ادب میں جنس کا تذکرہ، تلذذ یا شہوت کو بڑھاوا دینے کے لئے نہیں کیا جاتا۔
جنس کا سرسری ذکر یا بیان اسی صورت میں کیا جاتا ہے جب کہانی میں جنسی جذبے سے مغلوب انسان دوسرے انسان کی عزت نفس، انا اور جذبات مجروح کرے،استحصال کرے۔
تھامس ہارڈی کے ناول ٹیز آف ڈبلوری میں ایک ریپ کا منظر ہے لیکن بہت گپت انداز میں کیونکہ مظلوم معصوم ہے اسے معلوم ہی نہیں کہ اسکے ساتھ کیا ہو رہا ہے، اور مصنف بھی صرف ظلم دکھا رہا ہے، جنسی فعل دکھانا مصنف کی ترجیح نہیں ہے۔
یہ ناول ایم اے انگلش کے نصاب میں شامل تھا۔اب بھی شامل ہے یا نہیں،میرے علم میں نہیں۔ جب ہم پڑھتے تھے تب تو تھا۔
خیر جب یہ ناول پڑھا گیا تو بہت سے طلباء کو تو علم ہی نہیں ہوا کہ کیا واقعہ رونما ہو گیا ہے جب کلاس میں ڈسکس ہوا تو بہت سارے طلباء کے لئے یہ انکشاف ثابت ہوا۔ دوبارہ ناول کے اوراق پلٹے گئے پھر دلچسپ بات یہ تھی کہ کلاس کے لڑکے مان رہے تھے کہ لڑکے نے ظلم کیا، لیکن لڑکیاں کہہ رہی تھیں کہ لڑکی نے منع کیوں نہیں کیا،
لب لباب یہ تھا کہ دراصل لڑکی کو معلوم ہی نہ تھا کہ یہ کیوں ہو رہا ہے اور اسکا مطلب کیا ہے۔
مصنف نے بہت سارے نکات بیان کئے ہیں۔ ظالم سے بچنے کی آگاہی دینا، استحصال کی صورتیں بیان کرنا، جنس کے متعلق انسانی رویئے، بھوک و افلاس کے بیانیئے۔
کسی بھی ناول۔ کہانی یا افسانے میں جنس کے ذکر کا مطلب فحاشی نہیں ہے، بلکہ انسان اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے دوسرے انسان کو کس حد تک استعمال کر سکتا ہے وہ بتایا جاتا ہے۔
منٹو کی بیشتر لکھت اس غیر انسانی جنسی تشدد پر مبنی ہے، جو انسان دوسرے انسان کے ساتھ اپنے طاقتور ہونے کی بناء پر اختیار کرتا ہے۔
ٹھنڈا گوشت لاش کے ساتھ جنسی زیادتی۔
کھول دو ایک بے بس مغویہ کے ساتھ۔
اللہ دتہ منٹو کے افسانے کا ایک کردار ہے، اس افسانے میں محرمات کے ساتھ جنسی تعلق اور خواتین کا اپنے ہی مجرم رشتوں کے ساتھ جنسی استحصال دکھایا گیا ہے۔
افسانہ ہتک، مسواک ، کالی شلوار اور بھی بہت سے دوسرے۔ افسانوں کے نام بھول گئ ہوں لیکن کردار اچھی طرح یاد ہیں۔
میں نے منٹو صاحب کو بار بار نہیں پڑھا ہے نہ ہی دوبارہ پڑھنا چاہتی ہوں، پہلے بھی لکھا تھا اب بھی لکھ رہی ہوں۔ مجھے ڈپریشن ہو جاتا ہے۔
منٹو کا پھندنے افسانہ سماج کی اشرافیہ کی جنسی ناآسودگی و جنسی تشدد سے بھرپور ذہنیت کی عکاسی ہے، علامات و تشبیہات کے ذریعے یہی بتایا گیا ہے کہ انسانی رویئے جنسی طور پر کس قدر حیوانی ہیں۔ جب کہ جنس ایک فطری و خوبصورت جذبہ ہے۔
حیوانی سے یاد آیا، منٹو کا وہ افسانہ جس میں ہندوستان میں پہلی بار پورن فلم ایک فلم ڈائریکٹر لے کر آیا اور جب قریبی دوستو کو بلا کر وہ فلم دکھائی تو منٹو صاحب کی طبعیت مکدر ہو گئ تھی۔
اور مجھے سو فیصد یقین ہے کہ انکی طبیعت نے واقعی قبول نہ کیا ہو گا۔
ایک حساس انسان پورن فلم کو برداشت ہی نہیں کر سکتا ، چاہے وہ سادہ انداز کی ہو اور اگر پر تشدد ہو تب تو بالکل بھی نہیں۔
ہیں۔
حقیقی کہانی کار و ادیب درد دل کے ساتھ کہانی لکھتے تھے اور لکھتے ہیں۔
بانو قدسیہ کا انتر ہوت اداسی بھی جنسی استحصال اور عورت کی مرضی کے خلاف اسکے جسم پر اختیار حاصل کرنا ہے مصنفہ نے کس قدر ڈھکے چھپے الفاظ میں افسانہ امر کر دیا گیاہے۔
میرے افسانے باکرہ کا موضوع بھی جنس ہے لیکن پورے افسانے میں ایک بھی ایسا منظر نہیں ہے جہاں تفصیلات درج ہوں، لیکن وہ بات کہہ دی گئی ہے جو موضوع ہے۔
خالص اور سچا ادب ہی وہ ہوتا ہے جو دل کی گہرائیوں سے نکلے اور صفحہ قرطاس پر امر ہو جائے۔
ہارڈی، مارکیز، منٹو، موپاساں، اور دوسرے بہت سے مصنفین اسی لئے امر ہیں کہ انہوں نے انسانی قدروں اور دوسرے انسان کے درد کو محسوس کیا۔ ہر مصنف کو
بلاوجہ منٹو بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔
اپنی پہچان اپنی لکھت ہونی چاہیئے۔ اپنی شناخت الگ بنانی چاہیے
(ایڈیٹر نوٹ : ادب میں جنس کو جنسی حوالے کلاسیک کا مضبوط حوالہ ہیں. یہ صرف ادب یا کلاسیک کا ہی نہیں بلکہ انسان کا بھی مضبوط حوالہ ہے . اردو ادب میں جنسی حوالوں پر لکھے متعدد تھیسز پرجامعات ڈگریاں جاری کر چکی ہیں . مطربہ شیخ نے بھی ایسے ہی موضوع پر لکھا ہے . اگر آپ اس کے حق یا مخالفت میں دلائل اور حوالے رکھتے ہیں تو ادارہ پالیسی کے مطابق آپ کی تحریر بھی شائع کرے گا )
کہانی اور جنس !
کچھ صاحب تحریر کے بارے میں
اس پوسٹ پر تبصرہ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ سروس کی شرائط سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ ایک تحریری معاہدہ ہے جو اس وقت واپس لیا جا سکتا ہے جب آپ اس ویب سائٹ کے کسی بھی حصے کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کرتے ہیں۔