکہ اس میں اب شدت بھی نظر آنے شروع ہو گئی ہے۔
لیکن اس جاری کشمکش میں فلحال سب سے سکون میں آصف علی زرداری صاحب نظر آ رہے ہیں، اور ہوں بھی کیوں نا ملک کے سب سے بڑے عہدے کے حامل جو ہو چکے ہیں اور اب آپ یہ کہیں کے آنے والے 5 سال تلک زرداری صاحب چین کی بانسری ہی بجاتے نظر آئیں گے، جبکہ انکی پارٹی حکومت میں ہونے کے باوجود بھی کسی بھی قسم کی ذمہ داریوں سے مبرا ہو گی تو اس میں دوسری رائے نہیں ہے۔
تمامتربار حکومت مسلم لیگ ن یا پھر یہ کہہ لیجئے کے شہباز شریف کے کمزور کندھوں پر ہوگا، اور دیکھنے والی بات اب یہ ہو گی کے شہباز شریف اپنے آپ کو کسطرح اس منصب کا اہل بناتے ہیں اور ریاست کے ساتھ ساتھ پارٹی کی سیاست کو درپیش مسائل سے کسطرح نبرد آزما ہوتے ہیں۔ ویسےکہنے والے کہتے ہیں کہ شہباز شریف کوتو وزارت عظمی ٰ کی اس کانٹوں والی کرسی پر بیٹھنے کا شاید بچپن سے ہی شوق تھا یا اگر نہیں تو پھر باامر مجبوری انکو بیٹھنا پڑا ہر دو صورتوں میں یہ شہباز شریف کا ایک کڑا امتحان ہے کے وہ ملک کو درپیش مسائل اور سب سے بڑے اژدھےیعنی مہنگائی سے کسطرح نبردآزما ہوتے ہیں۔
دوسری جانب اگر دیکھیں تو اس وقت سب سے زیادہ ترس مجھے تو عمران خان پر آتا ہے، اس اللہ کے ولی کو اسکے مصاحبوں نے ہی کھڈے لائین لگوا دیا، اسکے ووٹرز و سپوٹرز الیکشن ڈے پر تو باہر نکلے لیکن جب اس نے انقلاب لانے کے لئے عوام کو بلایا تو چند ہزار وہ بھی کہیں کہیں پر اکھٹے ہوئے اور جب ایک انقلاب ناکام ہو جائے تو وہ ناکام بغاوت کہلاتا ہے اور اس میں شامل ہونے والے باغی اور باغیوں کے ساتھ ریاست کو سلوک کرتی ہے اسکا ذکر کرنا وقت کا ہی ضیاع ہے، لیکن اب اگر دیکھا جائے تو عمران کا جانشین بننے کے درجنوں دعوےدار ہمیں نظر آتے ہیں اور وہ تمام کے تمام روز کسی نا کسی ٹی وی چینل پر یا پریس کانفرس کرتے ہوئے یہ بات بتا رہے ہوتے ہیں کے وہ ہی اصل جانشین ہیں مطلب پی ٹی آئی اب ایک ایسی جماعت بن چکی ہے جسکا حقیقت میں کوئی لیڈر نہیں یا آپ یہ کہہ سکتے ہیں کے وہ ان گائیڈڈ میزائل بن چکے ہیں، اور اسکا عملی مظاہرہ ہم روزانہ کی بنیادوں پر جیل کے باہر ہونے والی پریس کانفرنسز میں دیکھتے ہیں کہ جو بھی بانی لیڈر سے ملاقات کر کے آتا ہے وہ ایک الگ ہی بات بتا رہا ہوتا ہے۔ قانونی ٹیم کی نااہلی عوام نے سپریم کورٹ کی لائیو ٹرانسمیشن میں خود ہی دیکھ لی، ان خود ساختہ لیڈران کے کام کرنے اور پارٹی کو چلانے کی اہلیت الیکشن میں ہی سب کے سامنے آ گئی۔
وہ تو بھلا ہو عوام کا انہوں نے چن چن کر اپنے امیدواران کو ووٹ ڈالے اگر ان لیڈران پر ہی تکیہ رہتا تو الایمان الحفیظ، اسکے بعد ان لیڈران کی سیاسی بصرت بھی عوام کے سامنے کھل کر آ گئی جب حکومت سازی کا عمل شروع ہوا، 5 آدمی وقفہ وقفہ سے بانی لیڈر سے مل کر باہر آتے اور پانچوں ہی مختلف بات کر رہے ہوتے، شیر اللہ مروت اور گوہر خان کے درمیان جو مسلہ ہوا وہ بانی لیڈر کی ایک شٹ اپ کال پر حل تو کر لیا گیا یا پھر فقط دیکھاوے کے لئے کیا گیا کیونکہ مروت کا اسٹانس اور مسلسل بیانات اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ آگ مزید بڑھ رہی ہے ،،،
پی ٹی آئی پہلے ہی آئی ایم ایف کو خط لکھنے، یورپین یونین کو جی ایس پلس اسٹیٹس ختم کرنے اور آئی ایم ایف کے دفتر کے سامنے آرمی چیف عامر منیر اور پنجاب کی سی ایم مریم نواز کے خلاف شہباز گل کی سربراہی میں احتجاج کرنے پر بیک فٹ پر ہے وہیں انکے اندر کی چپقلشیں انکے لئے مزید پریشانیاں لا سکتیں ہیں،
پاکستان کا موجودہ سیاسی کھیل
کچھ صاحب تحریر کے بارے میں
اس پوسٹ پر تبصرہ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ سروس کی شرائط سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ ایک تحریری معاہدہ ہے جو اس وقت واپس لیا جا سکتا ہے جب آپ اس ویب سائٹ کے کسی بھی حصے کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کرتے ہیں۔