کل کی طرح آج بھی یہی سوال لوگوں کی زبان پر ہے کہ پولیو کے قطرے، کورونا کی ویکسین اور اب کینسر سے بچاؤ کی ویکسین کیا واقعی پاکستان اور اسلام کے خلاف کوئی سازش ہیں؟ عوامی ذہنوں میں یہ شبہات اس قدر گہرے بٹھا دیے گئے ہیں کہ ہر نئی ویکسین کے ساتھ ایک ہی جملہ گونجنے لگتا ہے کہ "یہ پاکستانی مسلم بچوں کو بانجھ بنانے کی عالمی سازش ہے”۔ لیکن اگر دماغ کا استعمال کرتے ہوئے تحقیق کر لی جائے تو تصویر کا دوسرا رُخ سامنے آتا ہے۔
پولیو ویکسین پچھلے تیس سال سے پاکستان میں دی جا رہی ہے۔ اگر یہ بانجھ پن کا باعث ہوتی تو آج ملک 25 کروڑ کی آبادی تک کبھی نہ پہنچتا موجودہ آبادی خود اس بات کی دلیل ہے کہ ویکسین بانجھ پن پیدا نہیں کر رہی۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں آبادی کنٹرول کرنے کے لیے کوئی مؤثر اسٹریٹجی موجود ہی نہیں، اسی لیے شرحِ پیدائش مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اگر ویکسین بانجھ پن پیدا کرتیں تو پاکستان کی آبادی خطے میں سب سے تیز رفتار سے نہ بڑھتی۔
دنیا کے دو سو سے زائد ممالک میں یہی پولیو کے قطرے دیے گئے اور وہاں کی نسلیں صحت مند ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہاں کے لوگ افواہوں کے پیچھے نہیں بھاگے۔ آج وہ ممالک پولیو فری ہیں، وہاں کے بچے معذوری سے محفوظ ہیں جبکہ پاکستان ان چند ممالک میں سے ہے جہاں یہ مرض اب بھی موجود ہے اور اس کی واحد وجہ بداعتمادی اور افواہیں ہیں۔ جب والدین بچے کو قطرے پلوانے سے انکار کر دیتے ہیں تو اس کا نقصان صرف ان کے بچے کو نہیں ہوتا بلکہ پورے محلے اور شہر تک پھیلنے والے وائرس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
پھر کورونا آیا تو دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں لاکھوں انسان لقمہ اجل بنے۔ پاکستان بھی اس وبا کی لپیٹ میں آیا۔ جب ویکسین سامنے آئی تو شرحِ اموات کم ہونا شروع ہوئی لیکن ہمارے ہاں پھر وہی سازش کا شور اٹھا۔ کورونا کو بھی "من گھڑت سازش” قرار دیا گیا اور ویکسین کو "مسلمانوں کی نسل کم کرنے کا منصوبہ” کہا گیا۔ حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ شرح اموات غیر مسلم ممالک میں کہیں زیادہ تھی۔ سعودی عرب، ترکی، ایران اور دیگر مسلم ممالک نے یہی ویکسین لگائی۔ وہاں نہ اسلام خطرے میں آیا، نہ نسلیں ختم ہوئیں بلکہ جانیں ضرور بچ گئیں۔
اب حکومت پاکستان نے بچیوں کے لیے کینسر سے بچاؤ کی ویکسین متعارف کرائی ہے۔ یہ HPV ویکسین ہے، جو دنیا کے ایک سو بیس سے زیادہ ممالک میں برسوں سے استعمال ہو رہی ہے۔ یہ ویکسین دراصل سرویکل کینسر (Cervical Cancer) سے بچاؤ کے لیے ہے جو خواتین میں سب سے زیادہ جان لیوا کینسرز میں شمار ہوتا ہے۔ پاکستان میں ہر سال اندازاً 5000 خواتین سرویکل کینسر کا شکار ہوتی ہیں اور ان میں سے 3000 خواتین کی موت اسی بیماری کی وجہ سے ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے خواتین سرویکل کینسر کی علامات پر تاخیر سے توجہ دیتی ہیں۔
حالانکہ یہ کینسر بروقت ویکسین کے ذریعے بڑی حد تک روکا جا سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارہ صحت نے 9 سے 14 سال کی بچیوں کے لیے اس ویکسین کو لازمی قرار دیا ہے۔ اس عمر میں لگائی جانے والی ویکسین سب سے مؤثر ثابت ہوتی ہے کیونکہ بچیوں کا مدافعتی نظام وائرس کے خلاف زیادہ طاقتور ردعمل دیتا ہے اور مستقبل میں شادی یا اولاد کے بعد بھی انہیں رحم کے کینسر سے محفوظ رکھتا ہے۔ یہی عالمی معیار اب پاکستان میں بھی اپنایا جا رہا ہے تاکہ خواتین کو ایک بڑی اور مہلک بیماری سے بچایا جا سکے۔
مگر یہاں پھر سازش کی گردان شروع ہو گئی۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ ویکسین واقعی بانجھ پن پیدا کرتی ہے تو کیا باقی دنیا کی آبادی رک گئی ہے؟ یا صرف پاکستانی بچیاں ہی اس ’’سازش‘‘ کا شکار ہوں گی؟
یہاں ضروری ہے کہ سادہ لفظوں میں سمجھا جائے کہ ویکسین ہے کیا۔ لیکن اس سے پہلے یہ سمجھیں کہ ایچ پی وی گروپ کا ایک وائرس ہے جو بے راہ روی کا شکار لوگوں میں مُسّے یا جینٹل وارٹس پیدا کرتا ہے۔ ڈاکٹروں کے بقول یہ وائرس سیکس ورکز سے شروع ہو کر بے راہ روی کا شکار مردوں اور پھر ان سے گھر گرہستی میں مصروف بچے پیدا کرتی ،پالتی ، معصوم اور شوہر کی وفا دار بیوی تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ وائرس جو مرد میں اتنا خطرناک نہیں مگر ایک معصوم عورت کو بچے دانی کے کینسر جیسے جان لیوا مرض میں مبتلا کرنے کا سبب بنتا ہے۔اب سمجھیں کہ ویکسین دراصل جسم کے مدافعتی نظام کو کسی مخصوص وائرس کے خلاف تیار کرتی ہے۔ یہ وائرس کے ایک کمزور یا غیر فعال حصے کو جسم میں داخل کر کے دفاعی نظام کو "ٹریننگ” دیتی ہے تاکہ جب اصل وائرس حملہ کرے تو جسم فوراً لڑ سکے۔ یہ ایک سائنسی طریقہ ہے جسے صدیوں کی تحقیق نے ثابت کیا ہے۔ اسی کے ذریعے چیچک جیسی خطرناک بیماری دنیا سے ختم ہو گئی جس نے کبھی لاکھوں جانیں نگلی تھیں۔
اسلام نے بھی علاج اور دوا لینے کی ترغیب دی ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "ہر مرض کی دوا ہے، پس جسے بیماری لاحق ہو وہ علاج کرے”۔ اسی تعلیم کی روشنی میں اسلامی ممالک کے علماء اور فقہا نے ویکسینیشن کو جائز قرار دیا ہے۔ پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل تک کہہ چکی ہے کہ پولیو اور دیگر ویکسینز شریعت کے خلاف نہیں بلکہ انسانی جان بچانے کا ذریعہ ہیں۔ پھر یہ سوال باقی رہ ہی نہیں جاتا کہ یہ اسلام کے خلاف سازش ہے۔
اصل مسئلہ بیماریوں کا نہیں بلکہ ہماری بداعتمادی اور افواہوں کا ہے۔ ہم دشمن کی سازش کو تو ہر جگہ دیکھ لیتے ہیں مگر اپنی جہالت اور لاعلمی کو سازش ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ بدقسمتی سے یہ افواہیں صرف پڑھے لکھے طبقے میں نہیں بلکہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی زور پکڑ لیتی ہیں، جہاں بغیر تحقیق کے ہر خبر وائرل کر دی جاتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایک ماں کے ذہن میں ذرا سا شک ڈال دیا جائے تو وہ اپنے بچے کو قطرے پلانے سے انکار کر دیتی ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ قطرے اس بچے کی زندگی بھر کی حفاظت کا سامان ہیں۔
ہمارے لیے سوچنے کا مقام یہ ہے کہ دنیا کے ممالک سائنسی ترقی اور صحت مند نسلوں کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں جبکہ ہم اب بھی قطرے پلانے یا نہ پلانے کے بحث میں الجھے ہوئے ہیں۔ دشمن اگر واقعی ہمیں کمزور کرنا چاہتا ہے تو اسے کسی خفیہ سازش کی ضرورت نہیں۔ ہماری اپنی جہالت ، لاعلمی، خوف ، دقیانوسی خیالات اور بے یقینی ہی سب سے بڑی سازش ہیں۔
پولیو، کورونا یا سرویکل کینسر کی ویکسینیشن پاکستان یا اسلام کے خلاف نہیں بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کو معذوری اور موت سے بچانے کا ذریعہ ہے۔ اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ کیا ہم افواہوں کے پیچھے بھاگتے رہیں گے اور بیماریوں کو اپنے گھروں میں جگہ دیتے رہیں گے؟ یا پھر علم، سچائی اور اعتماد کے ساتھ اپنی اور اپنی نسلوں کی حفاظت کریں ۔