ایڈیٹر : سید بدر سعید

ایڈیٹر : سید بدر سعید

فریڈرک نطشے کی کتاب ماروائے خیر و شر، ایک تجزیہ

شیطان سے لڑتے ہوئے ہمیشہ محتاط رہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ بھی ایک شیطان بن جائیں”۔ کچھ مہینے پہلے جب یہ جملہ میرے سامنے آیا تو میرا تجسس مجھے اس کے لکھاری کے قریب لے گیا۔ یہ انیسویں صدی کے نام وَر جرمن مصنّف، فلسفی اور دانش ور کی کتاب’Beyond Good And Evil‘‘ سے اقتباس ہے۔ نطشے کا شمار میرے پسندیدہ یورپین مفکرین میں سے ہوتا ہے ۔ مگر کبھی کبھی کے اقتباس کے علاؤہ انہیں مکمل طور پر پڑھنے کا موقع نہیں ملا۔ غم روزگار کہہ لیں یا غم جاناں ۔ فلسفہ کبھی کبھی میں پوسٹ میں اچھا لگتا ہے مگر مکمل کتاب بہت کم ہی پڑھی ہے ۔یعنی سالانہ ایک آدھ فلسفیانہ کتاب۔ یا پھر علم سیاسیات میں پہلے گریجویشن اور پھر پوسٹ گریجویشن میں مفکرین کو پانچ چھ سال اتنا پڑھ لیا تھا کہ آگے حسرت ہی نہ رہی ۔

تاہم کچھ مہینے پہلے جب یہ جملہ دوبارہ پڑھا اور اسکی گہرائی میں اتری تو اس کے بعد اگلا مرحلہ اس کتاب کے مکمل مطالعہ کا تھا۔ اُردو یا انگریزی زبانوں میں سے کسی ایک زبان کا انتخاب کرنے کی بجائے براہ راست انگریزی میں پڑھنے کا فیصلہ کیا اگرچہ یوں تو کئی لوگوں نے اس کے اردو تراجم کیے ہیں مگر دوستو نے بک ہوم سے شائع ہونے والا ریاض محمود انجم کا ترجمہ زیادہ رواں قرار دیا ہے اگرچہ وہ میرے مطالعے میں شامل نہیں ہے ۔ تاہم اس مضمون کا ماخذ انگریزی کتاب ہے۔

یہ کتاب پہلی مرتبہ 1886ء میں شائع ہوئی تھی۔ نطشے نے 9 مختلف عنوانات، فلسفیوں کے تعصبات، آزاد فطرت انسان، مذہب کیا ہے؟، نکتہ آفرینیاں اور وقفے، اخلاقیات کی طبعی تاریخ، اہم علماء و فضلا، ہماری صلاحیتیں، لوگ اور اوطان اور اشرافیہ کیا ہے؟ کے پس منظر میں اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کیا ہے۔

نطشے لکھتا ہے کہ جو بھی شیطانوں سے لڑتا ہے اسے اپنے ہوش و حواس پر پورا قابو رکھنا چاہیے تاکہ وہ بدلے میں شیطان نہ بن جائے۔ کیوں کہ جب آپ گہرائی تاریکیوں میں تادیر جھانکتے رہتے ہیں، تو اس وقت ان سیاہ تاریکیوں کی نظریں بھی آپ پر مرکوز ہوتی ہیں، اسی دوران ایک لمحہ ایسا آتا ہے کہ یہ تاریکیاں پوری طاقت کے ساتھ آپ پر حملہ آور ہو جاتی ہیں اور آپ کے
رگ و پے میں سرایت کر کے آپ کو اپنا مطیع بنا لیتی ہیں ، آپ نے ان لمحات میں ثابت قدم رہنا ہے ۔

اس جملے نے مجھے چونکا دیا تھا کیونکہ میں خود ان جیسے حالات سے گزرتی رہتی ہوں کہ مسلسل منفی سوچیں حملہ آور ہو جائیں تو پھر آپ خود اس منفیت کے دائرے میں داخل ہو کر خود کو ، اپنے اندر کی اچھائیوں کو کھو بیٹھتے ہیں ۔میں نے اپنے ساتھ بیتے ہوئے تلخ اور تاریک لمحوں کا موازنہ کیا تو یہ بات سمجھنا زیادہ آسان ہو گیا کہ جب بھی میں کسی مشکل وقت سے نبرد آزما ہوتی ہوں تو اپنے آپ سے ایک سوال ضرور پوچھتی ہوں جس کا جواب ہمیشہ میرے لیے اہم رہا ہے، کہ جب جب میں نے تاریک حالات، واقعات، انسانوں اور آفات کا سامنا کیا ہے ، اس وقت میرا ردعمل کیا تھا، کیا انہوں نے مجھے شیطان بنایا یا میرے مزید لڑنے کا حوصلہ پروان چڑھایا ؟

یاد رکھئیے کہ جب آپ کے اردگرد کی ہر چیز آپ کو ایک خبیث عفریت بنانے پر تُل جاتی ہے تو اس وقت میں آپ کی بہادری یہی ہے کہ آپ اپنے دل کو پاکیزہ اور اپنے اندر بسی ہوئی اخلاقی اقدار کو برقرار رکھیں، اس سے زیادہ آپ نے کچھ نہیں کرنا اور پھر آپ اس سے نکل جاتے ہیں ۔ ظاہر ہے ہمیں خدا اور شیطان میں سے کسی ایک کا ہی انتخاب کرنا ہوتا ہے ، ان دو انتہاؤں کے علاؤہ کرہ ارض پر کوئی تیسری انتہا موجود نہیں ہے ۔

نطشے نے’’ نظریہ فوق البشر‘‘ کے تحت مردِ آہن یا سُپر مین کا نظریہ پیش کیا تھا کہ وہ انسانی معاملات میں طاقت کو بہت اہمیت دیتے تھے۔تب ہی جب علّامہ اقبال نے مردِ مومن کا نظریہ پیش کیا، تو اُن پر نطشے کی نقّالی کا الزام لگایا گیا، حالاں کہ دونوں کے تصوّرات میں بہت زیادہ فرق آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔اقبال نے اُسے’’ مجذوبِ فرنگی‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا،” اُس کا دل مومن اور دماغ کافر تھا۔”

میرا موضوع اقبال یا نطشے کا تقابلی جائزہ لینا نہیں چاہتا ہے بلکہ نطشے کی کتاب ’’Beyond Good And Evil‘‘ پر بات کرنا ہے، اس میں جن پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے ان کے بارے میں بات کرنی ہے ۔ کتاب کا تنقیدی جائزہ بھی نہیں لینا کیونکہ کتاب یاترا میں تنقید نہیں محسوسات شامل ہیں ۔ ایک وقت آتا ہے جب عمر بھر کی تلخیاں ہم پر وارد ہو جاتی ہیں اور ہم اپنے ساتھ کیے گیے کرم اور اچھائیوں کو یکسر بھلا دیتے ہیں جبکہ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جو ہمارے لیے بہترین اور مفید زندگی کا تعین کر سکتا ہے ۔

کتاب کے شروع کے باب میں ہی نطشے حال اور ماضی کے فلسفیوں پر تنقید کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ وہ اس بات کی تصدیق بھی کرتا ہے کہ فلسفی ہر چیز پر شک کرنے کا بہانہ تلاش کرتے ہیں، لیکن اپنے نقطہ نظر کا اظہار کرتے ہوئے وہ اکثر تعصبات کا مظاہرہ کر جاتے ہیں ۔اس نے فلسفیوں میں ایمانداری کے فقدان کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ ان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ اپنے نظریات اور عقائد کو آگے لانے کے لیے کوئی بھی طریقہ اختیار کرتے ہیں۔

وہ روایتی فلسفیوں کو سچائی کے پیچھے بھاگنے پر اس طرح مسترد کرتا ہے جیسے وہ ایک عورت ہو (ایک ایسا نقطہ نظر جو اس وقت بہت عام سیکسسٹ تصور کی عکاسی کرتا ہے)۔ نطشے، اپنی طرف سے، اپنے آپ کو "نئے” فلسفیوں میں سے ایک ہونے پر فخر کرتا ہے، جو تجویز کرتے ہیں کہ روایتی اقدار ان کے مخالفوں سے قریبی تعلق رکھتی ہیں۔

دوسرے باب میں وہ آزاد روح کے بارے میں بات کرتا ہے۔ آزاد روحیں یہ، نطشے کے نزدیک، ماضی کے فلسفے کے تعصبات سے آزاد ہوتی ہیں، لیکن وہ ابھی تک مستقبل کے فلسفی نہیں ہیں۔ وہ مستقبل کے فلسفے کے علمبردار اور پیش رو ہیں۔ وہ سمجھتا ہے کہ ایک ایسی دنیا جہاں سچائیاں اور عالمگیر قدریں زوال پذیر ہوتی ہیں اور اچھے اور برے میں تمیز کرنا مشکل ہوتا ہے، ایک آزاد روح ماضی کے فلسفیوں کے تعصبات اور روایتی سچائیوں پر قابو پا کر اپنی زندگی سے جھوٹ کو الگ کرنے اور ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے اور ذاتی تصورات کو پیچھے چھوڑ دیتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ آفاقی اور مطلق سچائیوں کو تلاش کرنا مشکل ہے، اور بعض اوقات جھوٹ کو تلاش کرنا آسان ہوتا ہے مگر بعض اوقات جھوٹ بھی سچائی کی طرف لے جا سکتا ہے۔ روایتی فلسفہ اور مستقبل کا فلسفہ ان پہلے دو ابواب کے بنیادی موضوعات ہیں۔

تیسرے باب میں نطشے نے اس حقیقت پر تنقید کی ہے کہ مذہب انسان کو اطمینان فراہم کرتا ہے، جس سے وہ کسی بھی صورت حال کو قبول کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے، کیونکہ یہ دل کو سکون اور امن فراہم کرتا ہے اور لوگوں کو غلام بناتا ہے اور اپنے ساتھی انسان سے محبت کرتا ہے۔ تاہم، نطشے کا دعویٰ ہے کہ مذہب سے یہ لگاؤ انہیں آفاقی سچائیوں سے پردہ اٹھانے کے لیے بے کار بنا دیتا ہے۔ اس تناظر میں اگر ہم پاکستان کی مذہبی اشرافیہ کے کردار کو دیکھیں تو ہمارے ہاں غربت کو فینٹسی بنا کر پیش کیا جاتا ہے کہ دنیا کے مصائب ہنستے ہوئے برداشت کر لو آگے جنت ملے گی۔ میرے پاس نطشے کے اس نظریے کو رد کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے کیونکہ میرے معاشرے میں جہالت کی وجہ مذہب کے نام پر پابندیاں ہی ہیں ۔

چوتھا مختلف موضوعات پر ایک یا دو سطروں کے خیالات پر مبنی ہے۔ ان میں زیادہ تر نفسیاتی مسائل ہیں، جیسے کہ انسان کی اندرونی کشمکش۔ نطشے نے ذکر کیا ہے کہ جب آدمی کو لڑنے کے لیے کچھ نہیں ملتا تو اس کے اندر اندرونی کشمکش شروع ہو جاتی ہے، جس سے عقائد، اقدار اور اخلاقیات جنم لیتے ہیں۔ وہ سمجھتا ہے کہ اخلاقیات کا کوئی وجود نہیں ہے، بلکہ ایک ایسا طریقہ ہے جس میں ہم دنیا کو دیکھنا چاہتے ہیں، جو ہماری اندرونی خواہشات سے متاثر ہے۔

جبکہ پانچواں باب مشتمل ہی اخلاقیات کے موضوع پر ہے۔ نطشے نے ذکر کیا ہے کہ پوری تاریخ میں مختلف اخلاقی دور رہے ہیں اور یہ وقت کے ساتھ ساتھ اور حالات کے مطابق بدلتے رہے ہیں۔ مرضی اور طاقت مختلف ادوار میں اخلاقیات کو تبدیل کرتی ہے، مطلب یہ ہے کہ جو کچھ ہم آج سچ سمجھتے ہیں وہ کچھ سالوں بعد غلط ہو سکتا ہے۔ اقتدار پر قبضہ حکومت اور فلسفیوں کو سچائی اور اخلاقیات کے سانچے میں ڈھالنے کے قابل بناتا ہے۔

نطشے اس حقیقت پر تنقید کرتا ہے کہ فلسفی اپنی اخلاقیات کو مسلط کرنا چاہتے ہیں اور یہ تبصرہ کرتے ہیں کہ اس تصور پر سوالیہ نشان ہونا چاہیے اور اس کا جواز ہونا چاہیے۔ یہ اخلاقیات کو مصنوعی ہونے کا سبب بنتا ہے۔ بعد میں، وہ ان چیزوں کے بارے میں لوگوں کے تاثرات پر بحث کرتا ہے جو قابل عمل ہیں اور ان چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے کیا ضرورت ہوتی ہے، جو ہر شخص میں مختلف ہوتی ہیں۔ آخر میں، وہ یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ اخلاقیات بنیادی طور پر خوف پر مبنی ہوتے ہیں اور ہمیں جارحانہ یا انتہائی زندہ دل لوگوں سے دور رکھنے کے لیے بنائے گئے ہے جنہیں کمیونٹی میں ایک خطرہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

فریڈرک نطشے کے نظریات کو آپ ان مندرجہ ذیل کتابوں کے ذریعے سمجھ سکتے ہیں جن کے اردو تراجم موجود ہیں ۔

The Birth of Tragedy (1872)
Human, All Too Human (1878)
The Gay Science (1882)
Thus Spoke Zarathustra (1883)
Beyond Good and Evil (1886)
On the Genealogy of Morality (1887)
The Antichrist (1888)
Ecce Homo (1888)

نطشے کے فلسفے کو دو مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے: پہلے میں، اس نے ثقافت پر تنقید پر توجہ مرکوز کی، جب کہ دوسرے دور میں، اس کے کاموں نے زیادہ پختہ اور مابعدالطبیعیاتی لہجہ اختیار کیا۔ مغربی ثقافت کے ایک نقاد کے طور پر، نطشے کا خیال تھا کہ اس کا مشن ہمیشہ سے عقلیت اور اخلاقیات کے نام پر زندگی اور لطف و ان کو دبانا رہا ہے۔ وہ اخلاقیات کا بھی ایک ناقد تھا، اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ روایتی اقدار (جس کی نمائندگی عیسائیت کے ذریعہ کی جاتی ہے) لوگوں کی زندگیوں میں اپنی طاقت کھو چکی ہے، جسے اس نے غیر فعال عصبیت کا نام دیا۔

اس کے فلسفے کا ایک حصہ عیسائیت پر تنقید پر بھی توجہ مرکوز کرتا ہے، کیونکہ اس کا خیال تھا کہ مذہب اس خوف اور وحشت سے پیدا ہوا ہے جو انسان کو اپنے بارے میں ہے، جو اسے اپنی تقدیر کا اندازہ لگانے سے قاصر ہے۔ اس کا ایک اور اہم نظریہ ابدی واپسی تھا، جو یہ حکم دیتا ہے کہ جب دنیا کے عناصر کے تمام ممکنہ مراحل پورے ہو جائیں گے، تب بھی ایک غیر معینہ ماحول آگے رہے گا اور پھر یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہو جائے گا ۔ اسی طرح غیر معینہ مدت تک، تاکہ دنیا میں ہونے والی ہر چیز اپنے آپ کو بار بار دہرائے، ہمیشہ کے لیے، بشمول ہر بری اور اداس کر دینے والی چیز۔ انسانی نفسیات کو سمجھنے کے حوالے سے یہ کتاب بہت اہم ہے خاص طور پر انسانی فطرت ،خوف، اچھائی اور برائی۔
Displaying images (1).jpeg.

Copyright © The Journalist Today

کچھ صاحب تحریر کے بارے میں

ملیحہ سید
ملیحہ سید
ملیحہ سید سینئر صحافی و کالم نگارہ ہیں . انگریزی کے موقر قومی روزنامے میں بطور ایڈیٹر اپنے فرائض سر انجام دے چکی ہیں . شاعری ، افسانہ نگاری تراجم سمیت ادب و صحافت کے دیگر شعبوں میں اپنی منفرد پہچان رکھتی ہیں . ملیحہ سید اب ""دی جرنلسٹ ٹوڈے"" کے لیے مستقل بنیادوں پر لکھ رہی ہیں

دیگر مصنفین کی مزید تحاریر

الیکشن کے معشیت پر...

ایک طرف یہ نظریہ اور سوچ رائج العام ہے کہ جمہوری نظام حکومت کی فعالیت...

مزاحمتی شاعری اور ہماری ذہنی حالت

شاعری شاید لطیف جذبات کی عکاس ہے یا پھر انسانی جبلت کی لیکن شاعری میں ایسی باتیں کہہ دی جاتی ہیں جو عام انسانی...

ہمارے نمک میں اثر کیوں نہیں

پاکستان اور افغانستان کا آپسی تعلق لو اینڈ ہیٹ جیسا ہے یعنی ایک دوسرے کے بغیر رہ بھی نہیں سکتے اور ایک دوسرے کے...

محکمہ زراعت کا خوفناک پراپرٹی سکینڈل !

اب تک سنتے آئے تھے کہ پراپرٹی میں بہت فراڈ ہوتا ہے ۔ طاقتور مافیا غریب شہریوں کو لوٹ لیتا ہے ، کہیں کاغذات...

پاکستان کا موجودہ سیاسی کھیل

پاکستان کے سیاسی گراونڈ میں اس وقت بہت ہی دلچسپ کھیل جاری ہے، ایک وقت تھا کہ سب یہ سوچ رہے...

اس پوسٹ پر تبصرہ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ سروس کی شرائط سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ ایک تحریری معاہدہ ہے جو اس وقت واپس لیا جا سکتا ہے جب آپ اس ویب سائٹ کے کسی بھی حصے کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کرتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

یہ بھی پڑھئے

ابن رشد کے پانچ اہم سیاسی اور سماجی افکار

ابنِ رشد عالم اسلام میں ایک اہم ترین مفکر گزرے ہیں جن کے سیاسی اور سماجی نظریات نے اس وقت کے ایوانوں میں ناصرف...

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی صاحب اور ان کی تفہیمات

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اٹھارویں صدی کی نابغہ روزگار شخصیت ہیں۔ رجوع الی القرآن و الحدیث ،دعوت علوم اسلامی کے احیاء اور تجدید...

کہانی اور جنس !

ادب میں جنس کا تذکرہ، تلذذ یا شہوت کو بڑھاوا دینے کے لئے نہیں کیا جاتا۔ جنس کا سرسری ذکر یا بیان اسی صورت میں...

الکیمسٹ ، خواب اور یقین کا سفر

الکیمسٹ کا شمار دنیا کے بہترین ناولز میں ہوتا ہے، یہ ناول برازیل کے مشہور مصنف پاﺅلو کوہیلو نے پرتگالی زبان میں 1987ءمیں لکھا...

کتاب یاترا ۔۔ ” بات رہتی ہے” کلیاتِ فرتاش سید

فرتاش سید ، جنہیں مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے مگر جو آیا ہے اس نے جانا ہے اور یہی انسان کی...

سبق..روسی ادب کا شاہکار افسانہ، جس کے مخاطب آپ ہیں !

دروازے پر دستک ہوئی تو شوکت سراج نے سلگایا ہوا سگار ایش ٹرے پر رکھتے ہوئے بلند آواز میں اندر آنے کی اجازت دی۔...