کبھی علم کو روشنی اور سکون کا ذریعہ کہا جاتا تھا لیکن اکیسویں صدی میں یہی علم بوجھ، دباؤ اور بے چینی کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ آج ایک عام شخص صبح آنکھ کھولتے ہی موبائل فون پر جھکتا ہے اور لمحوں میں خبریں، سوشل میڈیا پوسٹس، اشتہارات، ویڈیوز اور میسجز اس پر یلغار کر دیتے ہیں۔ یہ کیفیت جسے ماہرین "انفارمیشن اوورلوڈ” (Information Overload) کہتے ہیں، انسانی دماغ کے لیے ایک نیا اور سنگین چیلنج ہے۔ معلومات کے اس شور میں اصل حقیقت کھو جاتی ہےاور ذہن فیصلہ سازی کی بنیادی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے۔
انفارمیشن اوورلوڈ کیا ہے؟
ماہرین نفسیات کے مطابق انفارمیشن اوورلوڈ اس حالت کو کہتے ہیں جب انسان کو اتنی زیادہ معلومات ایک ساتھ ملیں کہ دماغ ان سب کو پروسیس کرنے کے قابل نہ رہے۔ یہ کیفیت صرف ذہنی الجھن ہی پیدا نہیں کرتی بلکہ سچ اور جھوٹ، ضروری اور غیر ضروری میں فرق کرنے کی صلاحیت کو بھی شدید متاثر کرتی ہے۔ ہر نیا نوٹیفکیشن، ہر نئی خبر اور ہر وائرل ویڈیو انسان کے دماغ کو مسلسل تھکاتے ہیں۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے دور نے اس مسئلے کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔
عالمی تحقیق اور اعداد و شمار
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ آج کا انسان ایک دن میں اتنی معلومات اپنے دماغ میں ڈالتا ہے جتنی پانچ صدی پہلے کا انسان پوری زندگی میں بھی نہیں دیکھتا تھا۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی کے ایک مطالعے کے مطابق ایک فرد روزانہ اوسطاً 34 گیگا بائٹس معلومات کا سامنا کرتا ہےیعنی تقریباً ایک لاکھ الفاظ کے برابر۔ اس کا مطلب ہے لاکھوں الفاظ، تصاویر، ویڈیوز اور آڈیوز ہمارے دماغ پر دباؤ ڈال رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا انسانی دماغ اس بوجھ کو سہنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟
جواب ہے: نہیں۔ دماغ کی پروسیسنگ کی اپنی حدود ہیں۔ ہارورڈ بزنس ریویو اور دیگر تحقیقی رپورٹس بتاتی ہیں کہ ضرورت سے زیادہ معلومات فیصلہ سازی کو سست، کمزور اور بعض اوقات بالکل ناکارہ بنا دیتی ہیں۔
نفسیاتی اثرات
انفارمیشن اوورلوڈ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ انسان کو مستقل ذہنی دباؤ میں مبتلا کر دیتا ہے۔ بار بار خبروں کی بھرمار، بار بار سوشل میڈیا اسکرولنگ اور ہر اپ ڈیٹ کو دیکھنے کی عادت "فیصلہ کرنے کی صلاحیت” کو مفلوج کر دیتی ہے۔ ماہرین نے اسے Decision Fatigue (فیصلہ تھکن) کا نام دیا ہے۔ اس حالت میں انسان معمولی فیصلے بھی کرنے میں وقت ضائع کرتا ہے اور اکثر مایوسی، بے یقینی اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔
Baumeister اور Vohs کی تحقیق کے مطابق زیادہ فیصلے کرنے کے بعد دماغی توانائی کم ہو جاتی ہے اور فرد لاشعوری طور پر Default انتخاب یا غلط فیصلہ کرنے کی طرف مائل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انفارمیشن اوورلوڈ صرف معلوماتی دباؤ نہیں بلکہ نفسیاتی مسئلہ بھی ہے۔
پاکستانی تناظر
پاکستان جیسے ملک میں جہاں خبروں کی رفتار اور شدت غیرمعمولی ہے، یہ مسئلہ زیادہ سنگین صورت اختیار کر چکا ہے۔ ہر نیوز چینل ایک ہی واقعے کو بار بار "بریکنگ نیوز” کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ایک ہی خبر کے درجنوں ورژن ناظرین کو ذہنی طور پر تھکا دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کسی ایک واقعے پر سینکڑوں آراء ملتی ہیں، ہر صارف اپنی رائے کو "اصل حقیقت” قرار دیتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ قاری یا ناظر الجھن کا شکار ہو جاتا ہے کہ کس پر یقین کرے اور کس کو نظرانداز کرے۔
نوجوان نسل پر اثرات
انفارمیشن اوورلوڈ نے سب سے زیادہ نقصان نوجوانوں کو پہنچایا ہے۔ وہ ہر وقت نئے ٹرینڈز، وائرل ویڈیوز اور نیوز اپ ڈیٹس کے پیچھے دوڑتے رہتے ہیں۔ امتحانات کی تیاری ہو یا نوکری کی تلاش، ضرورت سے زیادہ معلومات ان کی Concentration (یکسوئی) کو ختم کر دیتی ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق ایسے نوجوان جو روزانہ پانچ گھنٹے سے زیادہ سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں، ان میں Anxiety (بے چینی) اور Sleep Disorder (نیند کی خرابی) کے امکانات 70 فیصد زیادہ ہوتے ہیں۔ بعض نوجوان ہر وقت "اپڈیٹڈ” رہنے کے جنون میں اصل زندگی کے مواقع کھو دیتے ہیں۔
خاندانی اور سماجی نتائج
یہ مسئلہ صرف فرد تک محدود نہیں رہا بلکہ خاندانی اور سماجی سطح پر بھی اثر ڈال رہا ہے۔ آج والدین اور بچے ایک دوسرے سے بات کرنے کے بجائے موبائل اسکرین پر مصروف رہتے ہیں۔ تعلقات کی جگہ "فارورڈ کیے گئے میسجز” نے لے لی ہے۔
امریکی سوشیالوجیکل ایسوسی ایشن کی ایک رپورٹ کے مطابق مسلسل انفارمیشن اوورلوڈ رشتوں میں Emotional Disconnect (جذباتی فاصلے) پیدا کرتا ہے۔ پاکستان میں بھی خاندانی نظام اسی دباؤ سے متاثر ہو رہا ہے، جہاں ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے افراد ایک دوسرے سے دور ہو رہے ہیں۔
ممکنہ حل
انفارمیشن اوورلوڈ سے بچنے کے لیے کچھ عملی اقدامات کیے جا سکتے ہیں:
خبریں اور سوشل میڈیا چیک کرنے کے لیے مخصوص وقت مقرر کیا جائے۔
غیر ضروری ایپس اور گروپس کو بلاک یا میوٹ کیا جائے۔
Digital Mindfulness (ڈیجیٹل مائنڈ فلنیس) اپنائی جائے، یعنی صرف وہی معلومات لی جائیں جو واقعی اہم ہوں۔
والدین بچوں کو یہ شعور دیں کہ وہ کس طرح "مفید” اور "غیرمفید” معلومات میں فرق کریں۔
میڈیا ادارے اپنی ذمہ داری محسوس کریں اور ہر خبر کو "بریکنگ” بنانے کے بجائے صرف مستند اور اہم معلومات فراہم کریں۔
انفارمیشن اوورلوڈ آج کے دور کا سب سے بڑا ذہنی اور نفسیاتی دباؤ ہے۔ انسان علم کا بھوکا ہےلیکن یہ بھوک اب ایک بوجھ میں بدل چکی ہے۔ اگر ہم نے معلومات کو فلٹر کرنا اور اپنی ترجیحات طے کرنا نہ سیکھا تو یہ بوجھ ہماری سوچ، ذہانت اور تعلقات سب کچھ دبا دے گا۔ یاد رکھنا ہوگا کہ زیادہ معلومات ہمیشہ زیادہ علم نہیں ہوتیں۔ اصل علم وہی ہے جو ذہن کو سکون دے اور زندگی کو سنوارے۔
حوالہ جات:
یہ کالم عالمی تحقیقی رپورٹس اور مستند کتب سے اخذ کردہ حقائق پر مبنی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے درج ذیل ماخذات ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔
1. Bohn, R. E., & Short, J. E. (2009). How much information? 2009 report on American consumers. University of California, San Diego.
Retrieved from https://hmi.ucsd.edu/howmuchinfo_research_report_consum.php
2. American Marketing Association. (2010, December 10). Americans consume 34 gigabytes of info daily.
Retrieved from https://www.marketingprofs.com/charts/2010/3315/americans-consume-34-gigabytes-of-info-daily
3. Baumeister, R. F., & Tierney, J. (2011). Willpower: Rediscovering the greatest human strength. Penguin Press.
4. Vohs, K. D., Baumeister, R. F., & Schmeichel, B. J. (2008). Decision fatigue: Making choices impairs subsequent self-control. Journal of Personality and Social Psychology, 94(6), 883–898. https://doi.org/10.1037/0022-3514.94.6.883
5. Schwartz, B. (2004). The paradox of choice: Why more is less. Harper Perennial.
6. Stone, L. (2007). Continuous partial attention. Harvard Business Review (Blog).
Retrieved from https://hbr.org/2007/03/continuous-partial-attention
7. Shenk, D. (1997). Data Smog: Surviving the information glut. HarperEdge.