شاعر یا ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔جو نہیں ہوتا اسے زیادہ داد ملتی ہے کیونکہ اس کا کلام سننے والوں کو بھی بھلا کہاں اوزان کا علم ہوتا ہے۔ وسیم عباس کے بارے میں ہمیں آج تک معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ شاعر ہے یا نہیں۔شعر کہنے کا فارمولا اس نے بھی وہی اپنا رکھا ہے جو ہم نے اپنایا ہے البتہ اس کا گلا ہم سے زیادہ صاف ہے لہذا اکثر اٹکے بنا آگے نکل جاتا ہے۔شاعری بہتر بنانے کے لئے باقاعدگی سے مشق کرتا ہے۔ اسی لئے روز صبح اٹھ کر دو گھنٹے مٹکے میں منہ ڈال کر شعر کا ردھم ٹھیک کرتا ہے۔ ایک مشاعرے میں وسیم عباس ٹھسے سے بیٹھا شعر کہ رہا تھا ۔ ساتھ بیٹھے عروضی نے فورا ہی ٹوک دیا۔ ارے بھیا آپ کے مصرعہ کا”ر“ گر گیا ہے۔ واہ واہ کے شور میں وسیم عباس نے مڑ کر اسے دیکھا اور کہنے لگا: صاحب خود اٹھا کر جوڑ لیں میں اگلا مصرعہ سنانے میں مصروف ہوں۔بس تب سے یہ بندہ کچھ نہ کچھ گرا رہا ہے اور وہ عروضی صاحب اٹھائے چلے جا رہے ہیں۔ اپنی شاعری سے دنیا کو آگ لگانے کا عزم رکھتا ہے۔ اسی لئے شاعروں کو اپنی غزل سنا کر بھاگ جاتا ہے۔ہر روز ایسے دو شکار اس کے ہاتھ لگ ہی جاتے ہیں۔ اندازہ لگا لیں کہ کتنی آگ لگا رہا ہے
ہمارے یہاں شاعروں کی شہرت مشاعروں سے زیادہ فیس بک پر نظر آتی ہے۔ اس مقابلہ میں خواتین شاعرات کافی آگے ہیں۔ شاعر بیچارہ اپنی غزل یا نظم لکھ کر اپ لوڈ کرتا ہے تو کوئی اسے گھاس تک نہیں ڈالتا۔ دوسری جانب شاعرہ کا کلام اکثرکوئی نہ کوئی خدائی مددگار ٹائپ بھائی باقاعدہ ڈیزائن بنا کر اپ لوڈ کرتا نظر آتا ہے۔ جس کے ساتھ لکھا ہوتا ہے کہ اپنی پیاری سی بہنا کے لئے۔ خدا جانے ایسی بہنیں شاعروں کو کیوں نہیں ملتیں۔ اس لحاظ وسیم عباس ٹو ان ون ہے یعنی یہ اپنی ہی بہن یا بھائی بھی ہے۔ یہ پیشہ ور ڈیزائنر ہے لہذا اپنی شاعری خود ہی ڈیزائن کرکے اپ لوڈ کرتاہیاور شریکوں کے سینے پر شعر دلتا ہے ۔ قاصد کے مطابق کئی نامور شاعرات کی ”شہرت“ کے پیچھے بھی اسی کا ہاتھ ہے ۔ شہر میں لوگوں کے معاشقے چلتے ہیں جبکہ اس کے ڈیزائن چلتے ہیں۔ میرے کالم کا لوگو بھی اسی نے ڈیزائن کیا تھا۔ پہلی بار اس لوگو کے ساتھ کالم چھپا تو مٹھائی کا ڈبہ لے کر اس کے گھر چلاگیا، یہ ظالم دیکھتے ہی کہنے لگا: شاہ جی!کالم چھپنے کی مبارک باد قبول کریں لیکن خدارا کسی کو یہ نہ بتانا کہ لوگو میں نے بنا کر دیا تھا۔
وسیم عباس میرا بہت اچھا دوست ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے پہلے مجموعہ کلام میں میری رائے بھی شامل تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنے اس مجموعہ کلام کو چھپاتا پھرتا ہے۔ کہتا ہے ایک وقت میں یا میرا جھوٹ پڑھا جا سکتا ہے یا تمہارا۔ شاعرات کا خاص خیال رکھتا ہے۔ ایک دن ایک میک اپ زدہ شاعرہ کو کہنے لگا: محترمہ نقاب ہمارے کلچر اور مذہب کا حصہ ہے لیکن نقاب کی جتنی پابندی آپ کرتی ہیں اسے زیادتی کہتے ہیں۔ محترمہ پہلے تو حیران ہوئیں پھر بیگ سے آئنہ نکال کر اپنا میک اپ ٹھیک کیا اور کہنے لگیں۔ میں نے کب نقاب کیا ہے۔ معصومیت سے کہنے لگا: جتنا آپ میک اپ کر کے آ جاتی ہیں یہ بھی نقاب ہی ہے۔ ایک سال ہو گیا مجھے آج تک آپ کا اصل چہرہ دیکھنے کا اعزاز حاصل نہیں ہوا۔۔ نجومی ہاتھ پڑھتے ہیں۔ یہ چونکہ شاعر ہے لہذا چہرے پڑھتا ہے۔ اس معاملے میں بھی اس نے سپیشلائزیزیشن کر رکھی ہے۔ کہتا ہے میں صرف خواتین کا چہرہ پڑھ سکتا ہوں۔
صحت سے صحت مند ہی لگتا ہے۔ کسی سے لڑائی ہو تو اس کا قیمہ بنا سکتا ہے۔ شاید اسی لئے دوست ملنے جائیں تو انہیں بھی قیمے والے نان کھلاتا ہے۔ ہمارے دوست ب المعروف شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ یہ بندہ اگر امریکا میں ہوتا تو ڈونلڈ ٹرمپ کے پوسٹر پر انتخابی نشان کی جگہ اسی کی تصویر لگتی۔ مشاعروں میں داد کا مقابلہ داد سے جیتتا ہے۔ اس مقصد کے لیے گلے کی خراش والی گولیوں کا پتہ جیب میں رکھتا ہے۔ دوستوں کا اتنا خیال رکھتا ہے کہ اگر مشاعرہی طول پکڑ جائے تو سب کو ایک ایک گولی سٹیپسل دیتا ہے۔۔ ریسٹورنٹس کے لئے مفت ڈیزائن بناتا ہے اور بدلے میں وہاں دوستوں کے ساتھ مفت میں شام مناتا ہے۔ ویسے تو یہ شکل سے مرد ہی لگتا ہے لیکن لیز کھانے کے مقابلے میں لڑکیوں سے آگے ہے۔لیز کمپنی کو سب سے بڑا نقصان اس دن ہو گا جب یہ لیز کھانا چھوڑ دے گا۔ عین ممکن ہے اس روز کمپنی دیوالیہ ہونے کا اعلان کر دے۔شور شرابے سے بچتا ہے لہذا فلم بھی آواز بند کر کے دیکھتا ہے۔ گروپ سیلفی میں 20 افراد کو سمونا اسی کا ہنر ہے حالانکہ عام طور پر کیمرہ مین اس کے ساتھ دوسرا بندہ دیکھ کر کہ دیتے ہیں کہ الگ الگ فوٹو بنا کر بعد میں جوڑ لیں گے۔ وسیم عباس بڑے دل کا مالک ہے۔ اس لئے کئی لڑکیوں کو یہیں رہائش دے رکھی ہے۔ کہتا ہے بیچاریاں جانے کہاں کہاں کی خاک چھانتی رہتیں۔کمزور لڑکیاں اسے قطعا پسند نہیں ہیں لہذا انہیں پردے کی سہولت کے ساتھ چند ماہ میں صحت مند ہونے کا خفیہ فارمولا بتانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔شادی کو فضول کام سمجھتا ہے۔ اکثر کہتا ہے کہ دیکھو میں نے شادی نہیں کی پھر بھی خوش ہوں۔ ایسے ہر موقع پرہمارے دوست ”ب“ المعروف شاہ صاحب جل کر جواب دیتے ہیں کہ شادی نہیں کی اسی لئے خوش ہو۔خود کو ازلی کنوارہ قرار دیتا ہے۔ اسی لئے مردوں کو جوان بنانے والے حکیم سلیم اختر المعروف شیروں والے حکیم صاحب تک اس کی شرافت کی گواہی دینے پر مجبور ہیں۔ غالبا اس گواہی سے ہی ان کی کاروباری ساکھ خراب ہوئی ہے۔
وسیم عباس نے زندگی میں کئی اچھے کام کئے ہیں۔ ان میں سرفہرست اپنی 5 کتابوں کا آگ لگانا بھی شامل ہے۔ پہلے اسے سپورٹس رائیٹر بننے کا شوق تھا۔اس نے سپورٹس پر پانچ کتابیں بھی لکھ دیں۔ اس کے بعد ان کتابوں کو آگ لگائی اور شاعر بن بیٹھا لیکن شاعری کے پہلے مجموعہ کلام کے بعد ہی اسے سبق مل گیا۔ لاہور کے اکثر مشاعروں میں اسے لازمی بلایا جاتا ہے ورنہ منتظمین کو دعوت نامے ڈیزائن کروانے کے لئے جیب سے رقم خرچ کرنا پڑتی ہے۔ لوگ گاڑیوں میں ٹریکر اور الارمنگ لاک لگواتے ہیں، اس نے اپنے کیمرے کو لگوا رکھا ہے۔ محلہ کی آنٹیاں اسے ابھی تک ببلو سمجھتی ہیں اور وہی سلوک کرتی ہیں جو ببلو کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ وسیم عباس خود کو پروفیشنل ڈیزائنر کہلواتا ہے۔ شاہ صاحب کو البتہ لفظ ”پروفیشنل“ پر اعتراض ہے۔
محبت وسیم عباس کا مسئلہ ہے البتہ جس سے یہ محبت کرتا ہے اس کے لئے وسیم عباس مسئلہ ہے۔ اس کے بھیجے گئے ایک کرتے کی جتنی تشہیر کر چکا ہے اتنی کسی برانڈ کی کرتا تو برانڈ ایمبیسیٹرڈ بن چکا ہوتا۔وسیم عباس کی شخصیت میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہ سب کا لحاظ کرتا ہے لہذا باقی سب بھی اس کا لحاظ ہی کرتے ہیں ۔ ہم نے اسے ہمیشہ دوستوں کی محفل میں قہقہے بکھیرتے دیکھا ہے۔ بزرگوں سے جھک کر ملتا ہے۔اسے کئی بار کہا ہے کہ اگر اتنی عاجزی سے ملنا ہو تو لائن میں سب سے آخر میں کھڑے ہوا کرو۔ پہلے دوسروں کو ملنے کا موقع دیا کرو لیکن یہ ہر بار سب پر سبقت لے جاتا ہے۔ ہمارے لئے یہ خبر تو اتنی بڑی نہیں کہ جوبائیڈن امریکی صدر بن گیا لیکن یہ واقعی بریکنگ نیوز ہو گی کہ کوئی دوست وسیم عباس سے ناراض ہو گیا۔
ڈیزائنوں والا شاعر۔۔ وسیم عباس
کچھ صاحب تحریر کے بارے میں
اس پوسٹ پر تبصرہ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ سروس کی شرائط سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ ایک تحریری معاہدہ ہے جو اس وقت واپس لیا جا سکتا ہے جب آپ اس ویب سائٹ کے کسی بھی حصے کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کرتے ہیں۔