ایڈیٹر : سید بدر سعید

ایڈیٹر : سید بدر سعید

سبق..روسی ادب کا شاہکار افسانہ، جس کے مخاطب آپ ہیں !

دروازے پر دستک ہوئی تو شوکت سراج نے سلگایا ہوا سگار ایش ٹرے پر رکھتے ہوئے بلند آواز میں اندر آنے کی اجازت دی۔ کمرہ میں داخل ہونے والا سہما ہوا وجود اسے اس وقت کانپتا ہوا بھی محسوس ہوا۔
جس کا احساس ہوتے ہی اس کے منہ سے ایک آہ بلند ہوئی جسے کمرے میں داخل ہونے والے ذی روح نے واضح طور پر سنا۔اس کی آنکھوں کے کنارے بھیگے ہوئے تھے ،شاید وہ بہت روئی تھی۔
یہ شوکت سراج کے بچوں کی آیا الوینہ تھی جس کو آج اس نے ملاقات کا وقت دیا ہوا تھا، اسے اسکا معاوضہ ادا کر کے ملازمت کا معاہدہ ختم کرنا تھا۔
یہ اس کی مجبوری تھی کیونکہ اس کی بیوی اس سے راضی نہیں تھی مگر شوکت سراج کو الوینہ پسند تھی وہ ایک نفیس اور ہوشیار آیا تھی۔
شاید واجبی شکل و صورت کی ہر کاہل اور سست عورت ، متحرک اور اثر انداز ہونے والی حسین عورت سے خوف زدہ رہتی ہے۔مسز شوکت کا اس میں کوئی قصور نہیں تھا ، اس کا رویہ فطری تھا اور شوکت سراج اس سے متفق بھی تھا۔
مگر وہ کسی بھی عمر کے مرد کو بھی نہیں رکھ سکتا تھا کیونکہ کم رو امیر عورتیں خوشامد پسند ہوتی ہیں اور انہیں بے وقوف بنانا بھی آسان ہوتا ہے یہ شوکت سراج کا خیال تھا جس سے ہم سب کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

اس نے الوینہ کو اپنے سامنے والی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور کسی لگی لپٹی بغیر اصل مدعے پر آیا۔ اسے پتہ تھا کہ اسے الوینہ سے کیا بات کرنی ہے مگر دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں اسی سوچ کے پیش نظر کہنے والی بہت سی باتوں کو اس نے کسی اچھی جگہ ملاقات پر رکھ چھوڑا۔
تو مس الوینہ الٰہی آپ نے ہمیں دو ماہ پہلے جوائن کیا تھا پندرہ ہزار ماہوار معاوضہ پر۔شوکت سراج نے اپنی ڈائری میں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
نہیں نہیں دو ماہ اور چودہ دن ہوئے ہیں اور یہ پندرہ نہیں بیس ہزار تھے ۔ آپ زرا غور سے دیکھیں پیلز۔ الوینہ نے بے چینی سے پہلو بدلتے ہوئے، دھیمے اور سسکتے ہوئے لہجے میں کہا۔
تو کیا میں آپ سے جھوٹ بول رہا ہوں۔۔۔ شوکت سراج نے استہفامہ انداز میں اسے گھورتے ہوئے کہا۔ یہ دیکھیں میں نے خصوصی طور پر ڈائری میں نوٹ کیا تھا۔
الوینہ ہاتھ مسل کر رہ گئی ۔۔۔۔ اسے پیسوں کی اشد ضرورت تھی اس نے سرینڈر کر دیا ۔ شاید مجھے ہی کوئی غلط فہمی ہو گئی تھی۔شوکت سراج کی مسکراہٹ دیکھنے والی تھی۔ الوینہ کو وہ خون پینے والی جونکوں سے بھی بدتر لگا۔سرانڈ زدہ جانور۔ اس کے اندر نفرت کی لہر دوڑ گئی۔
اور دو ماہ میں سے دس دن آپ نے ہمارے بڑے بیٹے ولید کی دیکھ بھال نہیں کی کیونکہ وہ اپنی خالہ کے گھر گیا ہوا تھا۔ اس لیے پانچ ہزار اس کے کاٹے جا رہے ہیں۔ اس نے ڈائری میں حساب کتاب لکھتے ہوئے کہا۔
الوینہ نے بے بس نظروں سے شوکت سراج کی طرف دیکھا۔ اسے پتہ تھا کہ وہ زیادتی کر رہا ہے اور مسلسل دروغ گوئی سے کام لے رہا ہے مگر وہ خاموش تھی۔
آٹھ اتوار بھی نکال دو ۔۔۔ تمھیں معلوم ہے کہ تم اتوار کو احمد اور صالحہ کو نہیں سنبھالتی تم صرف باہر لان میں چہل قدمی کرتی ہو اور ہاں تین چھٹیاں بھی ہیں ۔۔۔۔۔۔
الوینہ کا چہرہ شرمندگی سے سرخ ہو گیا ۔اس نے اپنے دوپٹے کے پلو کو اپنی انگلی میں لپٹنا شروع کر دیا مگر منہ سے ایک لفظ تک نہیں نکالا۔
“تین چھٹیوں کے ڈھائی ہزار نکال دو۔ نو اتوار کے بھی زیادہ نہیں بس سات ہزار کاٹے جائیں گے۔
تین دن تمھارے دانت میں درد رہا اور میری بیوی نے تمہیں لنچ تک چھٹی دے دی ۔تیس میں سے پانچ، ڈھائی اور سات ہزار منفی کرو تو بچے ساڑھے چودہ ہزار۔ درست؟
الوینہ کا چہرہ سرخ ہو گیا ۔اس کی ٹھوڑی کانپی ، مضطرب ہو کر کھانسی ،ناک صاف کیا لیکن ایک لفظ نہ بولی ۔
تمہاری غفلت کی وجہ سے ولید درخت پر چڑھا اور اپنی جیکٹ پھاڑ لی ۔ایک ہزار اس کے نکال دو اور پھر تمھاری لاپرواہی کی وجہ سے نوکرانی نے صالحہ کے جوتے چرا لیے ۔تمہیں ہر چیز پر نظر رکھنی چاہیے تھی نا ۔اس کا مطلب ہوا کہ ایک ہزار مزید کم ہو گئے ۔
اور دس جنوری کو میں نے تمھیں پانچ ہزار دئیے تھے———-“
"آپ نے نہیں دئیے۔” الوینہ بیچارگی سے بولی ۔
"لیکن میرے پاس لکھا ہوا ہے "۔۔ شوکت سراج نے زور دیتے ہوئے کہا
چلیں ٹھیک ہے ۔۔۔ شاید میں ہی بھول رہی ہوں۔۔ اس نے بے بسی سے کہا۔۔۔ ہائے بے چاری لڑکی !
"سات ہزار، ساڑھے چودہ ہزار سے نکال دو باقی بچے ساڑھے سات ہزار”۔
صرف ایک دفعہ میں نے آپ کی بیوی سے دو ہزار کی رقم ایڈوانس لی تھی اس سے زیادہ نہیں ۔۔۔ اس نے کانپتی آواز میں کہا ۔
"واقعی ؟ یہ تو میں نے لکھا ہی نہیں ۔ساڑھے سات ہزار میں سے دو ہزار منہا کرو باقی بچے ساڑھے پانچ ہزار۔

” یہ رہے ساڑھے پانچ ہزار ” شوکت سراج نے ساڑھے پانچ ہزار کی رقم اس کے آگے کی۔ اس نے وہ پیسے لیے اور کانپتے ہاتھوں سے انہیں سوئیٹر کی پاکٹ میں رکھتے ہوئے آہستگی سے شکریہ کہتے ہوئے آٹھ کھڑی ہوئی۔
کیا۔۔۔۔۔۔ وہ اچھل پڑا اور کمرے میں ٹہلنے لگا ۔غصے سے اس کا برا حال ہو گیا۔
اس نے پوچھا۔
"شکریہ۔۔۔؟ ———- مگر کیوں اور کس لیے؟؟؟؟؟بولو
اس رقم کے لیے ۔۔۔۔
“لیکن تم جانتی ہو میں تمہیں دھوکا دے رہا ہوں ۔ میں تمہیں لوٹ رہا ہوں۔ تمہارے پیسے چوری کر رہا ہوں ۔ تم سے فراڈ کر رہا ہوں ۔۔ تمہارا حق مار رہا ہوں۔
پھر یہ شکریہ کیسا اور کیوں؟؟؟ شوکت سراج کا سر گھوم کر رہ گیا۔
"دراصل اب تک جتنی جگہوں پر میں نے کام کیا انہوں نے مجھے کبھی کچھ نہیں دیا”۔۔۔ پیسے دینے کی باری آتی تو کوئی نہ کوئی بہانہ بنا دیا جاتا اور دو تین ماہ بعد ملازمت سے نکال دیا جاتا۔خاموشی کے سوا میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا اور نہ ہی لڑنے اور بولنے کی ہمت ۔ میں خاموشی سے عزت بچ جانے پر شکر ادا کرتی۔
تو کیا کبھی کسی نے تمہیں کچھ نہیں دیا ۔۔۔۔؟؟
نہیں ۔۔۔۔۔ ! یہ کہہ کر الوینہ نے اپنی نشست سے کھڑے ہوتے ہوئے جانے کی اجازت چاہی۔۔
سنو ۔۔۔۔ شوکت سراج نے ایک لفافہ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔۔۔ اس میں بیس ہزار کی مناسبت سے تمہاری تین ماہ کی تنخواہ موجود ہے۔میں تم سے مذاق کر رہا تھا ، ایک تلخ سبق سکھانے کے لیے۔۔
الوینہ بے چارگی سے مسکرائی اور شوکت سراج نے اس کے چہرے کے تاثرات پڑھے ۔”یہ ممکن ہے ” ۔۔۔۔۔ وہ بس اتنا ہی کہہ سکا۔
وہ شکریہ ادا کرتے ہوئے باہر نکل گئی ۔میں نے اسے جاتے ہوئے دیکھا اور سوچا !

“اس دنیا میں کمزور کو دبانا کتنا آسان ہوتا ہے ۔”

روسی ادب سے ماخوذ
انگریزی عنوان: A Nincompoop، مصنف انتون چیخوف
(ایڈیٹر نوٹ : انتون چیخوف (29 جنوری 1860 – 15 جولائی 1904) ایک روسی ڈرامہ نگار اور مختصر کہانی کے مصنف تھے. انہیں تاریخ کے مختصر افسانے کے عظیم ترین مصنفین میں شمار کیا جاتا ہے۔دی جرنلسٹ ٹوڈے سے منسلک صحافی ومترجم ملیحہ سید نے اس افسانے کو اس کمال ہنر سے اردو ادب اور پاکستانی کلچر میں ڈھالا ہے کہ گویا انتون چیخوف نے یہ افسانہ پاکستانی رویوں ، کلچر کو مدنظر رکھتے ہوئے اردو میں ہی لکھا ہو .)

Copyright © The Journalist Today

کچھ صاحب تحریر کے بارے میں

ملیحہ سید
ملیحہ سید
ملیحہ سید سینئر صحافی و کالم نگارہ ہیں . انگریزی کے موقر قومی روزنامے میں بطور ایڈیٹر اپنے فرائض سر انجام دے چکی ہیں . شاعری ، افسانہ نگاری تراجم سمیت ادب و صحافت کے دیگر شعبوں میں اپنی منفرد پہچان رکھتی ہیں . ملیحہ سید اب ""دی جرنلسٹ ٹوڈے"" کے لیے مستقل بنیادوں پر لکھ رہی ہیں

دیگر مصنفین کی مزید تحاریر

الیکشن کے معشیت پر...

ایک طرف یہ نظریہ اور سوچ رائج العام ہے کہ جمہوری نظام حکومت کی فعالیت...

مزاحمتی شاعری اور ہماری ذہنی حالت

شاعری شاید لطیف جذبات کی عکاس ہے یا پھر انسانی جبلت کی لیکن شاعری میں ایسی باتیں کہہ دی جاتی ہیں جو عام انسانی...

ہمارے نمک میں اثر کیوں نہیں

پاکستان اور افغانستان کا آپسی تعلق لو اینڈ ہیٹ جیسا ہے یعنی ایک دوسرے کے بغیر رہ بھی نہیں سکتے اور ایک دوسرے کے...

محکمہ زراعت کا خوفناک پراپرٹی سکینڈل !

اب تک سنتے آئے تھے کہ پراپرٹی میں بہت فراڈ ہوتا ہے ۔ طاقتور مافیا غریب شہریوں کو لوٹ لیتا ہے ، کہیں کاغذات...

پاکستان کا موجودہ سیاسی کھیل

پاکستان کے سیاسی گراونڈ میں اس وقت بہت ہی دلچسپ کھیل جاری ہے، ایک وقت تھا کہ سب یہ سوچ رہے...

اس پوسٹ پر تبصرہ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ سروس کی شرائط سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ ایک تحریری معاہدہ ہے جو اس وقت واپس لیا جا سکتا ہے جب آپ اس ویب سائٹ کے کسی بھی حصے کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کرتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

یہ بھی پڑھئے

مزاحمتی شاعری اور ہماری ذہنی...

شاعری شاید لطیف جذبات کی عکاس ہے یا پھر انسانی جبلت کی لیکن شاعری میں ایسی باتیں کہہ دی...

ہمارے نمک میں اثر کیوں...

پاکستان اور افغانستان کا آپسی تعلق لو اینڈ ہیٹ جیسا ہے یعنی ایک دوسرے کے بغیر رہ بھی نہیں...

محکمہ زراعت کا خوفناک ...

اب تک سنتے آئے تھے کہ پراپرٹی میں بہت فراڈ ہوتا ہے ۔ طاقتور مافیا غریب شہریوں کو لوٹ...

پاکستان کا موجودہ سیاسی کھیل

پاکستان کے سیاسی گراونڈ میں اس وقت بہت ہی دلچسپ کھیل جاری ہے، ایک وقت تھا کہ...

فریڈرک نطشے کی کتاب ماروائے خیر و شر، ایک تجزیہ

شیطان سے لڑتے ہوئے ہمیشہ محتاط رہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ بھی ایک شیطان بن جائیں"۔ کچھ مہینے پہلے جب یہ جملہ...

ابن رشد کے پانچ اہم سیاسی اور سماجی افکار

ابنِ رشد عالم اسلام میں ایک اہم ترین مفکر گزرے ہیں جن کے سیاسی اور سماجی نظریات نے اس وقت کے ایوانوں میں ناصرف...

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی صاحب اور ان کی تفہیمات

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اٹھارویں صدی کی نابغہ روزگار شخصیت ہیں۔ رجوع الی القرآن و الحدیث ،دعوت علوم اسلامی کے احیاء اور تجدید...

کہانی اور جنس !

ادب میں جنس کا تذکرہ، تلذذ یا شہوت کو بڑھاوا دینے کے لئے نہیں کیا جاتا۔ جنس کا سرسری ذکر یا بیان اسی صورت میں...

الکیمسٹ ، خواب اور یقین کا سفر

الکیمسٹ کا شمار دنیا کے بہترین ناولز میں ہوتا ہے، یہ ناول برازیل کے مشہور مصنف پاﺅلو کوہیلو نے پرتگالی زبان میں 1987ءمیں لکھا...

کتاب یاترا ۔۔ ” بات رہتی ہے” کلیاتِ فرتاش سید

فرتاش سید ، جنہیں مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے مگر جو آیا ہے اس نے جانا ہے اور یہی انسان کی...