پاکستان ایک جمہوری نظام کی حامل ناخواندہ ریاست ہے
تعلیم کی اسی کمی کے باعث پاکستانی نہ جمہوریت کو سمجھ پائے ہیں اور نہ ہی اس سے خوش دکھائی دیتے ہیں۔ جس کی اہم ترین وجوہات میں اگر تعلیم اور شعور کی کمی ہے تو وہیں ہماری سیاسی جماعتوں، سیاست دانوں اور جمہوری اداروں کا کردار بھی ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں پیش اور رائج کردہ جمہوری نظام میں جمہوریت کے ثمرات سے صرف سیاسی ، جمہوری ، مذہبی اشرافیہ اور اسٹبلشمنٹ کے ساجھے دار ہی خوش دکھائی دیتے ہیں، اور عام آدمی کے حصے میں آزمائش اور امتحان کے سوا کچھ نہیں آیا ۔ یہی اگر عوام تعلیم یافتہ اور باشعور ہوتی تو یقیناً خوشحالی کی رخ عوام کی طرف ہوتا اور سیاستدان ، جمہوری نظام اور آئینی ادارے عوام کو جواب دے ہوتے کہ
الیکشن میں کس منہ سے جائیں گے غالب
ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں جمہوریت اور تعلیم ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں ۔ تعلیم باخبر شہری بنانے میں مدد کرتی ہے جو جمہوری عمل میں فعال طور پر حصہ لے سکتے ہیں کیونکہ تعلیم ہی انہیں اپنے حقوق، ذمہ داریوں اور جمہوری اداروں کے کام کو سمجھنے کے قابل بناتی ہے۔ تعلیم تنقیدی لیکن تعمیری سوچ کو فروغ دیتی ہے، جو جمہوری اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لینے، باخبر فیصلے کرنے، اور منتخب نمائندوں کو جوابدہ بنانے کے لیے ضروری ہے۔ جمہوری اور آئینی نظام کے ماہرین کے مطابق تعلیم شہریوں کو ووٹنگ، فعالیت اور کمیونٹی سروس کے ذریعے جمہوری عمل میں حصہ لینے کی ترغیب دیتی ہے۔
تعلیم رواداری اور برداشت کو فروغ دینے میں مدد کرتی ہے، جو جمہوری معاشرے میں ضروری اقدار ہیں۔ تعلیم انسانی حقوق اور انفرادی آزادیوں اور وقار کے تحفظ کی اہمیت کے بارے میں بیداری پیدا کرتی ہے۔ تعلیم قانون کی حکمرانی کی اہمیت پر زور دیتی ہے، اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ شہری جمہوری اقدار کے تحفظ کے لیے قوانین اور اداروں کی ضرورت کو سمجھیں گے۔پاکستان میں تعلیمی اداروں میں تعلیم کے ذریعے ہی سے جمہوریت کے فروغ میں درپیش چیلنجز کو کم کیا جا سکتا ہے ۔ تاہم معیاری تعلیم تک مساوی رسائی کو یقینی بنانا پاکستان میں ایک اہم چیلنج ہے۔
تعلیم کا نصاب اور مواد بعض اوقات تعصبات، دقیانوسی تصورات اور غیر جمہوری اقدار کو برقرار رکھ سکتا ہے اور ہمارے ہاں بدقسمتی سے یہی ہو رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں نصاب کی تبدیلی بھی سیاسی وابستگی کے مطابق کی جاتی ہے۔ جمہوریت کے بہتر فروغ کے لیے کلاس روم میں جمہوری اقدار اور تنقیدی سوچ کو فروغ دینے میں اساتذہ کی تربیت اور صلاحیت سازی بہت اہم ہے۔بظاہر پاکستان میں جمہوریت اور تعلیم کے فروغ کے لیے کوششیں جاری ہیں، جن میں معیاری تعلیم تک رسائی کو بہتر بنانے، جمہوری اقدار کو فروغ دینے کے لیے نصاب پر نظر ثانی، اور اساتذہ کی تربیت کو بڑھانے کے اقدامات شامل ہیں۔
پاکستان میں تعلیمی نظام کو جمہوری اقدار کے مثبت اور تعمیری سوچ کے فروغ میں کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ جیسا کہ بہت سے پاکستانی سکولوں اور یونیورسٹیوں کا نصاب پرانا ہے اور اس میں جمہوری اقدار، انسانی حقوق اور تنقیدی سوچ کا مناسب احاطہ نہیں کیا گیا ہے۔پاکستان میں بہت سے اساتذہ کے پاس کلاس روم میں جمہوری اقدار اور تنقیدی سوچ کو فروغ دینے کی تربیت اور صلاحیت کی کمی ہے اور ایک مخصوص سیاسی جماعت کے حامی اساتذہ اپنی مخصوص لیڈر شپ کی عقیدت بڑھانے میں مصروف ہیں جبکہ ایک صوبے میں تو اساتذہ کا ٹاسک ہیں یہی ہے کہ انہوں نے اپنی لیڈر شپ کو اوتار بنا کر پیش کرنا اور پروان چڑھانا ہے۔ ایک اہم ترین مسئلہ وہ یہ ہے کہ پاکستان کے بہت سے حصوں خاص طور پر دیہی علاقوں اور پسماندہ برادریوں کے لیے معیاری تعلیم تک رسائی محدود ہے۔ جبکہ پاکستان میں تعلیمی نظام اکثر تنقیدی سوچ اور تخلیقی صلاحیتوں سے زیادہ روٹ لرننگ یعنی رٹا ازم پر زور دیتا ہے۔
ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے، پاکستان میں اس وقت کئی اقدامات جاری ہیں، جن میں جمہوری اقدار، انسانی حقوق، اور تنقیدی سوچ پر مزید مواد شامل کرنے کے لیے نصاب میں ترمیم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
بہت ساری سرکاری اور غیر سرکاری تنظیمیں اساتذہ کو تربیتی پروگرام فراہم کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں جو جمہوری اقدار اور تنقیدی سوچ کو فروغ دینے پر مرکوز ہیں۔تعلیمی ٹیکنالوجی کو معیاری تعلیم تک رسائی بڑھانے اور انٹرایکٹو لرننگ کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔سول سوسائٹی کی تنظیمیں غیر نصابی سرگرمیوں اور کمیونٹی پروگراموں کے ذریعے جمہوری اقدار اور تنقیدی سوچ کو فروغ دینے کے لیے کام کر رہی ہیں۔
اب ایک نظر پاکستان کی تعلیمی صورتحال پر ڈالتے ہیں ۔۔۔اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم صوبائی حکومتوں کی زمہ داری میں شامل ہے اور صوبائی حکومتوں کی ترجیحات میں شاید تعلیمی نظام میں تبدیلی لانا شامل نہیں ہے ۔ گذشتہ سال جون میں ہونے والے سرکاری اقتصادی سروے رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملک میں شرح خواندگی 62.8 فیصد ہے۔ مردوں کی شرح خواندگی 73.4 فیصد جبکہ خواتین کی شرح خواندگی 51.9 فیصد ہے۔سروے رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں جامعات کی کل تعداد 263 ہوگئی ہے، ملک میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی 20 ہزار کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئی ہیں۔ حکومتی دعوؤں کے برعکس 167 ممالک میں خواندگی کی شرح کے لحاظ سے پاکستان 138ویں نمبر پر ہے۔
پچھلے دنوں پاکستان کے تعلیمی بحران کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس کے مطابق پاکستان میں اس وقت 5 سے 16 سال کی عمر کے 25.3 ملین بچے اسکول سے باہر ہیں، جو ملک کی اسکول جانے کی عمر کی آبادی کا 36 فیصد حصہ ہیں۔ یہ تشویشناک اعدادوشمار پاک الائنس فار میتھس اینڈ سائنس (PAMS) کی جانب سے جاری کردہ The Missing Third of Pakistan کے عنوان سے ایک رپورٹ میں شائع کیے گئے ہیں۔ یہ رپورٹ 2023 کی مردم شماری کے اعداد و شمار کی بنیاد پر تحصیل کی سطح پر سکول سے باہر بچوں (OOSC) کے پہلے جامع تجزیے کی نشاندہی کرتی ہے۔ رپورٹ میں ملک کے تعلیمی نظام کی ایک بھیانک تصویر پیش کی گئی ہے، ان بچوں کی ایک قابل ذکر اکثریت 74 فیصد دیہی علاقوں میں مقیم ہیں۔
ان علاقوں میں سکول میں بچوں کے داخلے کو بڑھانے کی سرکاری اور غیر سرکاری کوششوں کو کافی چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں اسکولوں تک محدود رسائی، غربت اور سماجی رکاوٹیں شامل ہیں۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ تعلیمی اداروں تک رسائی میں دیہی اور شہری آبادی تقسیم وسیع ہو رہی ہے، تقریباً 18.8 ملین سکول نہ جانے والے بچے صرف دیہی علاقوں میں رہتے ہیں۔ 5 سے 9 سال کی عمر کے بچے خاص طور پر کمزور ہوتے ہیں، اس عمر کے 51% افراد نے کبھی سکول میں داخلہ نہیں لیا۔ اس سے بھی بڑھ کر، ان میں سے 50% سے زیادہ بچے سکول چھوڑ چکے ہیں یا اب سکول نہیں جا رہے ہیں۔ یہ ابتدائی دھچکا خواندگی کی شرح پر دیرپا اثرات مرتب کرنے کا امکان ہے، کیونکہ بنیادی تعلیمی شعور عام طور پر اس مرحلے پر حاصل کی جاتی ہیں۔
اندراج میں تاخیر ایک بڑا مسئلہ ہے، خاص طور پر دیہی برادریوں میں، جہاں معاشی دباؤ اور محدود بنیادی ڈھانچہ بہت سے بچوں کو کلاس روم میں داخل ہونے سے روکتا ہے۔ صنفی تفاوت بحران کو مزید پیچیدہ کر چکا ہے۔ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ سکول سے باہر کی 53% آبادی لڑکیوں پر مشتمل ہے، اور یہ مسئلہ خاص طور پر دیہی علاقوں میں شدید ہے جہاں خواتین کی شرح خواندگی پہلے ہی کم ہے۔کچھ تحصیلوں میں، 5 سے 16 سال کی عمر کی 80% سے زیادہ لڑکیاں کبھی سکول نہیں گئیں، جو کہ تعلیمی رسائی میں صنفی عدم مساوات کو نمایاں کرتی ہے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان تعلیمی حصول میں یہ فرق وسیع ہو رہا ہے، ثقافتی اور سماجی و اقتصادی عوامل اکثر لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے سے روکتے ہیں جبکہ شہری بھی جو عام طور پر تعلیم کے لیے بہتر سمجھے جاتے ہیں، اس مسئلے سے محفوظ نہیں ہیں۔
کراچی اور لاہور جیسے شہروں میں، صوبائی دارالحکومت ہونے کے باوجود، بے پناہ اور بہتر تعلیمی وسائل کے ساتھ، اب بھی بڑی تعداد میں سکول نہ جانے والے بچے موجود ہیں۔صرف کراچی میں تقریباً 1.8 ملین بچے ہیں جو اسکول میں داخل نہیں ہیں، جو بحران کی سنگینی کو مزید واضح کرتا ہے۔ ‘مسنگ تھرڈ’ رپورٹ ان تعلیمی خساروں سے نمٹنے کے لیے ڈیٹا پر مبنی نقطہ نظر کی فوری ضرورت پر زور دیتی ہے۔ یہ دیہی اور شہری تعلیمی مواقع کے درمیان فرق کو ختم کرنے کے لیے، خاص طور پر سکول سے باہر بچوں کی سب سے زیادہ تعداد والی تحصیلوں میں ہدفی مداخلتوں کا مطالبہ کرتا ہے۔
رپورٹ میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر بھی زور دیا گیا ہے کہ وہ اس فرق کو دور کرنے کے لیے مل کر کام کریں اور ایسے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو ترجیح دیں جو سکول میں بچوں کے داخلے میں اضافے کی حمایت کر سکے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ فوری کارروائی کے بغیر، صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے، جس سے پاکستان کی مستقبل کی افرادی قوت اور معاشی ترقی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ ابتدائی تعلیم کی عدم موجودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والے بنیادی خلاء بچوں کے لیے بعد کی زندگی میں آگے بڑھنا مشکل بنا دیں گے، جس کی وجہ سے شرح خواندگی کم ہو سکتی ہے اور سماجی نقل و حرکت کم ہو سکتی ہے اور بہتر جمہوری ریاست کا قیام بھی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا ۔
یہ رپورٹ پالیسی سازوں، ماہرین تعلیم اور سول سوسائٹی کو ایک ساتھ آنے اور اس بڑھتے ہوئے بحران کا حل وضع کرنے کے لیے ایک کال ٹو ایکشن کے طور پر کام کرتی ہے۔ چونکہ ملک سخت صورت حال سے دوچار ہے، تعلیم کا شعبہ ایک اہم شعبہ ہے جس میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ نتائج اس بات پر زور دیتے ہیں کہ تعلیم تک مساوی رسائی کو یقینی بنانا، خاص طور پر دیہی آبادیوں اور لڑکیوں کے لیے، ایک قومی ترجیح ہونی چاہیے۔ دہی علاقوں میں تعلیمی شعور بہتر جمہوری نظام کی راہ ہموار کرے گا تاہم اس کے لیے جو کوششیں درکار ہیں ، وہ ہماری حکومتوں کی ترجیحات میں شامل نہیں ۔
بہتر اور معیاری نظام تعلیم جس میں بلا تفریق مرد اور عورت اور دیہی اور شہری حد بندی کے ریاست کے ہر شہری کا بنیادی حق ہے تاکہ جمہوریت کی بحالی اور آبیاری میں ریاست کے تمام اسٹک ہولڈرز برابر کردار ادا کریں بلکہ اپنی زمہ داریاں پوری دیانت داری سے ادا کریں اور یہ تعلیمی شعور کے بغیر ناممکن ہے ۔