خیبر پختونخواہ کے حسین پہاڑوں کے بیچ واقع ضلع بونیر میں ایک شادی کا گھر اچانک ماتم کدہ بن گیا۔ ڈھول کی تھاپ، خوشی کے گیت، قہقہے اور دعاؤں سے لبریز ماحول لمحوں میں چیخ و پکار اور نوحہ گری میں بدل گیا۔ خوشیوں سے بھرا ایک صحن صرف چند گھڑیوں کے اندر تاریخ کا سیاہ باب بن گیا۔
دھیرے دھیرے شام ڈھل رہی تھی، آسمان پر سیاہ بادل چھا رہے تھے اور لوگ اس خوشگوار تبدیلی سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ لیکن اچانک جیسے آسمان پھٹ پڑا۔ چند ہی منٹوں میں موسلا دھار بارش نے سب کچھ ڈھانپ لیا اور پہاڑوں سے اُترتا پانی سیلابی ریلے کی شکل میں گاؤں پر ٹوٹ پڑا۔ وہ گھر جہاں شادی کی خوشیاں منائی جا رہی تھیں، لمحوں میں موت کے مکاں میں بدل گیا۔ دلہا دلہن سمیت ایک ہی خاندان کے 24 افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مرنے والے سب ایک ہی خاندان کے تھے۔ دلہا اور دلہن کے خواب، ان کے والدین، بھائی بہنیں اور ننھے بچے—سبھی چند لمحوں میں سیلاب کے بے رحم پانی کا رزق بن گئے۔ مقامی رہائشیوں نے آنکھوں کے سامنے اپنے پیاروں کو ڈوبتے دیکھا مگر قدرتی آفت اتنی شدید تھی کہ کوئی کچھ نہ کر سکا۔
ماہرین کے مطابق یہ واقعہ "کلاؤڈ برسٹ” یعنی ایک ایسی بارش تھی جو مختصر وقت میں پانی کی غیر معمولی مقدار برسا دیتی ہے۔ پہاڑی علاقوں میں درختوں کے بے دریغ کٹاؤ نے زمین کو کمزور کر دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بارش کا پانی سنبھلنے کے بجائے تباہی مچاتا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں موسمیاتی تبدیلیاں تیز رفتاری سے اثر انداز ہو رہی ہیں، وہاں کلاؤڈ برسٹ اب ایک نئے خطرے کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔
مقامی ریسکیو اداروں اور رضاکاروں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر لاشیں نکالیں۔ حکومت نے حسبِ روایت چند لاکھ روپے کے امدادی چیکس کا اعلان کیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ رقم ان زخموں پر مرہم رکھ سکتی ہے جو آنے والی نسلوں تک رسیں گے؟
بونیر کا یہ سانحہ محض ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک وارننگ ہے۔ موسمیاتی تبدیلی اب صرف سائنسی اصطلاح نہیں رہی، یہ ہماری روزمرہ زندگی میں داخل ہو چکی ہے۔ اگر ہم نے جنگلات کے کٹاؤ کو نہ روکا، پہاڑوں کو یونہی اجاڑتے رہے اور ماحولیاتی پالیسیوں کو محض فائلوں میں قید رکھا تو یہ آفات بڑھتی رہیں گی۔ حکومتیں امداد بانٹتی رہیں گی اور ہم نئے سانحات پر ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔
یہ المیہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ فطرت کے ساتھ جنگ میں ہمیشہ انسان ہی ہارتا ہے۔