بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تجارت کی بحالی پر مذاکرات اس وقت ہورہے ہیں جب دونوں ممالک کے تعلقات 2019 کے بعد سے کشیدگی کا شکار ہیں۔ گلوان وادی جھڑپ، لداخ میں فوجی تعیناتی اور سرحدی بنیادی ڈھانچے کی دوڑ نے دونوں معیشتوں کو دفاعی اخراجات میں الجھائے رکھا۔ اب سرکاری سطح پر یہ پہلا باضابطہ اشارہ ہے کہ دونوں فریق محدود سطح پر اعتماد کی بحالی چاہتے ہیں، جو نہ صرف تجارتی بلکہ اسٹریٹیجک اہمیت کا حامل ہے۔ دونوں ممالک جانتے ہیں کہ طویل سرحدی کشیدگی عسکری اور معاشی دونوں محاذوں پر نقصان دہ ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب عالمی معیشت کساد بازاری کے خطرات سے دوچار ہے۔
چینی وزیر خارجہ وانگ یی کا 18 اگست کو بھارت کا دورہ اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت دووال سے ملاقات کا شیڈول اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ بیجنگ اور نئی دہلی سرحدی مسائل پر براہِ راست اعلیٰ سطحی مذاکرات کو ترجیح دے رہے ہیں۔ دووال بھارت کی سرحدی سیکیورٹی پالیسی کے معمار سمجھے جاتے ہیں جبکہ وانگ یی بیجنگ کی عالمی سفارتکاری کے اہم ترین نمائندے ہیں۔ اس ملاقات کا ایک مقصد سرحدی کشیدگی کو وقتی طور پر منجمد کر کے تجارت اور سرمایہ کاری کو دوبارہ فعال کرنا ہے، اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ علاقائی اثر و رسوخ کی دوڑ میں براہِ راست بات چیت کے ذریعے غلط فہمیوں کو کم کیا جائے۔
پاکستان کے لیے یہ پیش رفت محض بھارت-چین تعلقات کی خبر نہیں بلکہ ایک وسیع تر علاقائی اسٹریٹیجک تبدیلی کا اشارہ ہے۔ اگر بھارت اور چین سرحدی تجارت دوبارہ شروع کرتے ہیں تو وسطی ایشیا سے جنوب ایشیا تک تجارتی راستوں کی حکمت عملی بدل سکتی ہے، جس کا براہِ راست اثر سی پیک کی معاشی جغرافیائی اہمیت پر پڑ سکتا ہے۔ بھارت کا چین کے ساتھ بیک ڈور مذاکرات اور مغرب کے ساتھ اسٹریٹیجک پارٹنرشپ رکھنا ظاہر کرتا ہے کہ نئی دہلی ایک کثیرالجہتی سفارتکاری اختیار کیے ہوئے ہے، جس میں پاکستان کی اہمیت کم کرنے کا خطرہ موجود ہے۔ اس کے برعکس، اگر یہ تجارتی تعاون خطے میں عسکری بجٹ کے دباؤ کو کم کرتا ہے تو پاکستان کو بھی دفاعی اور معاشی توازن میں نئے مواقع مل سکتے ہیں۔
چین کی حکمت عملی اس وقت معاشی ترجیحات کی طرف واپسی پر مرکوز ہے۔ امریکی تجارتی پابندیوں، یورپ میں سست روی، اور مشرقی ایشیا میں کشیدگی نے بیجنگ کو مجبور کیا ہے کہ وہ بڑے صارفین کی مارکیٹ تک رسائی حاصل کرے، اور بھارت اس کے لیے ایک اہم موقع فراہم کرتا ہے۔ دوسری جانب، بھارت بھی سمجھتا ہے کہ چین کے ساتھ مستقل کشیدگی اسے دو محاذوں پر فوجی دباؤ میں رکھتی ہے، ایک لداخ اور اروناچل پردیش پر، اور دوسرا بحیرۂ ہند میں بحری موجودگی پر۔ تجارت کی بحالی اس دباؤ کو وقتی طور پر کم کر سکتی ہے۔
پاکستان کے لیے اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ پیش رفت چین کی توجہ سی پیک اور پاک-چین تعاون سے ہٹا دے گی یا یہ ایک ایسا موقع ہے جس میں پاکستان سہ فریقی معاشی مکالمے کا حصہ بننے کی کوشش کر سکتا ہے۔ اگر اسلام آباد فعال سفارتکاری دکھائے تو اس تبدیلی کو اپنے فائدے میں بدل سکتا ہے، ورنہ ممکن ہے کہ نئی دہلی بیجنگ کے ساتھ معاشی تعلقات بہتر بنا کر خطے میں پاکستان کو مزید سفارتی تنہائی کا شکار کر دے۔ بھارت-چین سرحدی تجارت کی بحالی کے یہ مذاکرات علامتی ضرور ہیں مگر خطے کی اسٹریٹیجک ترتیب میں ایک ممکنہ تبدیلی کا آغاز ہیں، جن کا باریک بینی سے جائزہ لینا پاکستان کے لیے ناگزیر ہے۔