موسمیاتی خطرات اور جنوبی یورپ کی جنگلاتی آگ — ایک عالمی انتباہ
جنوبی یورپ اس وقت ایک شدید ماحولیاتی بحران سے دوچار ہے، جہاں جنگلاتی آگوں نے ترکی، یونان، اسپین اور البانیا میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے۔ ترکی میں ایک جنگلاتی ملازم اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا، جبکہ ہزاروں افراد کو اپنے گھروں سے نکلنے پر مجبور ہونا پڑا۔ یورپی یونین نے امدادی کارروائیاں تیز کر دی ہیں، فائرفائٹرز اور فضائی مدد فراہم کی جا رہی ہے، لیکن تیز ہوا اور خشک موسم آگ کو قابو سے باہر کر رہے ہیں۔
ماہرین کے مطابق، گرمی کی غیر معمولی لہر اور طویل خشک سالی اس بحران کے بنیادی اسباب ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے باعث خطہ شدید درجہ حرارت، کم بارش اور خشک ہواؤں کے امتزاج کا سامنا کر رہا ہے، جو جنگلاتی آگ کے پھیلاؤ کو کئی گنا بڑھا دیتے ہیں۔ یونان میں گزشتہ سال بھی اسی نوعیت کی آگ نے ہزاروں ہیکٹر رقبہ جلا ڈالا تھا، لیکن اس سال شدت اور رفتار دونوں کہیں زیادہ ہیں۔
یہ آگ صرف قدرتی ماحول کو ہی نہیں بلکہ معیشت کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ زیتون، انگور اور دیگر زرعی پیداوار کو نقصان پہنچا ہے، سیاحت جو ان ممالک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، متاثر ہو رہی ہے، اور لاکھوں یورو کا مالی نقصان متوقع ہے۔ فضائی آلودگی کی وجہ سے شہری علاقوں میں صحت کے مسائل بڑھ رہے ہیں، خاص طور پر سانس کے امراض اور دل کی بیماریوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
پاکستان کے لیے سبق
پاکستان میں بھی حالیہ برسوں میں گلگت بلتستان، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے جنگلات میں آگ کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ اگرچہ ان کا پیمانہ جنوبی یورپ جیسا نہیں، لیکن اس کی وجوہات ملتی جلتی ہیں: موسمیاتی تبدیلی، بے قابو درجہ حرارت، اور جنگلاتی انتظام کا فقدان۔ پاکستان کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ جنگلاتی وسائل کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کرے، بشمول:
مقامی کمیونٹیز کی تربیت اور آگ بجھانے کے آلات کی فراہمی۔
ڈرون اور سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کے ذریعے جنگلات کی نگرانی۔
شجرکاری اور ماحولیاتی بحالی کے منصوبے۔
ایک عالمی مسئلہ — مشترکہ ذمہ داری
جنوبی یورپ کی یہ تباہی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی ایک سرحدی مسئلہ نہیں بلکہ عالمی خطرہ ہے۔ اگر دنیا نے کاربن اخراج کم کرنے، صاف توانائی اپنانے اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے سنجیدہ اقدامات نہ کیے تو نہ صرف یورپ، بلکہ پاکستان جیسے ممالک بھی آنے والے برسوں میں اسی قسم کے بحرانوں کا شکار ہو سکتے ہیں۔
یہ وقت ہے کہ ہم عالمی تعاون کو ترجیح دیں اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک محفوظ اور پائیدار ماحول قائم کرنے کی سنجیدہ کوشش کریں۔