ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں انسان کی عزت، وقار اور ساکھ صرف ایک لمحے کی سوشل میڈیا پوسٹ پر منحصر ہو گئی ہے۔ کسی کی تصویر، ایک جملہ یا آدھی سچائی اگر انٹرنیٹ پر وائرل ہو جائے تو متاثرہ فرد کی ذاتی زندگی، خاندان اور مستقبل سب تباہ ہو سکتے ہیں۔ ماہرینِ نفسیات نے اس کیفیت کو ایک نیا نام دیا ہے سوشل میڈیا اینگزائٹی ڈس آرڈر یعنی Social Media Anxiety Disorder (SMAD)۔ عام فہم زبان میں اسے ہم ’’ڈیجیٹل اینگزائٹی‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا نفسیاتی دباؤ ہے جو مسلسل ٹرولنگ، فیک نیوز اور وائرل کلچر سے پیدا ہوتا ہے۔
ٹرولنگ اور اس کے اثرات
ٹرولنگ صرف تنقید نہیں بلکہ منظم انداز میں کسی کو ذلیل کرنا، بے بنیاد الزامات لگانا اور اس کی شخصیت کو مجروح کرنا ہے۔ Pew Research Center کی ایک تحقیق کے مطابق 41 فیصد سوشل میڈیا یوزرز نے اعتراف کیا ہے کہ وہ آن لائن ہراسانی یا ٹرولنگ کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ نوجوان، خواتین اور عوامی شخصیات شامل ہیں۔
یہ کیفیت صرف متاثرہ فرد تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس کے خاندان تک پھیلتی ہے۔ بچے اسکول میں طنز اور مذاق کا شکار ہوتے ہیں، شریکِ حیات کو سماجی دباؤ سہنا پڑتا ہے اور بزرگ والدین افسردگی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ گویا ایک پوسٹ یا وائرل ویڈیو صرف ایک شخص کو نہیں بلکہ پورے خاندان کے سکون کو برباد کر دیتی ہے۔
ذہنی تباہی اور SMAD کی وضاحت
سوشل میڈیا پر تضحیک کا شکار ہونے والا شخص اکثر ڈپریشن، اینگزائٹی ڈس آرڈر، سوشل فوبیا اور پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (PTSD) میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہی کیفیت اب ایک باقاعدہ اصطلاح کی شکل میں دنیا کے سامنے آئی ہے: Social Media Anxiety Disorder (SMAD)۔
ہارورڈ یونیورسٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق 74 فیصد نوجوانوں نے کہا کہ وہ اپنی ساکھ کے سوشل میڈیا پر متاثر ہونے کے خدشے کے باعث مستقل دباؤ میں رہتے ہیں۔ یہ مسلسل دباؤ ان کی نیند، اعتماد اور فیصلہ سازی کی صلاحیت کو تباہ کر دیتا ہے۔ امریکن سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن (APA) کے مطابق، آن لائن بدنامی یا "شیمنگ” کی شکار خواتین میں 65 فیصد کو نیند کے مسائل اور خوف کے دورے (panic attacks) لاحق ہوتے ہیں۔
فیملی سسٹم کی تباہی
سوشل میڈیا کے یہ حملے صرف فرد کی ذات کو متاثر نہیں کرتے بلکہ پورے فیملی سسٹم کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ جب کسی باپ پر کرپشن کا الزام وائرل ہوتا ہے یا کسی لڑکی کی جعلی ویڈیو پھیلتی ہےتو پورا خاندان "ڈیجیٹل کورٹ” میں مجرم بن جاتا ہے۔
پاکستان میں کئی کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جہاں ٹرولنگ اور بدنامی کے بعد شادیاں ٹوٹ گئیں، نوجوان ملازمت سے محروم ہو گئے اور بعض خاندان دیارِ غیر ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ FIA سائبر کرائم ونگ کے مطابق صرف 2023 میں 50 ہزار سے زائد شکایات آن لائن ہراسگی اور بلیک میلنگ کی موصول ہوئیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور نوجوان متاثرین تھے۔
اعداد و شمار اور حقائق
دنیا بھر میں 4.9 بلین لوگ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں، یعنی ہر دوسرا شخص اس خطرے کی زد میں ہے۔
یونیسف کے مطابق، ہر تیسرا نوجوان آن لائن بُلیئنگ کا شکار ہوا ہے۔
پاکستان میں ایک مقامی تحقیق میں بتایا گیا کہ سوشل میڈیا پر ہراسانی کا شکار 62 فیصد افراد نے کہا کہ ان کے خاندانی تعلقات شدید متاثر ہوئے۔
عالمی سطح پر Cyberbullying کے شکار نوجوانوں میں خودکشی کا خطرہ عام بچوں سے دوگنا زیادہ ہے۔
یہ اعداد و شمار اس بات کا ثبوت ہیں کہ ’’ڈیجیٹل اینگزائٹی‘‘ یا SMAD محض صرف ایک تعلیمی اصطلاح نہیں بلکہ ایک حقیقی وبا کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی ذمہ داری
سوال یہ ہے کہ ٹرولنگ اور بدنامی کا یہ سیلاب رکے گا کیسے؟ فیس بک، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک نے ’’کمیونٹی گائیڈ لائنز‘‘ تو ضرور بنا رکھی ہیں مگر ان پر عمل درآمد کمزور ہے۔ متاثرہ افراد کو اکثر مہینوں انتظار کرنا پڑتا ہے کہ کوئی جعلی ویڈیو یا پوسٹ ہٹائی جائے۔ اس دوران نقصان ناقابلِ تلافی ہو چکا ہوتا ہے۔
حل کی ہے ؟
1. ڈیجیٹل لٹریسی: عوام کو سکھانا ہوگا کہ کسی خبر کو بغیر تصدیق شیئر نہ کریں۔ ’’کلک کلچر‘‘ کے اس دور میں جھوٹی خبر کا پھیلاؤ سب سے بڑا ہتھیار ہے۔
2. قانونی اصلاحات: سائبر کرائم قوانین کو سخت اور مؤثر بنانا ہوگا تاکہ ٹرولنگ اور ہراسگی کرنے والوں کو فوری اور عبرتناک سزا ملے۔
3. نفسیاتی مدد: متاثرہ افراد کے لیے کونسلنگ مراکز اور ہیلپ لائنز قائم کی جائیں تاکہ وہ خاموشی میں گھٹنے کے بجائے مدد حاصل کر سکیں۔
4. فیملی سپورٹ: خاندان کے افراد متاثرہ شخص کا ساتھ دیں، اسے مزید تنہا نہ کریں۔ سوشل سپورٹ ہی اس اینگزائٹی کا سب سے بڑا علاج ہے۔
5. میڈیا کی ذمہ داری: اخبارات اور ٹی وی کو بھی وائرل مواد کو بغیر تصدیق نشر کرنے سے گریز کرنا ہوگا، کیونکہ وہ معاملے کو مزید بڑھا دیتے ہیں۔
آج کے دور میں انسان کا سب سے قیمتی سرمایہ صرف دولت نہیں بلکہ اس کی ’’ڈیجیٹل ریپوٹیشن‘‘ ہے۔ اگر یہ تباہ ہو جائے تو ذہنی سکون، سماجی تعلقات اور خاندانی نظام سب بکھر جاتے ہیں۔ Social Media Anxiety Disorder (SMAD) یعنی ’’ڈیجیٹل اینگزائٹی‘‘ اب ایک حقیقت بن چکی ہے۔ اگر ہم نے اسے سنجیدگی سے نہ لیا تو آنے والی نسلیں ایک ایسے معاشرے میں پروان چڑھیں گی جہاں ہر شخص سوشل میڈیا کے خوف کا قیدی ہوگا۔