ترکی اور شام کے درمیان فوجی تعاون کے حالیہ معاہدے (MoU) نے مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئی جغرافیائی اور تزویراتی صف بندی کے امکانات کو جنم دیا ہے۔ برسوں کی کشیدگی اور پراکسی تنازعات کے بعد یہ پیش رفت اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ خطے کے ممالک اب براہِ راست سیکیورٹی اور عسکری شراکت داری کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ معاہدے کے تحت ہتھیاروں کے نظام، لاجسٹک سہولت، تربیت اور مشاورتی سروسز فراہم کرنا صرف دفاعی تعاون نہیں بلکہ ایک اسٹریٹجک بلاک کی تشکیل ہے، جو خطے میں طاقت کے توازن کو بدل سکتا ہے۔
یہ پیش رفت روس اور ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ، اور مغرب کے دباؤ کے درمیان ترکی کی "بیلنسنگ پالیسی” کی علامت بھی ہے۔ ترکی اب ایک طرف نیٹو کا رکن ہے اور دوسری طرف شام جیسے ممالک کے ساتھ عسکری تعلقات بڑھا رہا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انقرہ اپنی جغرافیائی حیثیت کو زیادہ مؤثر انداز میں استعمال کرنا چاہتا ہے۔
ترکی-جارجیا مشترکہ آپریشن — خطے میں کریک ڈاؤن کا نیا ماڈل
اسی دوران، ترکی اور جارجیا کا مشترکہ پولیس آپریشن، جس میں 14 خطرناک مجرمان کو گرفتار کیا گیا، اس بات کا ثبوت ہے کہ خطے میں بین الاقوامی قانون نافذ کرنے والے ادارے اب عملی طور پر ایک دوسرے کے آپریشنل نیٹ ورک کا حصہ بن رہے ہیں۔ ان میں سے 12 افراد انٹرپول کے ریڈ نوٹس پر تھے، جو یہ بتاتا ہے کہ یہ محض داخلی کارروائی نہیں بلکہ عالمی سطح پر مربوط آپریشن کا حصہ تھا۔
یہ کریک ڈاؤن نہ صرف منظم جرائم کے خلاف ایک بڑا قدم ہے بلکہ قفقاز اور اناطولیہ کے درمیان سیکیورٹی بیلٹ بنانے کی ایک کوشش بھی ہے۔ ترکی اس وقت اپنی سرحدوں سے باہر انسدادِ جرائم اور انسدادِ دہشت گردی کے آپریشنز کو وسعت دے رہا ہے، جو اس کی دفاعی پالیسی کا ایک نیا رخ ہے۔
پاکستان کے تناظر میں یہ دونوں واقعات کئی اہم سبق رکھتے ہیں:
علاقائی بلاکس کی اہمیت: جیسے ترکی اپنی جغرافیائی پوزیشن سے فائدہ اٹھا کر بیک وقت مشرقِ وسطیٰ اور قفقاز میں اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے، ویسے ہی پاکستان کو وسط ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور چین کے ساتھ اپنے سیکیورٹی و تجارتی تعلقات کو عملی تعاون میں بدلنا ہوگا۔
بین الاقوامی قانون نافذ کرنے والی شراکت داری: ترکی-جارجیا طرز کے مشترکہ آپریشنز پاکستان کے لیے بھی ایک ماڈل ہو سکتے ہیں، خاص طور پر دہشت گردوں اور منظم جرائم کے بین الاقوامی نیٹ ورکس کو توڑنے کے لیے۔
سافٹ پاور کے ساتھ ہارڈ پاور کا امتزاج: ترکی نے فوجی تعاون اور پولیس آپریشن دونوں کے ذریعے یہ پیغام دیا ہے کہ اسٹریٹجک اثر و رسوخ صرف عسکری طاقت سے نہیں بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے عالمی نیٹ ورک کا حصہ بن کر بھی بڑھایا جا سکتا ہے۔
ترکی کی حالیہ پیش رفتیں اس بات کا اشارہ ہیں کہ آج کے عالمی اور علاقائی سیاست میں سخت فوجی طاقت، نرم سفارتی قوت اور مشترکہ قانون نافذ کرنے کی حکمت عملی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ اگر پاکستان اس ماڈل کو اپنے حالات کے مطابق اپنائے، تو نہ صرف داخلی سلامتی بہتر ہو سکتی ہے بلکہ علاقائی اور عالمی پلیٹ فارمز پر اس کا وزن بھی بڑھ سکتا ہے۔