شارٹ فلم مینیچرسٹ آف جوناگڑھ میں ایک ایسے خاندان کااحوال دکھایا گیا ہے جو تقسیم ہند کے بعد اپنا آبائی گھر چھوڑ کر پاکستان منتقل ہو رہا ہے۔تقسیم کے دوران وہ جتنا عرصہ ہندوستان میں رہے کس طرح کے مسائل سے دوچارہوئے،ان مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے۔ملک میں ہونے والے دنگے فساد سے متعلق بتایا گیا ہے۔سب سے اہم اپنے آبائی گھر سے جذباتی وابستگی کو بہت خوبصورت انداز میں فلمایا گیا ہے۔فلم میں ایک عام بھارتی ہندو کی مسلمانوں سے متعلق نفرت اور ہمدردی کے ملے جلے تاثرات کابھی احاطہ کیا گیاہے،فلم میں موسیقی کی دل نشینی سے متعلق بھی بات کی گئی ہے،ایک ہی جملے میں برطانوی حکومت پر بڑی دلچسپ تنقید کی گئی ہے۔اس فلم کے ذریعےان تمام معاملات پر بات کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔میں نے اس فلم سے اپناگھر چھوڑنے کادکھ بڑی شدت سے محسوس کیا ،چائے کے کپ کےآخری گھونٹ کو آخری لمحےمیں جس طرح دکھایاگیاوہ یقیناًکسی کی یاس کی نشاندہی کرتاہے۔
یہ تقسیم ہندوستان کے کچھ ماہ بعد کی کہانی معلوم ہوتی ہے،سیٹنگ اور ڈریسنگ سے محسوس ہوتا ہے یہ اکتوبر یانومبر 1947 کا دور ہے۔ نوابی ریاست جوناگڑھ پر فلمائی گئی ہے۔
فلم ایک ایسے مصور سے شروع ہوتی ہے جواس فن کے بدلے اپنی آنکھیں کھو چکاہے۔ملک کی تقسیم کے بعدگھرسامان سمیت فروخت کردیا گیاہے۔گھر کا خریدار کاغذات بنوا کر ان پر سائن کروانے آتا ہےجسےقدامت پسند ہندودکھایا گیاہے۔یہاں تک کہ وہ ایک مسلمان گھرانے سے پانی پینا بھی پسند نہیں کرتااور ماس مچھلی سے اظہار نفرین کرتاہے۔اس سے قبل اس کا تانگے والے سے سلوک بھی ہتک آمیز اورنفرت انگیز ہوتاہے۔اس کے انداز سے مسلم حکمرانوں سے نفرت بھی صاف نظرآتی ہے۔فلم میں مصورکی بیٹی باپ کے فن کی گرویدہ نظرآتی ہے لیکن حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کرباپ کے فن پارے بیچ چکی ہے۔مصورکی بیوی گھروسامان سمیت بیچنے کے بعد کافی رنجیدہ ہے۔کاغذات کی جانچ پڑتال سختی سے کرتی ہے۔اس دوران موسیقی کی آواز سن کر گھرکاخریدار کمرے میں کھنچا چلا آتا ہے۔مصور کی بیوی کاغذات پر سائن کروانے اندر آتی ہے تو خریدار کودیکھ کرسٹپٹا جاتی ہے۔مصور سے کہتی ہے ،سائن کردیجیے انہیں دکان پربھی جاناہے۔اسی دوران موسیقی اور مصوری کی بات چھڑتی ہے اور خریدارکو فن پارے دکھانےتک جا پہنچتی ہے۔کیونکہ فن پارے موجود نہیں ہیں،اس لئے خاتون جان بوجھ کرسیاہی کاغذات پرگراکر خریدار کوناراض کردیتی ہے۔خریدارکو اس بات کااندازہ ہوجاتاہے کہ سیاہی جان بوجھ کرگرائی گئی تھی۔وہ کاغذات دوبارہ لے کر آتاہےتو مصور کی بیٹی دروازے پرملتی ہے،وہ چاہتی ہے کہ دستخط کرواکراسے دروازےسے ہی پلٹادے۔لیکن وہ پینٹنگ بھی رکھناچاہتاہے لڑکی اسے حلفاًبتاتی ہے کہ کوئی پینٹنگ ان کے پاس نہیں ہے۔خریدارکو گھر میں بٹھا دیاجاتاہے،مصور اپنا باکس کھولتا ہے اور اسے پینٹنگ کے ذریعے میدان جنگ کا نقشہ سمجھانے کی سعی کرتا ہے۔خریدار خالی کاغذ وں پر نظردوڑاتاہے اورخاموش رہتاہے۔مصور کو لگتا ہے شاید پینٹنگ پسند نہیں آئی،وہ خود اپنی پینٹنگ کو چھونے لگتا ہے تو خریدار بولتا ہےپینٹنگ دیکھ کرمجھے تو چپ لگ گئی ہے،اس کرشمے کے سامنے زبان خاموش ہے۔مصور خوشی سے پھولے نہیں سماتا۔لڑکی اس کا شکریہ ادا کرتی ہے۔مصورکاخاندان اس امید پر گھر چھوڑ جاتا ہے کہ حالات بہتر ہونے پر واپس آیا گا۔مصور کوخودیہ امید ہے کہ وہ اس گھر کودوبارہ خرید لے گا،جس کیلئے وہ اپنی جان سے بھی پیاری پینٹنگ پیشگی کے طور پر چھوڑ جاتا ہے۔
کہتے ہیں مصور تسلیم ہی اسے کیا جاتاتھا جو اس فن میں اپنی آنکھیں گنوا دے۔ایسا ہی کچھ حسین نقاش کے ساتھ ہوتا ہے وہ اپنے فن میں ایسا مگن ہوا کہ آنکھیں تو گنوا لیں لیکن شعور کی آنکھوں سے دیکھنے لگا۔فلم کا کلائمکس ہی اس فلم کی جان ہے،نور کا یہ کہنا کہ ابا کی پینٹنگ بیچی اور سلامتی خرید لی اس دور کی تلخ حقیقت کو آشکار کرگیا۔اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ تقسیم ملک کے وقت لوگوں نے کس قسم کے حالات کا سامنا کیا۔29منٹ کی اس فلم میں ہندوستانی سماج،سیاست،مسلم کلچر،ہندو رہن سہن ،برطانیہ کی ڈیوائڈاینڈ رول(Divide and rule)پالیسی ،آبائی گھر سے وابستگی،اپنےشہر سے محبت،اپنوں کاغم اور واپس پلٹ آنے کی امید کواس خوبصورتی سے پیش کیا گیا کوزے میں دریا بندکرنے کی مثال اس پر صادق آتی ہے