پی ٹی وی کی صبح کی نشریات میں چاچا جی کازندہ دل کردار مستنصر حسین تارڑ کی شخصیت کا صرف ایک حوالہ ہے کیونکہ ان کی ذات کی سحر انگیزی کو ایک درجے میں مجتمع کرنا ممکن ہی نہیں۔ سفرنامہ، ناول،کالم، ڈرامہ نگاری اور ٹی وی میزبانی تو ایک طرف مستنصر حسین تارڑ نے لگ بھگ تین چار سو ڈراموں میں اداکاری کے جوہر بھی دکھارکھے ہیں۔ چاچا جی یہ کہنے میں ذرا بھی عار نہیں محسوس کرتے کہ وہ بنیادی طور پر آوارہ گرد ہیں اور حادثاتی طور پر ادیب بن گئے۔ نگر نگر گھومنا، پہاڑوں پر جانا، مطالعہ اور تخلیق ان کے من پسند مشاغل ہیں۔ خود ادیب ہونے کے باوجود شاعروں کی مخالفت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ تحریر کااسلوب اور اندازِبیان اتنا مسحور کن کہ دنیا کی کئی ممالک کی جامعات میں ان کی نثر اردو نصاب کا حصہ ہے۔
سوال: سعادت حسن منٹو کے آپ ہمسائے رہے ہیں کیا انہیں دیکھ کر یا آئیڈیل سمجھ کر ادبی دنیا سے ناطہ جوڑا؟
جواب:مجھے بچپن میں ادیب بننے کا قطعی طور پر کوئی شوق نہیں تھا۔میں اگر لٹریچر یا میڈیاکی دنیا میں آیا تو یہ محض ایک اتفاق ہے۔ میں ہمیشہ یہ کہتا ہوں کہ میں حادثاتی ادیب ہوں، ایک منصوبہ بند یا پلینڈ ادیب نہیں ہوں، بچپن میں مجھے بہت ساری چیزوں کا شوق تھا، میں سکے جمع کرتا تھا، ڈاک کے ٹکٹ جمع کرتا تھا، فلمی ہیروئنز کی تصاویر جمع کرتا تھا، ایکٹنگ کا شوق تھا حالانکہ اس وقت مجھ میں اداکاری کا زیرو ٹیلنٹ تھا۔ چنانچہ شوق تو بہت سارے تھے لیکن ان میں پڑھنے کا شوق جو تھا وہ بہت شدت کے ساتھ تھا اور وہ ابھی تک اسی شدت کے ساتھ چلا آرہا ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی ایک دن مطالعے کے بغیر گز ر جائے۔ اس لئے حادثاتی طور پر میں ادیب بن گیا۔ اس کی تفصیل میں کیا جانا‘ بس میں انیس سو اٹھاون میں برطانیہ میں تھا وہاں سے نوجوانوں کا ایک وفد سوویت یونین گیا، وہاں یوتھ فیسٹیول تھا مجھے بھی اس وفد میں شامل کرلیاگیا۔میں اس وقت شایداٹھارہ برس کا تھا۔ ہم پہلے لوگ تھے جو پاکستان سے سوویت یونین گئے۔ اس زمانے میں سوویت یونین آئرن کرٹن کہلاتا تھااور اس کے اندر پاکستانیوں کو جانے کی اجازت نہیں تھی کیونکہ ہم شروع سے ہی امریکہ کے قریب رہے ہیں، بہر حال جب میں واپس آیا تو نوائے وقت کے مجید نظامی صاحب کو کسی طرح پتا چلاکہ پاکستانی نوجوان سوویت یونین کا وزٹ کرکے آیا ہے‘ انہوں نے مجھ سے رابطہ کیا کہ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ آ پ سفر نامہ لکھ کرسوویت یونین میں ہونے والے مشاہدات کو قارئین تک پہنچائیں، مجھے اس کام کا کوئی تجربہ نہیں تھا لیکن میں نے ”لندن سے ماسکو تک“ کے نام سے سفرنامہ لکھنے کی کوشش کی۔اس زمانے میں ہفتہ وار رسالہ ”قندیل“ بہت مقبول تھا جس میں وہ سفرنامہ تصاویر کے ساتھ تین اقساط میں شائع ہوا۔ یہ میری پہلی تحریر تھی، میں کچھ سال مزید برطانیہ رہا اور پھر واپس آگیا۔ بعض اوقات ابتدائی کامیابی بھی آپ کے سفر کو آسان بنادیتی ہے یہی میر ے ساتھ ہوا، ”نکلے تیری تلاش میں“ اور ”فاختہ“ کے کچھ حصے ماسکو یونیورسٹی کے اردو نصا ب میں شامل ہوگئے جو تیس پینتیس سال سے ہیں ویسے بھی اس کا چرچہ کافی ہوا تو اس سے آہستہ آہستہ آگے چلنا شروع کیا، پھر آپ کو لت پڑجاتی ہے کیونکہ ادب ایک نشہ سا ہی ہے۔
سوال: حادثاتی ادیب سے مشقتی ادیب تک کا سفر کیسے طے کرلیا؟
جواب:میں خود کو مشقتی ادیب اس لئے کہتا ہوں کیونکہ نثر بنیادی طور پر مشقت طلب کام ہے، میر ے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ میں شاعروں کے خلاف ہوں، بغض رکھتا ہوں۔ یہ بالکل صحیح ہے اور میں اس بات کو ماننے سے انکار نہیں کرتا لیکن میں برے شاعروں کے خلاف ہوں جو زبردستی اپنا کلام سناتے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں ہیں، میرے پاس ہر مہینے لگ بھگ تیس چالیس کتابیں آتی ہیں جن میں ایک یا دو نثر کی ہوتی ہیں باقی سب شاعری کے مجموعے ہوتے ہیں، خود فراز جیسا شاعریہ کہتا تھا کہ یار تارڑ ہم ہوائی جہاز میں سفر کر رہے ہوتے ہیں اورواش روم میں جاتے ہیں تب بھی ہمیں مصرعے موضوع ہونے لگتے ہیں لیکن نثر کے لئے ایسا بالکل نہیں ہے، نثر لکھنے کے لئے میں چالیس برس سے روزانہ اپنی میز پر شام سات سے رات بارہ بجے تک مشقت کرتا ہوں، بیٹھنا بھی مشقت سے کم نہیں،پوری توجہ لکھائی پر دینا جبکہ باقی دنیا انجوائے کر رہی ہے، فنکشنز میں جار ہی ہے، میل ملاپ کر رہی ہے اور آپ اپنے پراجیکٹ پر سر جوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ شاید اسی لئے کہا جاتا ہے کہ بڑی نثر دس فیصد مشاہدہ ہوتی ہے جبکہ باقی نوے فیصد پسینہ ہوتی ہے اس لئے نثر نگار مشقتی ہوتے ہیں۔
سوال: آپ بچوں کے پسندیدہ میزبان رہے ہیں، کچھ اپنی ابتدائی زندگی اور تعلیم کے متعلق بتائیں؟
جواب: میری پیدا ئش یکم مارچ انیس سو انتالیس کو لاہور میں ہوئی۔ پہلے مجھے مسجد میں داخل کروایا گیا جہاں میں نے قرآن پاک پڑھا، نماز سیکھی لیکن حسب معمول مولانا کا جو پرتشدد رویہ تھا اس نے مجھے بہت باغی کردیا، اس کے بعد میں رنگ محل مشن ہائی سکول آیا جہاں ایک بالکل مختلف ماحول ملا۔ وہاں ہمیں انگریز خواتین اساتذہ نے پڑھایا، کرسیاں اور بنچ میسر آئے، اس زمانے کے لحاظ سے بہت ماڈرن اسکول تھا۔ اس کے بعد میرے والد صاحب نے گکھڑ میں ایک سیڈفارم ’رچنا نرسری فارم‘ قائم کیا۔گکھڑ میرا ننھیال بھی ہے والد صاحب ہمیں دو سال کے لئے وہاں لے گئے‘ وہاں پر میں سرکاری سکول میں داخل ہوا جو مکمل طور پر ٹاٹ سکول تھا‘ وہاں پر مجھے خاصی پرابلم ہوتی تھی کیونکہ میرا گھرانہ معاشی طور پر قدرے آسودہ تھا، میرے نانا بھی نمبر دار تھے چنانچہ میں سکول میں لٹھے کی شلوار اور اس کے اوپر چھوٹی سی اچکن پہن کر جاتا تھا جبکہ میرے کچھ ہم جماعت لمبی قمیض پہنتے تھے کہ شاید نیچے کچھ نہ پہننا پڑے۔ وہ مجھے چھیڑتے رہتے تھے اور ہمیشہ سونے کی چڑیا کہتے تھے۔ میں روتا ہوا گھر آتا تھا۔ اس کے بعد میں پھر رنگ محل مشن ہائی سکول آیا۔ یہاں پر مجھے پینڈو کہا جانے لگا کیونکہ گاؤں میں رہنے سے میرا لہجہ پنجابی ہو گیا تھا۔ تو میں نے ساری عمر سونے کی چڑیا اور اس پینڈو کے درمیان گزاری ہے، مجھے کہیں بھی کھلے دل سے قبول نہیں کیا گیا نہ شہر والوں نے کیا نہ گاؤں والوں نے کیا۔ اس کے بعدمسلم ماڈل ہائی سکول پھر گورنمنٹ کالج گیا، پھر انگلینڈ ٹیکسٹائل کے لئے ڈپلومہ کیا، ڈپلومہ کم اور پانچ چھ سال آوارہ گردی زیادہ کی۔میری تعلیم والدین کی خواہش کے مطابق کچھ زیادہ پختہ نہیں ہوئی۔ لیکن ہوایہ کہ میں نے لوگوں کے نزدیک جو بے مقصد زندگی گزاری کہ ٹینٹ اٹھایا ہوا ہے اور ہائیکنگ ہورہی ہے‘ آوارگی ہی تھی ناں۔کیونکہ ان دنوں یہ (پاکستان میں) نہیں ہوتا تھا، میں پہلا پاکستانی تھا جو ٹینٹ لے کر نکلا اورلفٹیں لے کر انگلینڈ اور یورپ کی سیر کی‘ پھر باقی زندگی بھی اسی طرح گزرتی رہی تو میرے وہ تجربات لٹریچر میں میرے بہت کام آئے کیونکہ جب میں نے لکھنا شروع کیا تو‘ یہ دعوے کی بات نہیں ہے‘ جتنا میرا دنیا گھومنے کا تجربہ تھا وہ اب جاکر لوگوں کو ہو رہا ہے‘ جب سے باہر کے ممالک میں مشاعرے پڑھے جانے لگے ہیں۔ وہ کہتے ہیں تارڑ ٹھیک ہی لکھتا تھا۔ نگر نگر گھومنے کے تجربے نے مجھے بہت کچھ دیا، میرے لٹریچر میں یور پ بھی ہے، ایشیا بھی ہے، گاؤ ں بھی ہے،شہر بھی ہے۔ ناول کے لئے آپ کو طوائف سے لے کر ولی اللہ تک کے درمیان انسانیت کے جتنے رنگ ہیں ان کا تجربہ بڑا ضروری ہے، تجربے سے یہ مراد نہیں کہ آپ کوٹھے پر جانا شروع کردیں مطلب کہ آپ کو آگاہی ہو۔۔۔۔۔اور نہ ہی آپ ولی اللہ بن جائیں صرف آگاہی،۔۔۔۔ جب تک آپ کے پاس یہ نہیں ہوگا آپ اچھا یا بڑا ناول نہیں لکھ سکتے۔
سوال:سفرنامہ، ناول، ڈرامہ نگاری، کالم نویسی اور ٹی وی میزبانی اتنے فرائض کیسے سر انجام دے لئے آپ نے؟
جواب: ہمارے ہاں یہ بڑی پرابلم ہے کہ آدمی پر مہر لگا دی جاتی ہے کہ یہ ناول نگار ہے، کالم نویس ہے یا افسانہ نگار ہے پھر اسے الماری میں بند کردیا جاتا ہے کہ یہ برینڈ ہوگیا ہے۔ جس طرح مویشی کو برینڈ کرتے ہیں اسی طرح ادیب کو بھی برینڈ کرنا چاہتے ہیں، بدقسمتی سے میں اس تقسیم میں آتا نہیں ہوں، میرا ہمیشہ یہی جواب ہوتا ہے کہ اگر آپ نے مجھے برینڈ کرنا ہے تو یہ کہہ لیں کہ میں بنیادی طور پر ایک آوارہ گرد ہوں۔ کبھی میں افسانے کی گلی میں جا نکلتا ہوں (ابھی میرا افسانوی مجموعہ ”پندرہ کہانیاں“ آیا ہے) کبھی سفرنامے کی جانب، کبھی ڈرامہ، کبھی کالم، یہ مختلف گلیاں ہیں جن میں میں گھومتا پھرتا رہتا ہوں لیکن کسی گلی میں زیادہ دیر قیام نہیں کرتا‘ کیونکہ بنیادی طور پر میں آوارہ گرد ہوں۔
سوال:روسی ادیبوں سے آپ کی محبت مثالی ہے ان کے انداز بیاں اور اسلوب نے آپ کو کس حد تک متاثر کیا؟
جواب: بات یہ ہے کہ مجموعی طور پر میں نے سبھی کو پڑھا ہے لیکن روسی ادب کے دو ادیبوں ٹالسٹائی اور دوستووسکی کاکام تو لاجواب ہے‘ مطلب یہ ہے کہ آپ جب دنیا کے دس بہترین ناولوں کی فہرست بناتے ہیں تو ٹاپ پر ”وار اینڈ پیس“ ہی آتا ہے، جو ٹاپ پر”’وار اینڈ پیس“ کو نہیں لاتے وہ ”دی برادرز کارمازوف“ کو لے آتے ہیں مگر پہلی پوزیشن روسیوں کے پاس ہی رہتی ہے، میری پسندیدگی کی بنیادی وجہ یہ ہے کی روسیوں کا مزاج مشرقی ہے‘ اس میں جو اداسی ہے اور موت کی نزدیکی۔۔۔ یعنی موت کے قریب جا کر زندگی بسرکرنا اور ایک ذلت آمیز زندگی بسرکرنا۔۔۔ یہ آپ کو رشیئن لٹریچر میں بھرپور ملے گا۔ان کے اور ہمارے معاشرتی حالات میں کافی مماثلت ہے۔ ہماری طرح وہ بھی جذباتی ہیں۔ جلدی بھڑک اٹھتے ہیں اور ایک دم محبت میں بھی مبتلا ہوجاتے ہیں‘ شاید یہی وجہ تھی کہ میں ان کی جانب زیادہ متوجہ ہوا کیونکہ وہ میری قلبی واردات کے قریب تھا جبکہ جو مغربی یا امریکی تخلیق کار ہیں وہ ہماری ثقافت سے تھوڑا دور ہیں‘ اگرچہ ان میں بھی میرے بہت سارے پسندیدہ نام ہیں۔ لاطینی امریکہ کے رائٹرز میں بھی مشرقی اداسی موجود ہے۔ بنیادی طور پر ادب اداسی کو مجتمع کرنے کا نام ہے، تمام باب اداسی کی مختلف پرتوں کو کھولیں یہ لٹریچر کی خوبصورتی ہے اور کسی بڑے آدمی نے یہ کہا تھا کہ بڑا ناول وہ ہوتا ہے جس کو پڑھنے کے بعد آپ خود کو اداس محسوس کریں۔ طمانیت محسوس نہ کریں بلکہ ایک خاص اداسی آپ کے اندر آجائے۔
سوال: آپ کی تحریریں پاکستانیت کے پیغام سے بھرپور ہیں، کیا آپ نے تخلیق کے عمل میں کسی نظرئیے کو فالو کیا ہے؟
جواب: میں جوکچھ ہوں اسے پاکستانیت کہہ لیں یا سرزمین سے لگاؤکہہ لیں‘ مگر یہ فطری ہے۔ میں زبردستی یا کسی مفاد کی خاطر نظریات کے پرچار کا قائل نہیں ہوں۔ میرا ماننایہ ہے کہ یہ میری اپنی سرزمین ہے اور اس کے جتنے بھی قدرتی عوامل ہیں، جو درخت ہیں جو پہاڑ ہیں، ساری سرزمین کے جتنے مناظر ہیں، جتنی خوشبوئیں ہیں،جتنے جانور ہیں، جتنی خوراکیں ہیں وہ سب مجھ پر اثر انداز ہوتی ہیں اور انہوں نے ہی میرے ناول اور سفرناموں میں آنا ہوتا ہے۔ مثلاً اگر آ پ مجھے کہیں کہ میں علی گڑھ کے بیک گراؤنڈ کے ساتھ ایک ناول لکھ دوں تو میں نہیں لکھ سکوں گا۔۔۔ہاں گوجرانوالہ، پنڈی یا کوئٹہ کی بات اور ہے۔ میرا نظریہ صرف یہ ہے کہ اس سرزمین کے ساتھ جو میری وابستگی ہے وہ فطری ہے یعنی مجھے چار پانچ دفعہ برطانیہ براستہ سڑک جانے کا اتفاق ہوا ہے تو ایسا کبھی نہیں ہوا کہ واپسی پر میں طورخم بارڈر پر انٹر ی کے وقت سجدے میں نہ گیا ہوں اور میں نے زمین کو چوما نہ ہو‘ یہ میں پاکستانیت کے لئے نہیں کررہا، یہ میرے اندر اپنی سرزمین کے لئے اداسی ہے لیکن میں نے اس کی تصویر کبھی نہیں کھنچوائی، یہ کبھی نہیں ہو اکہ میں یو این او گیا ہوں اور وہاں میں نے اپنے ملک کا پرچم تلاش نہ کیا ہو۔
سوال: اب تک کتنے ممالک یا براعظموں کے سفر کر چکے ہیں اور سب سے خوبصورت کس کوپایا؟
جواب: میں نے بہت زیادہ سفر نہیں کیا میری بیوی نے ایک دن بہت اچھی بات کہی تھی کہ تم نے اتنے ملک نہیں دیکھے جتنا شور مچایا ہوا ہے، یہ بالکل ٹھیک ہے کیونکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں جہا ں بھی گیا ہوں میں نے وہاں کا سفرنامہ لکھ دیا اب باہر کے سفرنامے بیس پچیس تو ہوں گے پھرتیرہ چودہ سفرنامے شمالی علاقہ جات کے بھی ہیں تو لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ یہ ہروقت گھومتا پھرتا رہتا ہے۔ حالانکہ میرا خیال ہے کہ پوری دنیا کا پانچ فیصد بھی میں نے نہیں دیکھا، دنیا بہت بڑی ہے ساؤتھ امریکہ ایک بالکل الگ دنیا ہے میں وہاں گیا ہی نہیں، افریقہ ہے، ساؤتھ ایسٹ ایشیا ہے تو یہ واضح ہے کہ میں نے اتنا زیادہ نہیں دیکھا لیکن میری نسل کے جو لوگ تھے ان سے بہت زیادہ دیکھا ہے۔
سوال: پاکستان کے شمالی علاقہ جات کو آپ کا محبوب کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، اس محبت کی وجہ کیا ہے؟
جواب: محبت کی کبھی کوئی توجیہہ نہیں ہوتی، آپ کسی سے یہ نہیں پوچھ سکتے کہ آپ کو فلاں خاتون یا شے سے محبت کیوں ہوگئی ہے۔ اس ’کیوں‘ کا کوئی جواب نہیں ہوتا بس آپ کے اندرفطری جذبہ آجاتا ہے۔ اسی جذبے کے تحت مجھے لگتا ہے کہ شاید میں نے شگروادی میں دریائے برالڈو کے کنارے کسی چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہونا تھا لیکن میں لاہور میں پیدا ہوگیا۔ تو ہر شخص کو مختلف جگہوں پر جاکر احساس ہوتا ہے کہ شاید میں کبھی یہاں پر آیا ہوں اور وہ ایک علیحدہ ہی فلاسفی ہے کہ ایساکیوں محسوس ہوتا ہے۔ میں نے بہت بار یہ محسوس کیا ہے جب میں شمال کی وادیوں میں کسی گاؤں گیا ہوں تو مجھے وہ جانا پہچانا لگا ہے کہ شاید یہ وہی گاؤں ہے جہاں میں نے پیدا ہونا تھا تو ’کیوں‘ کا کوئی جواب نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپریشنز کے ایک طویل سلسلے کے بعد ابھی مجھے دوبارہ زندگی دی ہے۔ پچھلے ہفتے میں فائنل چیک اپ کے لئے گیا تو ڈاکٹر نے کہا کہ آپ کے اندر ایک بلاکیج ہے اس کو ہم ہٹا دیں گے تو پھر آپ بالکل ٹھیک ہوجائیں گے، میں نے اس سے پہلا سوال یہی پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب یہ بتائیں کہ کیا اس کے بعد میں پہاڑوں پر جاسکتا ہوں؟ تو میری صحت مند ی کی خواہش پہاڑوں پر جانے سے منسلک ہے اس سے نہیں کہ میں کھانا پینا کروں گا، مزے کروں گا یا چھٹیاں مناؤں گا بس پہاڑوں پر جانے کی خواہش ہے اور میں نے ہراموش جھیل پر جانے کاپروگرام بنایا ہوا ہے، اس برس اگر زیادہ سردی نہ ہوئی تو ضرور جاؤں گا وگرنہ زندگی نے وفا کی تو اگلے برس لازمی جانا ہے۔
سوال: پاک چائنا اکنامک کاریڈور آپ کے محبوب علاقوں سے گزرے گی آپ کے خیال میں اس منصوبے سے وہاں کی ثقافت اور روایات پر کیسے اثرات آئیں گے؟
جواب: دیکھیں جی کوئی بھی سڑک اپنے ساتھ مثبت اور منفی اثرات لے کر آتی ہے۔ اب ماہر معاشیات یا سیاستدانوں کو زیادہ تفصیلات کا پتا ہوتا ہے کہ کیا ہونا ہے، منصوبے کے درپردہ عوامل کیا ہیں۔آخر چین اتنا پیسہ کیوں خرچ رہا ہے‘ وہ صرف آپ کے لئے یہ سب نہیں کررہا، اس کے اپنے بھی کوئی نہ کوئی مفاد ہوں گے اور ہونے چاہئیں، لیکن اگر ہم شاہراہ قراقرم کو دیکھیں تو اس نے شمال میں روز مرہ زندگی کو مکمل طورپر تبدیل کردیا ہے۔بالکل الگ علاقے کو دنیا سے جوڑ دیا ہے۔ جب میں پہلی مرتبہ وہاں گیا تھا تو وہاں کوئی چیز نہیں تھی، نہ بجلی تھی، نہ فریج تھی، آپ کو دودھ نہیں ملتا تھا،آٹا نہیں ملتا تھا لیکن اب جا کر آپ دیکھیں کہ ہنزہ کے نیچے جو شہر آبادہے وہ اتنا ہی بڑا ہے جتنا لاہور کا شاہ عالم اور وہاں اتنی ہی چیزیں ملتی ہیں جتنی یہاں ممکن ہیں۔ وہاں روزگارکے مواقع بڑھے ہیں‘ لوگوں کو کاروبار کرنے کا پلیٹ فارم ملا ہے اور جب
ایک سڑک گزرتی ہے تو اس کے ا وپر سے گزرنے والی ٹریفک معاشی خوشحالی لے کر آتی ہے‘ کیونکہ اس ٹریفک نے وہاں رکناہے، وہاں سے خریداری کرنی ہے‘کھانا کھا نا ہے، چائے پینی ہے، ثقافتوں کا تبادلہ بھی ہونا ہے۔ تومیری رائے میں تو یہ بہت بڑا اور زبردست منصوبہ ہے لیکن میرے خیال میں یہ سارا کاریڈور اتنی جلدی نہیں بنے گا جتنا کہا جا رہا ہے کیونکہ اگر آپ نے شمالی علاقہ جات دیکھے ہیں تو اس میں تعمیراتی کام مکمل ہونے میں کئی کئی سال لگ جاتے ہیں۔عطا آباد جھیل والے علاقے کی مثال سامنے ہے اور خوش قسمتی سے میں نے کاشغر سے کاشغرگان اور کاشغرگان سے خنجراب تک سفر کیا ہوا ہے۔ اِدھر سے بھی اُدھر گیا ہواہوں اور چائنا سے بھی اُدھر آیاہوا ہوں۔ کاشغر سے خنجراب تک کا علاقہ میرے ذہن میں یہ تھا کہ اسی طرح پہاڑی علاقہ ہوگا جیسا پاکستان والی طرف کا ہے، موڑ ہوں گے، دریا ہوں گے اور بڑا مشکل سفر ہوگالیکن اس کے برعکس وہاں بالکل میدان ہے۔ وہ شاہراہ سیدھی آتی ہے کہیں تھوڑی سی چڑھائی ہے جیسا قراقل جھیل کے علاقے میں دس منٹ کی چڑھائی آتی ہے پھر آپ خنجراب پہنچ جاتے ہیں۔ چنانچہ ادھر کوئی پرابلم نہیں ہے سب کچھ بنا ہوا ہے، اصل مسئلہ ہمیں یہاں شمالی علاقہ جات میں ہونا ہے، رائے کوٹ تک کا علاقہ تو بنا ہوا ہے‘ رائے کوٹ سے پھر حویلیاں تک اور پھر حویلیاں سے آپ جب گوادر جاتے ہیں تو اس میں وقت لگتا ہے۔ یہ دو تین سال کا کام تو نہیں کم از کم آٹھ دس سال اس منصوبے کے مکمل ہونے میں لگ جانے ہیں۔
سوال: پی ٹی وی پر آپ کے مارننگ پروگرام نے ایک جنریشن کو متاثر کیا ہے آج کے مارننگ شو بھی آپ کی نظر سے گزرتے ہیں، کیا کمی بیشی محسوس کرتے ہیں؟
جواب: میرا یہ نظریہ ہے کہ ہر عہد اپنے ساتھ اپنی اقدار اور ثقافتی روایات لے کر آتا ہے جس کے حساب سے لوگوں کی پسند بھی تبدیل ہوتی جاتی ہے‘ میرے مارننگ شو کا اس زمانے سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ ایک تو اس وقت میرا شو اکلوتا تھا اگر کوئی اور ہوتا تو ہم اس سے کمپئیر کرتے۔مجھے یقین ہے کہ جس طرح کا شو میں تب کرتا تھا اگر اب کروں تو کامیاب نہیں ہوگا کیونکہ نہ تو میں رقص کرسکتا ہوں، نہ میں نخرے دکھا سکتا ہوں، میر ے پاس بہت زیادہ لباس بھی نہیں ہیں‘ نہ میں شادی کی رسو م کے بارے میں کچھ جانتا ہوں جو اس وقت مارننگ شو کا مقبول حصہ ہیں۔ جولوگ یہ کر رہے ہیں وہ ٹھیک کررہے ہیں کیونکہ ان کا شو چل رہا ہے اور ہمارے ہاں ریٹنگ ہی کامیابی کی دلیل ہے۔ ایکٹرز زیادہ بہتر انداز میں شوز کر رہے ہیں کیونکہ کمپئیرنگ کے لئے اداکاری آنا بھی ایک شرط ہے،اس کے ساتھ آپ کو رائٹر بھی ہونا چاہئے، سکرپٹ رائٹر بھی ہونا چاہئے اس کے بعد انفارمیشن آتی ہے جس کی اب ضرورت بھی نہیں رہی کیونکہ وہ تو آپ کو کمپیوٹر سارا کچھ دے دیتا ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ جتنے بھی کمپئیرز ہیں ان کے پاس انفارمیشن ہے بھی نہیں۔ مثلاًایک دفعہ مجھے ایک مارننگ شو میں شرکت کے لئے دبئی بلوایا گیا اور وہاں میرے تعارف ان الفاظ سے ہوا کہ میں پاکستان کے تمام مارننگ شو کا باپ ہوں تو میں نے ان کی تصحیح کچھ یوں کی کہ جتنے بھی مارننگ شوز چل رہے ہیں وہ سب تو میر ے نہیں ہیں صرف ایک آدھ بچہ میرا ہے۔میں ان کی ذمہ داری نہیں لیتا کیونکہ انہوں
نے اپنا ہی حساب کتاب کیا ہوا ہے، میں کسی کو تنقید کا نشانہ نہیں بنا رہا، بات صرف یہ ہے کہ ہمارے شوز گزرے زمانے کے لحاظ سے ٹھیک تھے، آج کے شوز موجودہ زمانے کے لحاظ سے ہیں، مجھے آپ منہ مانگی رقم بھی دیں تو پھر بھی میں ایسے شوز کا حصہ نہ بنوں جیسے ہمارے ہاں رمضان کے دوران ہوتے ہیں اور عوام کو تحائف کا لالچ دے کر ذلیل و خوار کیا جاتا ہے۔میں صرف ایسے شو کی میزبانی کرنا چاہوں گا جس سے عوام کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کوئی بہتری آسکے۔ایسا کام نہ ہونے کی وجہ سے میں شو نہیں کررہا دوسرا ٹی وی میڈیم نوجوانوں کے لئے زیادہ موزوں ہے، میں اتنا زیادہ بوڑھا نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ پرانے لوگوں کو چمٹا نہیں رہنا چاہئے نئی جنریشن کو مواقع اور وقت ملنا چاہئے۔
سوال: آپ نے دنیابھر کا سفر کیا۔ آپ نے اپنے سفری تجربات کو سفرناموں کے قالب میں بھی ڈھالا۔ آپ نے سفرکو کس حد تک مفید پایا؟
جواب: میں نے اپنی عمر کے لحاظ سے سفرنامہ لکھا اور وہی جذبات بیان کئے جیسے ”پیار کا پہلا شہر“ میں ایک لاابالی کچے ذہن کا فوری طور پر محبت میں مبتلا ہوجانے والانوجوان جوکہ میں تھا‘ بجائے اس کے میں ثابت کرتا کہ میں اس وقت افلاطون تھا اور دریائے سین کے کنارے بیٹھ کر کسی فلسفے پر غورکرتا تھا یہ تو بکواس ہوتی۔پھر جب میری شادی ہوگئی تو سفر نامے میں میرے بچے آنے شروع ہوگئے۔پھر میں نے اپنی فیملی کے ساتھ سفر کیا تو اس عمر کے احساسات کو میں نے سفرنامے میں لکھا۔ پھر جب بچے بڑے ہوکر اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوئے تو میں اکیلا ہوگیا او ر میں نے دوستوں کے ساتھ جانا شروع کردیا تو اس احساس کولکھا۔اس طرح لکھنے کا ایک لطف تو یہ ہے کہ آ پ زندگی کے مختلف مراحل کا لطف اٹھاتے ہیں‘ جو اہم چیز میں بتانا چاہتا ہوں کہ کوئی بھی سفر جو دس دن کا ہوتا ہے یا پندرہ دن کا، سفرنامے لکھتے ہوئے آپ اس کو دوبارہ سے زندہ کرتے رہتے ہیں، ابھی میرے تین سفرنامے آئے ہیں آسٹریلیا، امریکہ اور راکا پوشی نگرکا۔ دو تقریباً تیار ہیں‘ ایک سندھ کا اور ایک پنجاب کا، سندھ اور پنجاب کے سفر صرف ایک ایک دن کے ہیں، میں صبح سویرے دوستوں کے ساتھ نکلا اور شام کو واپسی ہوگئی اب ہوتا یہ ہے کہ سفر کے دوران پیش آنے والا واقعہ ایک لمحے میں رونما ہوجائے لیکن جب آپ اس کو لکھنے بیٹھتے ہیں تو ہوسکتا ہے کہ اس کو بیان کرنے میں آپ کو دو دن لگ جائیں اس کا مطلب ہے کہ وہ چند لمحے دو دنوں پر مشتمل ہیں۔ اس کی واضح مثال میراسفرنامہ”غار حرا میں ایک رات“ ہے۔غار حرا میں گزری ایک رات کو میں نے سات آٹھ ماہ میں لکھا، اس کی منصوبہ بندی کی اور پھر ہر لمحے کے جذبے کو محسوس کرکے لکھا تو دینی طورپر، جذباتی طور پر، یا تصوراتی طور پر، میں نے وہاں ایک رات نہیں آٹھ ماہ گزارے۔چنانچہ یہ سفر نامہ لکھنے کی خوبصورتی ہے کہ ہم گزرے لمحات کو دوبارہ سے جیتے ہیں اورپانچ لمحوں کو پانچ دنوں پر محیط کردیتے ہیں۔
سوال:ایک دور تھا کہ پاکستان میں ترقی پسند تحریک کا بہت شہرہ تھا۔ کیا آج بھی ادب میں ترقی پسندی کا رواج موجود ہے؟
جواب: دیکھیں یہ ایک قسم کا رویہ ہوتا ہے، مختلف تحریکیں آتی ہیں جو اپنے انجام کو پہنچ کر ختم ہوجاتی ہیں لیکن ان کے اثرات موجود رہتے ہیں، مثال کے طورپر مجھ سے اگر کوئی پوچھے کہ آپ کے استاد کون تھے، استاد سے مراد جن کے کام کو پڑھا اور اس سے سیکھا تو وہ سارے کے سارے ترقی پسند تھے کیونکہ ان دنوں بڑے ادیب تھے ہی ترقی پسند۔مثلاً آپ راجندر سنگھ بیدی کو لے لیں، کرشن چندر کو لے لیں یا جتنے بھی شاعر ہیں ان کو لے لیں وہ سارے کے سارے ترقی پسندہیں اور ان سے ہم نے سیکھا۔ میں کمیونسٹ کبھی نہیں رہا لیکن میں ہمیشہ ترقی پسند رہا ہوں اور باآوازبلند رہا ہوں کیونکہ نبی کریم ؐ کے ساتھ عقیدت کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ مولانا حسرت موہانی کہا کرتے تھے کہ میں مارکسسٹ مسلمان ہوں۔ آج کے ادب میں ترقی پسندی کارواج اس طرح نہیں ہے لیکن اس کے اثرات کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں کیونکہ یہ ایک مثبت تحریک تھی۔ ترقی پسندی تو یہ تھی کہ انگریزوں کی غلامی سے آزادی حاصل کی جائے، کولونیئل پاور کے اثر سے نکلا جائے‘ اب یہ نقطہ نظر صحیح ثابت ہورہا ہے، ترقی پسندی یہی تھی کہ لوگ سوویت یونین کا ساتھ دیتے تھے کیونکہ باقی قوتیں تو قابض قوتیں تھیں اور آپ نے ان کا ساتھ تو نہیں دینا تھا، سوویت یونین ان طاقتوں کی مخالفت کرتا تھا۔ اب سوویت یونین کے نہ ہونے سے کتنی پرابلمز ہوئی ہیں۔ جیسے امریکہ کو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے۔ فلسطینیوں کا یہ حال کبھی نہ ہوتا اگر سوویت یونین موجود ہوتا۔ تو اس لئے وہ مثبت تحریک تھی جس کے اثرات اب بھی موجودہیں۔
سوال:آپ کی نظر میں ہمارے ادیب کا سماج کی ترویج‘ ترقی اور اصلاح میں کیا رول رہا ہے؟ اور کیا ادیب کا اس عمل کوئی حصہ ہوتا ہے یا ادیب کا کام خالصتاً ادب کی تخلیق ہے؟
جواب: بنیادی طو رپر ادب انقلاب لاتا نہیں ہے۔ وہ ان عوامل کی طرف اشارہ کرتا ہے جن کے رد عمل میں انقلاب آتا ہے۔ ادب خود تلوار لے کر میدان میں نہیں نکلتا بلکہ اس کا کام تو شعور اور آگاہی پیدا کرنا ہوتاہے چنانچہ وہ شعور کہاں تک انقلاب کے لئے معاون ثابت ہوتا ہے، لیوٹالسٹائی کی مثال لے لیں‘ میں نے ماسکو میں اس کی ساری ریاست دیکھی ہے‘ایک رات وہ اٹھتا ہے بوری کے کپڑے پہنتا ہے اور کہتا ہے میں کسان کے طورپر زندگی بسر کروں گا۔ مجھے یہ زندگی نہیں گزارنی۔ وہ بڑے لوگ تھے جبکہ آج کل مسائل اور ہیں، میں ان کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کیونکہ میرے دشمن پہلے ہی بہت ہیں۔دوستووسکی نے اپنے معاشرے کے بارے میں جو کچھ لکھا،چیخوف نے یا دوسرے بڑے رائٹرز نے جو لکھا، اس کو پڑھ کر لوگوں میں شعور آیا کہ تبدیلی کی ضرورت ہے تو یہ واضح ہے کہ ادیب خود میدان جنگ میں نہیں اترتا‘ وہ میدان جنگ میں اترنے کی ترغیب دیتا ہے۔
سوال:معیشت‘ معاشرت اور روحانیت انسانی زندگی کے اہم جزو ہیں۔ یہ آپس میں کس طرح جڑے ہوئے ہیں؟
جواب: ان عوامل کو اگر جوڑنا ہوتو یہ ایک بہت بڑا کاروبار بن جاتا ہے۔ روحانیت سب سے زیادہ تیز فروخت ہونے والاجزو ہے۔ میں نے سارا پاکستان دیکھا ہے جس تیزی سے روحانیت فروخت ہورہی ہے اور لوگ متمول ہورہے ہیں‘روحانیت کے فلسفے سے پہلے کبھی نہیں ہوئے۔اشفاق احمد صاحب کے انتقال کے بعد میر ے پاس کچھ لوگ آئے انہوں نے ایک اشارہ سا دیا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم ہر جمعرات کو آپ کے پاس آجایا کریں اور یہاں پر ایک محفل ہوجائے۔ میں نے انہیں واضح کیاکہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے، میں ایک نارمل انسان ہوں جو چھوٹے موٹے گناہ سے بھی لطف اندوز ہوتا ہوں اور نیکیاں کرنے کی بھی کوشش کرتا ہوں لیکن مجھ میں روحانیت والا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ آپ مجھے اس کرسی پر مت بٹھائیں حالانکہ وہ بڑی منافع بخش سیٹ ہے اور بڑا آسان کام ہے لیکن میں نے انکار کردیا۔ بنیادی روحانیت جس کو ”سپرچیوئل ازم“ کہتے ہیں اور جو مولانا روم سے آئی ہے اورعلامہ اقبالؒ سمیت سارے پنجابی شاعروں کو ملی ہے‘ وہ ہے کیا‘ وہ عقیدے سے بالاتر ہوکر انسان کو انسان سمجھنا اور اس کی عزت کرنا ہے تو میری کتابیں بھی انسان کو انسان سمجھتی ہیں اور لوگوں کو خوشی سے ہمکنا ر کرتی ہیں۔ یہ تو طے ہے اور اب مجھے اس روحانیت کی ضرورت نہیں ہے اور یہ بھی اپنی طرز کی روحانیت ہی ہے۔
سوال:عورت اور مرد کے رشتے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔ کیا مغرب جیسی آزادی فیملی یونٹ کو متاثر کرتی ہے۔ توازن کا راستہ کون سا ہے؟
جواب: ایک تو ہم مغرب سے بڑے خوفزدہ ہیں اور اس کے خلاف شوروغل بھی برپا رہتا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ مغرب بھی انسانی اقدار پر اسی طرح عمل پیرا ہے جس طرح ہم بلکہ کئی حوالوں سے وہاں ہم سے بھی بہتر انسانی اقدار ہیں۔ ہم ننانوے فیصد تک مغربی زندگی گزار رہے ہیں، ہمارا لباس، رہن سہن، ناشتے کا انڈا سلائس سب مغربی ہے‘ ہاں لیکن ان کی اخلاقی اقدار اپنی ہیں۔دوسرا فیملی یونٹ کا نظریہ اب پوری طرح ٹوٹتا جارہا ہے کیونکہ گزرتے وقت کے ساتھ معاشی خوشحالی آپ کے اخلاقی کردار میں بھی تبدیلی لاتی ہے۔ آپ ان اخلاقی اقدار پر قائم نہیں رہ سکتے جن پر آپ پہلے تھے۔ چنانچہ اب آپ غور کریں تو زیادہ تر لوگ شادی کے بعد الگ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، ہرعورت کا سب سے بڑا خواب بھی یہی ہے۔جوائنٹ فیملی سسٹم کی خواہش رکھنے والی عورت آپ کو ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔میں تو ایسی کسی بہو یا بیٹی سے نہیں ملا، پہلے ایک ایک گھر میں کئی کئی نسلیں چلتی تھیں اب صورت حال بدل گئی ہے، میرے گھر کی مثال لے لیں‘ اسے میں نے چھتیس برس پہلے اپنے ہاتھوں سے بنایا، اب میرے بیٹے نے ڈیفنس میں گھر بنایا اور وہاں شفٹ ہوگیا، سب کچھ عارضی سا ہوگیا ہے، مستقل مزاجی نہ گھروں میں رہی ہے نہ رشتوں میں، نہ اخلاق میں۔میں ہمیشہ یہ کہتا ہوں کہ ہرپچاس برس کے بعد آپ کا فیشن تبدیل ہوجاتا ہے۔ آپ کے کھانے کے طریقے تبدیل ہوجاتے ہیں۔ آپ کی اخلاقیات تبدیل ہوجاتی ہیں، سچ کی تعریف تبدیل ہوجاتی ہے، حتیٰ کہ مذہبی اطوار تبدیل ہوجاتے ہیں۔ بہت ساری چیزیں ہیں جن میں میرے سامنے تبدیلی آئی ہیں، میری والدہ برقعہ پہنتی تھیں جب ان کی تھوڑی زیادہ عمر ہوئی تو انہوں نے چادر لے لی‘ اب یہ نہیں ہے کہ خدا نخواستہ ان کے اخلاق میں کوئی مسئلہ ہوگیا، یہ صرف وقت کے ساتھ
آنے والی تبدیلی ہے۔ اس کے بعدمیری شادی ہوئی تو میری بیوی برقعہ پہنتی تھی۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کو کیا پسندہے میں برقعہ لے لوں یا چادر لے لوں؟ میں نے کہا جس چیز میں تم خوش رہ سکتی ہووہ کرو‘تم ایک کے بجائے دو برقعے پہن لو تو پھر بھی تم مجھے اتنی ہی عزیز رہوگی۔
سوال:اپنی زندگی کے تجربے کی روشنی میں آپ نئی نسل کو رہنمائی کے لئے کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
جواب: میں ارتقا پر یقین رکھتا ہوں اور میرا مانناہے کہ ہماری نئی نسل ذہنی اور جسمانی اعتبار سے ہم سے بہت بہتر ہے، وہ اپنے دل سے فیصلے کرتی ہے اور چیزوں کے بارے میں ہم سے زیادہ آگاہ ہے۔ میں تو چاہتا ہوں کہ وہ مجھ کو پیغام دیں کہ بابا جی ایسا کیا کریں اور ایسا ہوتا ہے، میرے دونوں بیٹے سول سروس میں ہیں اور ان کے پڑھنے کا اندازمجھ سے جدا تھا۔ ہم تو پڑھائی کے وقت ریڈیو کے قریب بھی نہیں جاتے تھے لیکن وہ کانوں پر ہیڈ فون لگا کرساتھ ہی جھومتے بھی تھے اورسوالوں کے جواب بھی نکالتے تھے اور سی ایس پی افسر بھی ہوگئے، اگر میں ان پر اپنا طریقہ مسلط کرتا تو وہ غلط ہوتا اسی طرح آگے ان کے بچے اور زیادہ ایڈوانس ہیں۔ نئی نسل کی جدت پسندی اچھی چیز ہے۔ دوسرے پاکستان کا جو بھی نقصان ہوا وہ ہم بزرگوں اور بابوں نے کیا ہے،نئی نسل کا تو کوئی ہاتھ ہی نہیں۔ اس طرح میں سمجھتا ہوں کہ آج کے فن کارہمارے عہد کے فن کاروں سے زیادہ بہتر ہیں، آج میں جب ڈرامے دیکھتا ہوں تو ان کے اسکرپٹس بہت برے ہوتے ہیں لیکن فن کار اپنی اداکاری سے ان کو کمال بنا دیتے ہیں۔ ڈائیلاگ ڈلیوری، پروڈکشن کوالٹی ہر چیز کمال‘ ہم ان سے سیکھ سکتے ہیں نئی نسل نے ہم سے کیا سیکھنا ہے۔