ایڈیٹر : سید بدر سعید

ایڈیٹر : سید بدر سعید

کتاب یاترا ۔۔ ” بات رہتی ہے” کلیاتِ فرتاش سید

فرتاش سید ، جنہیں مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے مگر جو آیا ہے اس نے جانا ہے اور یہی انسان کی اصلیت ہے۔ میں اکثر یہ کہتی ہوں کہ ہمیں اپنے آنے اور ایک بھرپور زندگی گزارنے کا پتہ نہیں ہوتا مگر ہمارا جانا ایک طے شدہ حقیقت ہے ۔ اس لیے جتنا عرصہ ہم نے یہاں گزارا ہے اور اگر اسے اپنے اور دوسروں کے لیے یادگار بنایا ہے تو ہم مر کر بھی زندہ رہتے ہیں کیونکہ یادوں کی کبھی قبر نہیں بنا کرتی اسی لیے خوبصورت انسان مر کر بھی زندہ رہتے ہیں اور اگر وہ تخلیق کے کسی شعبے کا حصہ ہیں تو سمجھ لیں کہ اپنے کام کے ساتھ وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے کیونکہ لفظ اور کتاب زندہ رہتے ہیں ، لکھنے والا مٹی ہو جاتا ہے ۔

فرتاش سید ، کے ساتھ میرا رابطہ سوشل میڈیا کا تھا یا پھر شاید اس سے بہت پہلے اس شعر کے توسط سے ان سے واقفیت تھی کہ

دور باطل میں حق پرستوں کی
بات رہتی ہے ، سر نہیں رہتے

اور پھر مختلف تقاریب میں ملاقاتیں ہوئیں تو مجھ پر کھلا کہ جس مشاعرے میں فرتاش سید موجود ہیں وہ ایک زندہ مشاعرہ ہے، انہیں محفل سجانا اور پھر بنائے رکھنا آتا ہے اور خوب آتا ہے ۔ ان کی موجودگی میں شعر پڑھنا گویا ایک گنگناہٹ تھی جسے آپ اس لمحے صرف محسوس کرتے ہیں مگر آنے والے کئی دن اس میں جیتے ہیں ۔

فرتاش سید کے ساتھ میری آخری ملاقات کررونا وائرس سے پہلے ہونے والے عالمی کتاب میلے جوہر ٹاؤن لاہور کے ایکسپو سینٹر میں ہوئی، ایک یاد گار ملاقات ۔ باتیں ، شعر قہقہے اور کافی ۔ کون جانتا تھا کہ اس کے بعد میری کبھی فرتاش سید سے ملاقات نہیں ہو سکے گی اور وہ ایک وبائی مرض کا شکار ہو کر منوں مٹی تلے جا سوئیں گے ۔

فرتاش سید نے صرف لاہور اور پاکستان کے دیگر شہروں کی فضاؤں کو ہی نہیں اپنا اسیر کیا بلکہ انہوں نے پاکستان سے باہر بھی شاعری کے سفیر کا بھرپور کردار ادا کیا۔وہ ایک استاد تھے مگر مجھے لگتا ہے کہ شاعری ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھی اسی لیے جہاں بھی گئے محبتوں کی دوستی کی ایسی یادیں چھوڑ آئے جو آج بھی خوب جگمگا رہی ہیں اور ان کے متوالوں کو سہلا رہی ہیں۔

فرتاش سید کا اصل نام سید فضل حسین تھا اور وہ کولڈن ضلع وہاڑی سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی ادبی تصانیف میں ” ہر ورق پر اسی کا نام” اس مجموعہ میں ہائیکو شامل ہیں ۔”فضائے ادب” (نثر), ” حاشیہ ” ( شعری مجموعہ)، ” جدید اُردو غزل کی شعریات ؛ نمایاں خال و خد ” (تنقید) ، ” برملا” (شعری مجموعہ) ، اور ” بات رہتی ہے ” ( کلیات) ، شامل ہیں۔ جبکہ ان کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا عنوان” اکیسویں صدی کی اردو غزل، فکری و فنی جائزہ” 2021 میں بڑے اعزاز کے ساتھ شائع کیا گیا تھا ۔اس سے قبل 2009 میں ان کے ایم فل کا مقالہ جس کا موضوع” مجلسِ فروغِ ادب دوحہ قطر کی ادبی خدمات ” بھی بڑے اہتمام کے ساتھ شائع کیا گیا تھا ۔

ان کی کلیات "بات رہتی ہے” کو بھی مجلس فروغ اُردو ادب دوحہ قطر نے شائع کر کے اس عظیم اور منفرد شاعر کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے جس کے لیے مجلس بلاشبہ داد کی مستحق ہے ۔ فرتاش سید اٹھارہ اپریل 2021 میں دار فانی سے رخصت ہوئے مگر وہ اپنی ہمہ جہت شخصیت اور لازوال ادبی خدمات کی بدولت اردو ادب کے آسمان پر ہمیشہ جگمگاتے رہیں گے ۔

کلیاتِ ” بات رہتی ہے” میں فرتاش سید کے ادبی کام حاشیہ، برملا اور ہر ورق پر اسی کا نام کو یکجا کر دیا گیا ہے ۔ حتیٰ کہ ان مجموعوں میں شامل ان کے بہترین دوستوں کی تحاریر کو بھی نظر انداز کرنے کی بجائے کلیات کا حصہ بنایا گیا ہے ۔ حاشیہ میں شامل پروفیسر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اپنے مضمون "حرفے چند”میں لکھتے ہیں کہ ” فرتاش سید اردو کا ایسا مجاہد ہے جو اردو کو ہر چیز سے فزوں تر مانتا ہے ۔ وی شعر کی وادی میں پورے انہماک اور زوق و شوق سے گرم سفر ہے، اس کا دل درد کی دولت سے آشنا ہے اور اس کا حرف حرف شدت احساس سے تابناک ہے”۔

اسی طرح عباس تابش کہتے ہیں کہ” فرتاش سید کی غزل بالکل الگ لب و لہجے کی غزل ہے، وہ اپنی آواز کا خمیر سیاسی صورتحال سے اٹھا کر آشوبِ ذات کی بھٹی لگاتے ہیں تب کہیں جا کر ان کے ہاں مصرعہ تر کی صورت پیدا ہوتی ہے ۔

بات رہتی ہے ۔۔ (جو مجھے قطر سے میرے بڑے بھائی قمر الزماں بھٹی نے مجھے بجھوایا ، جسکے لیے میں ان کی دل سے ممنون ہوں) کو پڑھتے ہوئے میری قدم قدم فرتاش سید سے ملاقات ہوئی، وہ مشرق اخبار میں ہونے والا مشاعرہ ہو یا پھر کتاب میلے کی چلتے پھرتے کتابیں اٹھا کر دیکھتے سلفیاں لیتے ہوئے لمحات کی یادیں، ان سب نے میرے ساتھ سفر کیا، آنکھوں کے گوشے نم ہوئے تو کہیں مسکراہٹ ہونٹوں پر رقص کرنے لگی۔ ان سے کبھی کبھی فون پر بات چیت ہوتی تھی میں جب کہیں اٹک جاتی تو ڈاکٹر صاحب سے رجوع کر لیتی وہ باتوں باتوں میں شعر سنوار دیتے اور کوئی احسان بھی نہیں جتاتے تھے ۔

میں کتابوں پر تنقید کی قائل نہیں ہوں میں ان میں قیام کرنے ، انہیں محسوس کرنے کے حق میں ہوں۔ کتاب ہمیں بہت کچھ دیتی ہے خاص طور پر اگر صاحب کتاب سے وابستگی ہو تو پھر یوں سمجھ لیں کہ یادوں کا ایک حسین سلسلہ ساتھ ساتھ چلتا ہے ۔ کئی اشعار میں ہم خود پر اترتا ہوا محسوس کرتے ہیں اور لگتا ہے کہ بس شاعر نے یہ صرف میرے لیے لکھا ہے جیسے

میرے ناخدا ! رہوں کب تلک میں امید و بیم میں مبتلا
تو میرے سفینے کو غرق کر، جو نہیں تو پار اتار دے

ہائے اسی طرح آگے بڑھی تو نظروں کے قدم وہیں تھم گئے کیونکہ وہ شعر گویا میری اپنی قلبی واردات کی ناشکستگی کی نارسائی کا منظر نامہ تھا۔۔

رہ زیست میں جو سراب تھے ، مجھے کھا گئے
وہ جو ہجرتوں کے عذاب تھے، مجھے کھا گئے

سر دشت شوق جو خار تھے، مرے یار تھے
وہ کہیں کہیں جو گلاب تھے ، مجھے کھا گئے

اسی طرح اگلے پڑاؤ میں ایک جگہ فرتاش سید نے شاید ہم جیسوں کے لیے لکھا ہے کہ

سب تقاضے بجا لیکن اس عمر میں
اس طرح بے خبر ہو کے سوتے نہیں

یہ عشق محبت اور اپنا پن یہ ہر زی روح کی ضرورت ہے مگر عشق کی کوئی منزل نہیں ، یہ پرائی آگ اپنی روح میں جلا کر اسی میں تاعمر سسکتے ہوئے جینے اور جلنے کا نام ہے ، اسی تناظر میں سید کے اس شعر کو پڑھئیے اور اس میں قیام کیجئے ، یہ عشق والو کا وہ پردہ ہے جو ایک بار اٹھ گیا تو راز کھل جائے گا اور بھرم ٹوٹ جائے گا

گھر کی جب بات نکل جاتی ہے گھر سے باہر
در پہ حرف آتا ہے ، دیوار پہ حرف آتا ہے

کتنا بے بس ہوں کہ خاموش مجھے رہنا ہے
بولتا ہوں تو مرے یار پہ حرف آتا ہے

سچ ہی تو ہے کہ غزل گوئی آگ پر عزاداری کرنے کا نام ہے۔ آگ پر ماتم بیک وقت وابستگی اور آرٹ کا اظہار ہے۔ ڈاکٹر ساحر شفیق نے اپنے مضمون ” فرتاش سید کے 72 نشتر” میں اسی تناظر میں کیا عمدہ انتخاب کیا ہے جو ” بات رہتی ہے” کی زنیت بنا ہے۔

فراق اور وصل کے جو پتھر ٹھہر گئے ہیں وہ واقعہ ہیں
پھسل کر مٹھی سے رنگ بن کر جو گر رہی ہے ، وہ شاعری ہے

عشق ہوں سو جانتا ہوں دشت میں
کیا نہیں درکار ، کیا درکار ہے

جب ہوا بند دل کا دروازہ
تب کسی خوش خبر نے دستک دی

فرتاش سید نے جو لکھا کمال لکھا ، جس سے ملے دل سے ملے، جو محسوس کیا وہ بغیر لگی لپٹی صحفہ قرطاس پر منتقل کر دیا ۔ وہ مجموعی طور محفل کے آدمی تھے ، وہ شعر کی نشست ہو یا بے تکلف دوستوں کے ساتھ لمحہِ موجود میں جینے کا احساس ، انہوں نے ہر لمحہ کو بھرپور جیا ۔ ان کے شعری موضوعات بھی عام نہیں مگر ادائیگی انتہائی عام فہم ہے، مشکل الفاظ اور تشبیہات کا استعمال ان کی شاعری میں کم ہی ملتا ہے ، سادہ اور آسان اسلوب میں مشکل ترین بات کہنے کا ہنر انہیں قدرت نے عطا کیا یا وقت نے پرورش کی، یا یوں کہیں کہ یہ ان کی اپنی دعا تھی اپنے لیے جو قبول ہوئی اور وہ مقبول ہو گئے اور ہوتے چلے گئے اور شہرت کا یہ سلسلہ ان کے انتقال کے بعد بھی جاری و ساری ہے۔۔ اور اپنی اس اس حوالے سے ڈاکٹر فرتاش سید نے خود لکھا تھا کہ

کوئی ایسا مصرع تر کہوں، کوئی ایسا حرفِ وفا لکھوں
جو مجھے حیات دوام دے ، میرے عاقبت کو سنوار دے

ترے آستاں پہ میں آ گیا یہ بجا ہوں سرکش و پرخطا
میرے لغزشوں پہ نظر نہ کر، مری آرزو کو وقار دے

ڈاکٹر فرتاش سید ۔۔۔ رب العالمین آپ کی بہترین میزبانی کرے ۔ آمین ثم آمین

مجموعہ : بات رہتی ہے کلیاتِ فرتاش سید
ناشر : مجلسِ فروغِ اردو ادب( دوحہ ، قطر)
تبصرہ : ملیحہ سید

( ایڈیٹر نوٹ : ملیحہ سید "دی جرنلسٹ ٹوڈے ” کے ادبی سیکشن کی ایڈیٹر ہیں . وہ اچھی کتب اور مصنفین پر ” کتاب یاترا” کے نام سے مستقل لکھیں گی. ہم امید کرتے ہیں کہ یہ کاوش جہاں اچھے مصنفین کو خراج تحسین پیش کرنے کا باعث ہو گا وہیں اس سے کتاب دوستوں کے ذوق کی آبیاری بھی ہوتی رہے گی )

Copyright © The Journalist Today

کچھ صاحب تحریر کے بارے میں

ملیحہ سید
ملیحہ سید
ملیحہ سید سینئر صحافی و کالم نگارہ ہیں . انگریزی کے موقر قومی روزنامے میں بطور ایڈیٹر اپنے فرائض سر انجام دے چکی ہیں . شاعری ، افسانہ نگاری تراجم سمیت ادب و صحافت کے دیگر شعبوں میں اپنی منفرد پہچان رکھتی ہیں . ملیحہ سید اب ""دی جرنلسٹ ٹوڈے"" کے لیے مستقل بنیادوں پر لکھ رہی ہیں

دیگر مصنفین کی مزید تحاریر

الیکشن کے معشیت پر...

ایک طرف یہ نظریہ اور سوچ رائج العام ہے کہ جمہوری نظام حکومت کی فعالیت...

مزاحمتی شاعری اور ہماری ذہنی حالت

شاعری شاید لطیف جذبات کی عکاس ہے یا پھر انسانی جبلت کی لیکن شاعری میں ایسی باتیں کہہ دی جاتی ہیں جو عام انسانی...

ہمارے نمک میں اثر کیوں نہیں

پاکستان اور افغانستان کا آپسی تعلق لو اینڈ ہیٹ جیسا ہے یعنی ایک دوسرے کے بغیر رہ بھی نہیں سکتے اور ایک دوسرے کے...

محکمہ زراعت کا خوفناک پراپرٹی سکینڈل !

اب تک سنتے آئے تھے کہ پراپرٹی میں بہت فراڈ ہوتا ہے ۔ طاقتور مافیا غریب شہریوں کو لوٹ لیتا ہے ، کہیں کاغذات...

پاکستان کا موجودہ سیاسی کھیل

پاکستان کے سیاسی گراونڈ میں اس وقت بہت ہی دلچسپ کھیل جاری ہے، ایک وقت تھا کہ سب یہ سوچ رہے...

اس پوسٹ پر تبصرہ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ سروس کی شرائط سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ ایک تحریری معاہدہ ہے جو اس وقت واپس لیا جا سکتا ہے جب آپ اس ویب سائٹ کے کسی بھی حصے کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کرتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

یہ بھی پڑھئے

مزاحمتی شاعری اور ہماری ذہنی...

شاعری شاید لطیف جذبات کی عکاس ہے یا پھر انسانی جبلت کی لیکن شاعری میں ایسی باتیں کہہ دی...

ہمارے نمک میں اثر کیوں...

پاکستان اور افغانستان کا آپسی تعلق لو اینڈ ہیٹ جیسا ہے یعنی ایک دوسرے کے بغیر رہ بھی نہیں...

محکمہ زراعت کا خوفناک ...

اب تک سنتے آئے تھے کہ پراپرٹی میں بہت فراڈ ہوتا ہے ۔ طاقتور مافیا غریب شہریوں کو لوٹ...

پاکستان کا موجودہ سیاسی کھیل

پاکستان کے سیاسی گراونڈ میں اس وقت بہت ہی دلچسپ کھیل جاری ہے، ایک وقت تھا کہ...

فریڈرک نطشے کی کتاب ماروائے خیر و شر، ایک تجزیہ

شیطان سے لڑتے ہوئے ہمیشہ محتاط رہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ بھی ایک شیطان بن جائیں"۔ کچھ مہینے پہلے جب یہ جملہ...

ابن رشد کے پانچ اہم سیاسی اور سماجی افکار

ابنِ رشد عالم اسلام میں ایک اہم ترین مفکر گزرے ہیں جن کے سیاسی اور سماجی نظریات نے اس وقت کے ایوانوں میں ناصرف...

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی صاحب اور ان کی تفہیمات

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اٹھارویں صدی کی نابغہ روزگار شخصیت ہیں۔ رجوع الی القرآن و الحدیث ،دعوت علوم اسلامی کے احیاء اور تجدید...

کہانی اور جنس !

ادب میں جنس کا تذکرہ، تلذذ یا شہوت کو بڑھاوا دینے کے لئے نہیں کیا جاتا۔ جنس کا سرسری ذکر یا بیان اسی صورت میں...

الکیمسٹ ، خواب اور یقین کا سفر

الکیمسٹ کا شمار دنیا کے بہترین ناولز میں ہوتا ہے، یہ ناول برازیل کے مشہور مصنف پاﺅلو کوہیلو نے پرتگالی زبان میں 1987ءمیں لکھا...

سبق..روسی ادب کا شاہکار افسانہ، جس کے مخاطب آپ ہیں !

دروازے پر دستک ہوئی تو شوکت سراج نے سلگایا ہوا سگار ایش ٹرے پر رکھتے ہوئے بلند آواز میں اندر آنے کی اجازت دی۔...