شاعری شاید لطیف جذبات کی عکاس ہے یا پھر انسانی جبلت کی لیکن شاعری میں ایسی باتیں کہہ دی جاتی ہیں جو عام انسانی بول چال میں شاید کہنا مشکل ہوں یا پھر معاشرے کی مجبوریاں آڑے آتی ہیں۔
اب اگر شاعر کو عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنا آ جائے جو ایسے ایسے اشعار تخلیق کر لیتا ہے کہ
جو روح کو تڑپا دینے اور قلب کو گرما دینے کی تاثیر رکھتے ہیں، اب اگر ہم عشقیہ شاعری کی بات کریں تو واہ بھئی واہ یعنی چچا غالب نے کیا خوب کہا ہے
” محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے ”
چلو یہ تو ہو گئی عشق میں جینے و مرنے کی بات لیکن اگر آپ کو وصل یار کا تقاضہ ہو تو پھر ہمیں فیض احمد فیض یاد آتے ہیں
” اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا”
اگر پھر بات کریں ٹوٹے دل کی تو پھر دل سے دعا نکلتی ہے اور بشیر بدر، یوں گویا ہوتے ہیں
"۔ اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے”
جبکہ عشق میں دیوانگی کی حد تک پہنچ جانے پر بقول ندا فاضلی
"ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے
عشق کیجے پھر سمجھئے زندگی کیا چیز ہے ”
اور اگر جان ایلیاء کی جانب اٹھا کر دیکھتے ہیں تو جناب قلم کشائی یوں کرتے ہیں
"ساری دنیا کے غم ہمارے ہیں
اور ستم یہ کہ ہم تمہارے ہیں”
یہ تو ہو گئی عشقیہ شاعری جو نامی گرامی شعراء نے اپنے اپنے انداز سے کی لیکن اگر دیکھیں تو ان سے کہیں زیادہ پر لطف شاعری تو گلی کے نکڑ پر بیٹھے عاشقوں نے کاغذ کے پھریروں پر لکھ لکھ کر پاپوش محبوب تلے روند دی لیکن انکو وہ مقام نا مل سکا جسکے وہ متمنی تھے۔ اکثر شاعر و مجنون، سنت مجنوں کو زندہ کرنے واسطے اپنی محبوبہ کے کتے تک کو چومنے و چاٹنے کو تیار ہو تے رہے ہیں لیکن خیر بات کہیں اور طرف مطلب آجکل کے ٹائیگرز کی جانب نا نکل جاوے اس لئے دوبارہ موضوع پر آتے ہیں۔۔
شاعری کی ایک اور صنف بھی بہت مقبول ہے جسکو مزاحمتی شاعری کہا جاتا ہے جو ہر دور میں ہونے والے ظلم و جبر کے خلاف علم بغاوت کے ساتھ ساتھ عوام میں اس ظلم و جبر کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کو ایک تحریک دیتی رہی اگر ہم زیادہ دو رنا جائیں اور صرف علامہ اقبال سے ہی شروع کریں تو ایک موٹیویشنل نظم کے چند اشعار اس بات کو ثابت کردیتے ہیں
یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی
اور اسی طرح اگر ظلم و جبر و ریاستی نا انصافی کے خلاف دیکھیں تو علامہ فرماتے ہیں
میں نا خوش و بیزار ہوں مرمر کی سلوں سے
میرے لئے مٹی کا حرم اور بنا دو
آجر و اجیر کے مسائل پر انہوں نے اجیر کا ساتھ دیتے ہوئے کہا
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہٴ گندم کو جلا دو
اب اگر ہم ہردل عزیز انقلابی شاعر حبیب جالب کے شہرہ آفاق شعر کی جانب دیکھتے ہیں تو
” ایسے دستور کو، صبح بےنور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا
میں بھی خائف نہیں تختۂ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا”
لیکن جیسے جیسے دنیا ترقی کر رہی ہے اور عوامی ترجیحات میں دن بدن تبدیلی آتی جا رہی ہے بالکل اسی طرح آجکل کی عشقیہ، انقلابی و مزاحمتی شاعری میں بھی تبدیلی آتی جا رہی ہے ایک وقت میں جان ایلٹن اور ماما افریقہ سمیت ہمارے علاقوں میں اقبال، فیض و جالب تھے ویسے ہی تبدیلی کے بعد بیرون و اندرون ملک بھی شاعر و گلوکاروں میں بھی بہت بڑی تبدیلی آ گئی ہے۔
گزشتہ ایک دہائی سے ایسے ایسے شاعر و گلوکار سامنے آئے اور چھا گئے جو کسی زمانہ میں گلی کی نکڑ پر یا کسی چائے کے کھوکھے پر بیٹھے ادھار کی چائے پیتے اور انقلاب کی باتیں کیا کرتے تھے وہ کہتے ہیں نا کہ ” بیس سال بعد تو روڑی کی بھی سنی جاتی ہے” بالکل ایسے ہی انکی بھی سنی گئی۔
اقبال، فیض و جالب کو پڑھنے و سمجھنے والوں نے قبرستان آباد کئے تو ایسی نسل سامنے آئی جو فقط
"روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی رے
نیکسٹ اسٹاپ ٹو اڈیالا”
کو ہی شاعری اور مزاحمتی شاعری کی معراج سمجھ کر اپنی روح کو تڑپاتے اور قلب کو گرماتے رہے، بلکہ بات بس یہاں تک ہی نہیں رکی بلکہ ایک المیہ گلوکار اس نئی نسل کا تان سین کہلوایا ، اور کوئی بھی گانا جس میں انکے مربی، امام و مرشد کا نام ی ااشارہ ہوتا وہ اسکو موسیقی کی انتہاء کہتے ۔
کہنے کو تو تعلیم انسان کو شعور دیتی ہے لیکن یہ کیسا شعور ہے کے اس وقت سب سے بڑا انقلابی نعرہ ” سب کا یار قیدی نمبر 804″ ہے اور ہمارے معاشرے میں انتہائی پڑھے لکھے اساتذہ ، وکلاءو صحافی جن کے ذمہ نئی نسل کی تعلیم و تربیت ہے وہ بھی ایک گانے کو جس کے بول ہیں ” نک دا کوکا” اور بقول ایک مزاحمتی سیاسی پارٹی کے یہ گانا اپنی مقبولیت میں اتنا بڑھ گیا کے راتوں رات اس نے انڈیا کی سب سے بڑے میوزک چینل کا بھی ریکارڈ توڑ دیا،
اس گانے پر اس سیاسی جماعت کا دم بھرنے والے پاکستان کے مشہور صحافیوں اور دانشوروں نے جو تعریفی کلمات کہے یا کالمز لکھے ہیں وہ ہماری قوم کی ذہنی پسماندگی کی ایک بہت بڑی مثال ہے اور اسی دوران یوٹیوب سے اچھے خاصے پیسے کمانے کے بعد اسی گانے کے گلوکار نے ایک اور گانا مارکیٹ کر دیا جس میں ایک بار پھر سیاسی جماعت کے سپریم لیڈر اور اڈیالا جیل کا نام لے کر پھر سے میلہ لوٹ لیا۔
اگرچہ دیگر جماعتوں کے لیڈران کی تعریف میں بھی گانے بنائے گئے ہیں اور وہ بھی زبان زد عام ہیں لیکن جس کند عقلی کا مظاہرہ ایک سیاسی جماعت اور اسکے سپوٹران کر رہے ہیں یقینا جالب، فیض اور اقبال کی روحیں عالم ارواح میں ایک دوسرے سے شکوہ کناں ہوں گئیں۔
مزاحمتی شاعری اور ہماری ذہنی حالت
کچھ صاحب تحریر کے بارے میں
اس پوسٹ پر تبصرہ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ سروس کی شرائط سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ ایک تحریری معاہدہ ہے جو اس وقت واپس لیا جا سکتا ہے جب آپ اس ویب سائٹ کے کسی بھی حصے کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کرتے ہیں۔