پاکستان میں چینی کی قیمت ہمیشہ ایک حساس موضوع رہا ہے۔ یہ وہ روزمرہ کی بنیادی ضرورت ہے جس کے نرخوں میں معمولی اضافہ بھی عوامی جیب پر براہِ راست اثر ڈالتا ہے۔ حال ہی میں ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان (TCP) نے 100,000 ٹن سفید چینی کی درآمد کے لیے بین الاقوامی ٹینڈر جاری کیا ہے۔ اس سے قبل صرف 30,000 ٹن چینی خریدی گئی تھی، لیکن اب طلب کو دیکھتے ہوئے مقدار میں نمایاں اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ محض تجارتی نوعیت کا نہیں بلکہ حکومتی پالیسی کا عکاس بھی ہے، کیونکہ مقامی مارکیٹ میں استحکام اور صارفین کو ریلیف دینا اولین ترجیح ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں پاکستان نے بارہا چینی کے بحران کا سامنا کیا۔ کبھی گنے کی پیداوار کم رہی، کبھی کرشنگ میں تاخیر ہوئی اور کبھی ذخیرہ اندوزی نے صورتحال کو خراب کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا ہوئی اور قیمتیں عام صارف کی پہنچ سے باہر ہو گئیں۔ اسی تناظر میں حکومت نے فیصلہ کیا کہ مقامی پیداوار پر مکمل انحصار کرنے کے بجائے بیرونِ ملک سے چینی منگوائی جائے تاکہ رسد اور طلب میں توازن قائم رہے۔
پہلے مرحلے میں حکومت نے صرف 30,000 ٹن چینی درآمد کی تھی۔ یہ اقدام وقتی ریلیف کے لیے تھا۔ لیکن اب جبکہ قیمتوں کا دباؤ بڑھ رہا ہے اور اگلی کرشنگ سیزن میں بھی مشکلات کا اندیشہ ہے، تو حکومت نے فیصلہ کیا کہ اس بار ایک بڑی مقدار درآمد کی جائے۔ 100,000 ٹن کا ٹینڈر ظاہر کرتا ہے کہ حکومت چاہتی ہے کہ مارکیٹ میں خاطر خواہ ذخیرہ موجود ہو تاکہ کوئی تاجر یا مڈل مین مصنوعی قلت پیدا نہ کر سکے۔
قیمتوں پر اس فیصلے کے اثرات کئی عوامل پر منحصر ہوں گے۔ بین الاقوامی منڈی میں چینی کی قیمت اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی شرحِ تبادلہ یہ طے کرے گی کہ یہ درآمد کتنی مہنگی پڑے گی۔ اگر قیمتیں عالمی سطح پر نسبتاً کم رہیں تو پاکستان کو فائدہ ہوگا اور عوام تک یہ چینی سستی پہنچ سکے گی۔ تاہم اگر ڈالر مہنگا ہوا یا عالمی منڈی میں نرخ بڑھ گئے تو یہ بوجھ بالآخر عوام پر ہی پڑ سکتا ہے۔
یہ درآمد مقامی کسانوں اور شوگر مل مالکان کے لیے بھی ملے جلے اثرات رکھتی ہے۔ کسان چاہتے ہیں کہ ان کی گنے کی فصل اچھی قیمت پر خریدی جائے، جبکہ ملز مالکان چاہتے ہیں کہ ان کی چینی بہتر ریٹ پر فروخت ہو۔ اگر بیرونِ ملک سے سستی چینی آ جاتی ہے تو مقامی ملز کے لیے منافع کم ہو سکتا ہے۔ اسی لیے اکثر یہ اعتراض بھی اٹھایا جاتا ہے کہ درآمد کا فیصلہ ملز مالکان کے دباؤ یا ان کی عدم کارکردگی کو چھپانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ لیکن حکومت کا مؤقف یہ ہے کہ صارفین کو ریلیف دینا سب سے اہم ہے۔
TCP کا کردار اس سارے عمل میں کلیدی ہے۔ یہ ادارہ شفاف طریقے سے بین الاقوامی سطح پر ٹینڈر جاری کرتا ہے، بڈز وصول کرتا ہے اور کم از کم نرخ پر خریداری یقینی بناتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ قومی خزانے پر کم سے کم بوجھ ڈال کر زیادہ سے زیادہ فائدہ عوام کو منتقل کیا جائے۔ ماضی میں پاکستان نے کئی بار چینی درآمد کی لیکن اکثر شکایات رہیں کہ یا تو قیمت زیادہ ادا کی گئی یا شفافیت پر سوال اٹھے۔ اس بار حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ مکمل شفافیت کے ساتھ ٹینڈر ہوگا اور میڈیا کو بھی آگاہ رکھا جائے گا۔
عوام کے لیے سب سے اہم سوال یہی ہے کہ کیا اس درآمد کے بعد مارکیٹ میں چینی سستی ہوگی؟ اگر ہول سیل اور ریٹیل سطح پر قیمت کم نہ ہوئی تو اس ساری مشق کا مقصد فوت ہو جائے گا۔ ماضی میں دیکھا گیا کہ حکومت نے اربوں روپے کی سبسڈی دی لیکن ریلیف صارفین تک نہ پہنچ سکا۔ اس بار حکومت کو اس پہلو پر خصوصی نظر رکھنی ہوگی۔
تاہم اس عمل کے کئی خطرات اور چیلنجز بھی ہیں۔ ڈالر کی بڑھتی قیمت سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اگر ڈالر مہنگا ہوا تو درآمدی چینی کی لاگت بڑھ جائے گی۔ دوسرا خطرہ عالمی منڈی میں اتار چڑھاؤ ہے، جہاں چینی کی قیمت کسی بھی وقت بڑھ سکتی ہے۔ تیسرا مسئلہ ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ ہے، جو اکثر حکومتی اقدامات کو ناکام بنا دیتی ہے۔ اگر مؤثر مانیٹرنگ نہ کی گئی تو یہ چینی بھی مخصوص ہاتھوں میں سمٹ کر عوام تک مناسب نرخ پر نہیں پہنچے گی۔
اس صورتحال سے نکلنے کے لیے چند اقدامات ناگزیر ہیں۔ سب سے پہلے شفافیت کو یقینی بنایا جائے تاکہ ٹینڈر کے تمام مراحل عوام اور میڈیا کے سامنے ہوں۔ دوسرا، مارکیٹ مانیٹرنگ کو مضبوط کیا جائے تاکہ درآمد شدہ چینی براہِ راست ریٹیل سطح پر پہنچے۔ تیسرا، کسانوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے تاکہ ان کی محنت کا پھل انہیں صحیح نرخ پر ملے۔ چوتھا، ایک اسٹرٹیجک اسٹاک ہمیشہ حکومت کے پاس موجود ہو تاکہ اچانک بحران کی صورت میں مارکیٹ میں سپلائی جاری رکھی جا سکے۔
پاکستان کی جانب سے 100,000 ٹن سفید چینی کی بین الاقوامی بولی جاری کرنا بظاہر ایک تجارتی فیصلہ ہے، لیکن اس کے اثرات معیشت، زراعت اور عام صارف پر براہ راست مرتب ہوں گے۔ یہ اقدام تبھی کامیاب ہوگا جب عوامی سطح پر چینی کی قیمت میں حقیقی کمی نظر آئے۔ بصورتِ دیگر یہ درآمد صرف قومی خزانے پر بوجھ بنے گی اور عوام پھر بھی ریلیف سے محروم رہیں گے۔
آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ چینی صرف ایک میٹھی چیز نہیں بلکہ پاکستان کی معیشت اور سیاست کی سب سے "کڑوی حقیقت” ہے۔ یہ کبھی حکومتوں کو بچاتی ہے اور کبھی گراتی ہے۔