ایڈیٹر : سید بدر سعید

ایڈیٹر : سید بدر سعید

کمر توڑ مہنگائی میں نئے کپڑے خواب ہوئے … پاکستانی تاجروں نے 511ملین ڈالر کا لنڈا منگوا لیا !

پاکستان کے بازاروں میں اب نئے کپڑوں کی خوشبو کم اور پرانے کپڑوں کی مخصوص بساند زیادہ محسوس ہونے لگی ہے۔ یہ منظر صرف ایک تجارتی رجحان نہیں بلکہ ہمارے حالاتِ زندگی کا نوحہ ہے۔ کبھی شادی بیاہ، عید یا خوشی کے موقع پر ہر گھر میں نئے کپڑوں کی چمک دمک ہوتی تھی، مگر اب لنڈا بازار اور استعمال شدہ اشیا کی خرید و فروخت کے مراکز میں سیکنڈ ہینڈ جینز، قمیضیں اور جوتے ہی عوام کی پہلی پسند بن گئے ہیں۔ جب کسی قوم کی الماری میں نیا کپڑا نایاب اور پرانا کپڑا عام ہو جائے، تو یہ صرف غربت کا اشارہ نہیں بلکہ معیشت کی کمزوری، حکومتی پالیسیوں کی ناکامی اور لوگوں کی مایوسی کی کھلی گواہی ہوتی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب سوال صرف کپڑوں کا نہیں، عزتِ نفس اور زندہ رہنے کی جدوجہد کا بھی ہے۔

مالی سال 2024-25 میں پاکستان نے ریکارڈ 511 ملین ڈالر کے پرانے کپڑے درآمد کیے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 77 ملین ڈالر زیادہ ہیں۔ یہ محض تجارتی اعداد و شمار نہیں بلک ملک میں غربت کی جڑیں گہری ہونے کا ثبوت ہیں۔ عالمی بینک کے مطابق، ملک میں غربت کی شرح 45 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جبکہ گزشتہ سال یہ 39.8 فیصد تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ آدھی سے زیادہ آبادی روزانہ ساڑھے چار ڈالر سے کم میں زندگی گزار رہی ہے۔ ایسے حالات میں پرانے کپڑوں کی منڈیوں کا رش بڑھ جانا کوئی حیرت کی بات نہیں۔

استعمال شدہ کپڑوں کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ قیمت کا فرق ہے۔ درآمدی جینز عام طور پر 300 سے 400 روپے میں، قمیضیں 250 سے 300 روپے میں، اور کھیلوں کے جوتے 600 سے 800 روپے میں مل جاتے ہیں، جبکہ نئے ملکی جوتے 2,500 سے 3,500 روپے اور برانڈڈ جوتے 5,000 روپے تک فروخت ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عام خریدار کے لیے پرانے کپڑوں کی کشش دو چند ہو جاتی ہے۔ لوگ کئی کئی گھنٹے ایسے بازاروں میں بہترین چیز ڈھونڈنے میں صرف کرتے ہیں جہاں لنڈا یعنی استعمال شدہ کپڑے ملتے ہیں، کیونکہ نئے لباس کی خرید اب اکثر کے لیے خواب بن چکی ہے۔

لنڈے کا یہ کاروبار فوری طور پر عوام کو سستا لباس فراہم کرتا ہے اور ہزاروں افراد کو روزگار دیتا ہے۔ درآمد کنندگان، تھوک فروش، ریڑھی والے اور دکاندار سب اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ کپڑے زیادہ تر یورپ، امریکہ، جاپان، کوریا، چین اور کینیڈا سے آتے ہیں اور تجارتی مراکز تک پہنچنے سے پہلے کسٹم کلیئرنس اور دیگر مراحل سے گزرتے ہیں۔ اچھی حالت کے کپڑے بڑے شہروں میں فروخت ہوتے ہیں، جبکہ کم معیار کا مال دیہی علاقوں میں پہنچتا ہے۔ دوسری طرف، مقامی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے یہ رجحان ایک چیلنج ہے۔ پہلے ہی مہنگے خام مال، بجلی و گیس بحران اور کمزور برآمدات کے دباؤ میں گھری یہ صنعت اب درآمد شدہ استعمال شدہ کپڑوں کے مقابلے میں مزید غیر مسابقتی ہو رہی ہے۔ اگر پالیسی سطح پر توازن نہ قائم کیا گیا تو ملکی فیکٹریاں مزید سکڑ سکتی ہیں۔

حکومت ان درآمدات پر کسٹم ڈیوٹی، ریگولیٹری ڈیوٹی، سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس وصول کر رہی ہے۔ پاکستان سیکنڈ ہینڈ کلوتھ مرچنٹس ایسوسی ایشن کا مطالبہ ہے کہ ان ٹیکسوں میں کمی کی جائے تاکہ عوام کو سستا لباس مل سکے، جبکہ مقامی صنعتکار چاہتے ہیں کہ اس کاروبار پر مزید پابندیاں لگائی جائیں تاکہ ملکی پیداوار اور روزگار بڑھے۔ یہ وہ کشمکش ہے جس میں حکومت کو عوامی مفاد اور صنعتی بقا کے درمیان ایک نازک توازن قائم کرنا ہوگا۔

اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم ہمیشہ پرانے کپڑوں اور سستی درآمدات پر انحصار کرتے رہیں گے یا اپنی معیشت کو اس قابل بنا سکیں گے کہ ہر پاکستانی باعزت طریقے سے نیا لباس خرید سکے؟ 511 ملین ڈالر کی درآمد اور 45 فیصد غربت صرف اعداد نہیں، بلکہ ایک ایسے بحران کی علامت ہیں جو اگر آج حل نہ کیا گیا تو کل زندگی کے ہر شعبے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم فیصلہ کریں ، ہم کپڑوں کے ڈھیر میں عزت ڈھونڈنا چاہتے ہیں یا مضبوط معیشت میں خوشحالی۔

Copyright © The Journalist Today

کچھ صاحب تحریر کے بارے میں

سید بدر سعید
سید بدر سعید
سید بدر سعید تحقیقاتی صحافی اور پبلک ریلیشنگ ایکسپرٹ ہیں . تین کتب "خود کش بمبار کے تعاقب میں" ، "صحافت کی مختصر تاریخ قوانین و ضابطہ اخلاق" اور "جرائم کی دنیا " کے مصنف ہیں .قومی اخبارات ٹی وی چینلز ، ریڈیو اور پبلک ریلیشنگ میڈیا سیل کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں . صحافت میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں . پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے جوائنٹ سیکرٹری منتخب ہونے کے علاوہ مختلف ادبی و صحافتی تنظیموں کے عہدے دار رہے ہیں جبکہ لاہور پریس کلب کے رکن ہیں . متعدد ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں .

دیگر مصنفین کی مزید تحاریر

انفارمیشن اوورلوڈ…سوشل میڈیا پرمعلومات...

کبھی علم کو روشنی اور سکون کا ذریعہ کہا جاتا تھا لیکن اکیسویں صدی میں...

ویکسین: علاج یا سازش؟ حقیقت کا دوسرا رُخ

کل کی طرح آج بھی یہی سوال لوگوں کی زبان پر ہے کہ پولیو کے قطرے، کورونا کی ویکسین اور اب کینسر سے بچاؤ...

پاکستان اور سعودی عرب کا نیا دفاعی عہد! "خطے میں طاقت کا نیا توازن”

ریاض کے آسمانوں پر سعودی فضائیہ کے F-15 طیاروں نے اپنی گھن گرج سے فضا کو چیرا اور  برادر ملک پاکستان کے وزیر اعظم...

فصلیں جب دریا میں بہہ گئیں

جنوبی پنجاب کے ایک کسان غلام شبیر کی آنکھوں میں آنسو تھے جب اس نے کہا کہ میرے سامنے میری چھ ماہ کی محنت...

ڈاکٹر ناں۔بھٸ۔ہاں

اس کی بچپن سے ہی باتونی گفتگو سے اس کے گھر والے اندازے لگاتے تھے یہ بڑی ہو کر ڈاکٹر نکلے گی۔وہ باتوں پر...

اس پوسٹ پر تبصرہ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ سروس کی شرائط سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ ایک تحریری معاہدہ ہے جو اس وقت واپس لیا جا سکتا ہے جب آپ اس ویب سائٹ کے کسی بھی حصے کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کرتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

یہ بھی پڑھئے

ویکسین: علاج یا سازش؟ حقیقت...

کل کی طرح آج بھی یہی سوال لوگوں کی زبان پر ہے کہ پولیو کے قطرے، کورونا کی ویکسین...

پاکستان اور سعودی عرب کا...

ریاض کے آسمانوں پر سعودی فضائیہ کے F-15 طیاروں نے اپنی گھن گرج سے فضا کو چیرا اور  برادر...

فصلیں جب دریا میں بہہ...

جنوبی پنجاب کے ایک کسان غلام شبیر کی آنکھوں میں آنسو تھے جب اس نے کہا کہ میرے سامنے...

ڈاکٹر ناں۔بھٸ۔ہاں

اس کی بچپن سے ہی باتونی گفتگو سے اس کے گھر والے اندازے لگاتے تھے یہ بڑی ہو کر...

فصلیں جب دریا میں بہہ گئیں

جنوبی پنجاب کے ایک کسان غلام شبیر کی آنکھوں میں آنسو تھے جب اس نے کہا کہ میرے سامنے میری چھ ماہ کی محنت...

ماحولیاتی تبدیلی اور ذہنی دباؤ …پاکستان میں بڑھتی ہوئی "ایکو اینگزائٹی”

پاکستان گزشتہ چند برسوں سے شدید ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ کبھی طوفانی بارشیں اور غیر معمولی سیلاب، تو کبھی شدید گرمی کی...

خطے کے بدلتے سکیورٹی تقاضے اور پاکستان کا جواب

دنیا بھر میں عسکری توازن اس بات پر قائم رہتا ہے کہ ہر ملک اپنی جغرافیائی اور اسٹریٹیجک ضروریات کے مطابق دفاعی حکمتِ عملی...

سود کی شرح میں کمی کا امکان — بزنس کمیونٹی کے لیے مواقع اور چیلنجز

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے حالیہ بیان نے کاروباری حلقوں میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ وزیر خزانہ نے عندیہ دیا ہے...

جمہوری نظام کی حامل ناخواندہ ریاست

پاکستان ایک جمہوری نظام کی حامل ناخواندہ ریاست ہے تعلیم کی اسی کمی کے باعث پاکستانی نہ جمہوریت کو سمجھ پائے ہیں اور نہ...

پاکستان میں تلور کے محافظ !

افواہوں کو اہمیت دینے کے بجائے حقیقت کے میدان میں عملی کام کرتی حکومتیں ہمیشہ کامیاب رہتی ہیں ۔ پراپیگنڈا کبھی بھی کامیاب...