زوہیر حسن محض 17 سال کا تھا جب دو ہزار انیس میں ایک روڈ ایکسیڈنٹ کے علاج کے دوران اسے جائنٹ سیل ٹیومر یعنی کینسر تشخیص ہوا، باپ ایک کیمرہ مین تھا اور ماں ہاؤس وائف تھی ، جسکی کل کائنات اس کے چار بچے اور شوہر تھا۔ حادثہ سے پہلے وہ ایک خوشحال زندگی گزار رہے تھے۔ مگر پھر قسمت کی آزمائش میں جکڑے گئے مگر والدین نے یہ اندھی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا ۔ وہ ان کی سب سے پہلی اولاد تھی ، پہلوٹھی کی اولاد کا رومانس ہی الگ ہوتا ہے ۔ اس علاج میں انہیں بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، ظاہر ہے کہ علاج کینسر کا اور ریاست پاکستان جیسی ، جہاں اچھے ڈاکٹر کا ملنا ہی کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا اور پھر اخراجات ۔ یہ سب کیسے ممکن ہوا میں اس کی عینی شاہد ہوں ۔ جب باپ نے اپنے بیٹے کی بقاء کے لیے اپنی انا اور خودداری دونوں کو پس پشت ڈال دیا کہ بس یہ جنگ لڑنی ہے اور اللہ کے فضل سے جتنی ہے عملی کوششوں کے ساتھ ساتھ سجدے بھی طویل ہونے لگے ۔
شروع میں زوہیر بھی ڈر گیا، سہم گیا ، بڑا بیٹا تھا گھر کی صورتحال سے واقف تھا مگر اس وقت ماں نے سمجھ لیا کہ اگر ہم نے ہمت نہ دکھائی تو یہ جنگ لڑے بغیر ہار جائے گا۔ تبھی وہ ماں کے ساتھ ساتھ موٹیویشنل اسپیکر بھی بن گئی ۔ بیمار بیٹے، شوہر ، اور دیگر بچوں کو سنبھالنے کے لیے اس نے اپنے چہرے پر اطمینان اور سکون کا ایک ماسک چڑھا لیا جبکہ اس کے اندر کی ماں خوف زدہ رہتی تھی ۔۔ پرودگار کے آگے آنسو بہاتی تھی۔۔ اپنے بیٹے کے لیے رحم مانگتی تھی ، پناہ مانگتی تھی ۔ ۔۔ جائے نماز پر بیٹھے اس کی دعاؤں کا وقت بڑھنے لگا اور سجدے بھی ۔ وہ لمحہ لمحہ بیٹے کے ساتھ رہی، اس کی ڈریسنگ خود کرتی ، اس کی ہمت میں مجھے اپنی ماں نظر آتی ہے ۔دونوں کے آنسو طاقت بنے اور بیٹے کے لیے آسانیاں پیدا ہونے لگیں۔
ڈاکٹروں نے شیند دی کہ علاج ممکن ہے اور یہ ٹھیک ہو جائے گا مگر وقت لگے گا اور پیسہ تو بہر حال لگے گا ۔ ابتدا میں جتنی سوینگز تھیں وہ لگیں، پھر ادارے اور لاہور پریس کلب کے سابق صدر ارشد انصاری اور عابد نواز کے اخبارات کے بہت سارے فوٹو گرافر دوستوں نے ان کی بھرپور ہیلپ کی۔ جس جس پلیٹ فارم سے ممکن ہوا مدد لی گئی ، دوست سبب بننے لگے ۔ حتیٰ کہ ابتدائی آپریشن کے بعد ارشد انصاری کے توسط سے ہر مہینے لگنے والے انجکشن جس کی مالیت چالیس ہزار تھی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہ انجکشن ڈھائی سال لگا ۔ پہلے دن سے اب تک لڑکے کو چھوٹی بڑی کئی طرح کی سرجیوں سے گزرنا پڑا ۔ پچھلے دو سال سے میں بھی اس کارخیر کا حصہ بن گئی اور میری سوشل میڈیا وال پر دعاؤں اور سپورٹ کے لیے پوسٹس لگنے لگیں اور اللہ والوں کی مدد سے ہم آگے بڑھتے رہے۔ کچھ دن پہلے اس کا ایک اہم ٹیسٹ ہوا جس میں ہمیں یہ خوشخبری ملی کہ اس کا ٹیومر ختم ہو گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے کرم کر دیا اور والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک بحال رکھی۔ اس میں والدین کی ہمت اور بچے اور اسکے بہن بھائیوں کی مدد اہم ترین ثابت ہوئی۔
میں چونکہ کئی سالوں سے غیر محسوس طور پر اس خاندان کا حصہ تھی ۔۔ مگر چاہنے کے باوجود خود ان کے گھر نہ جا سکی۔ جس کی اہم ترین وجہ کورونا وائرس کا دور تھا اور میری اپنی والدہ کی صحت ، بیماری اور ان کی رحلت اور پھر اس کے بعد کی میری ذاتی صحت اور دیگر مسائل ۔ جو میرے لیے بہت مشکل تھا مگر اس دوران بھی عابد نواز اور ان کی مسز کی آواز پر لبیک کہتی اور کوششیں شروع کر دیتی ۔ تاہم پچھلے دنوں جب میری اپنی طبیعت نے مجھے اجازت دی یا یوں سمجھ لیں کہ ملاقات کا حکم آ گیا تو اکیس جون کی تپتی دوپہر میں رکشہ کروا کر اس کے گھر چلی گئی۔ میرے گھر سے اس کے گھر تک کا فاصلہ 45 منٹ کا تھا ۔۔
تب میری ملاقات کینسر سروائیور سے ہوئی، اسے دیکھ کر جو قلبی راحت ملی اسے بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ میں نے صرف اللہ کی رحمت اور کرم دیکھا ۔ہمارے درمیان جو مکالمہ ہوا وہ نظر قارئین ۔۔۔۔
س۔ کیسے ہو بیٹے؟
ج۔ الحمد للّٰہ میں ٹھیک ہوں
س۔ کیسا لگا یہ جنگ جیت کر؟
ج۔ بہت اچھا ۔۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے نئی زندگی دی۔ میرے والدین پر کرم کیا۔ میرے بہن بھائیوں کے آنسوؤں کی لاج رکھی اور آپ جیسی محبت کرنے والی ہستیوں کا بھرم رکھا۔ میں شکر گزار ہوں اپنے رب کا ۔۔ اور جب تک زندہ ہوں شکر گزار رہوں گا ۔
س۔ کیا سوچتے تھے اس دوران ؟
ج ۔ شروع شروع میں الجھ جاتا تھا اور ہمت ہارنے لگتا تھا مگر امی ابو اور بہن بھائی جو کہ مجھ سے چھوٹے تھے مگر ایک دم ہی بڑے ہو گئے ۔ وہ ہمت بندھاتے تھے پھر میرے کچھ دوست بھی۔ اللہ کا شکر ہے ۔
س۔ پڑھائی تو چھوٹ گئی اب کیا ارادے ہیں یہ سلسلہ شروع کرو گے ؟
ج۔ ابھی میرے لیے تعلیمی سرگرمیاں شروع کرنا بہت مشکل ہو گا کیونکہ ہمارے ہاں آن لائن پیپرز نہیں لے جاتے ۔ میں آن لائن کلاسز لے بھی لوں تو بھی پیپرز دینے جانا ہی جانا ہے ۔ اور ابھی فی الحال اتنا میں بیٹھ بھی نہیں سکتا ۔
س۔ یہ بھی ٹھیک کہہ رہے مگر پھر سارا دن کیا کرتے ہو سارا دن ؟
ج۔ میں فارغ نہیں بیٹھا۔۔۔ جب مجھے لگا کہ اب آسانی ہے تو میں نے آن لائن کورسز کرنے شروع کر دئیے۔جس میں گرافک ڈیزائننگ اور اس سے وابستہ کورسز ۔ اب ان اسکلیز پر مزید محنت کروں گا ۔ ڈگری سے skilled person بننا زیادہ بہتر ہے ۔جو میں گھر بیٹھے بن سکتا ہوں ۔ انٹر نیٹ نے بہت سہولیات فراہم کر دی ہیں ۔ آپ آسانی سے اپنی اسکلز گھر بیٹھے بہتر بنا سکتے ہیں ۔
یہ باتیں میرے لیے انتہائی حوصلہ افزاء تھیں۔ وہ لڑکا جو ایک طرف زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا وہیں وہ اپنے کرئیر پر بھی فوکس کر رہا تھا کہ وہ کونسے کورسز ہیں جنہیں کر کے میں اپنے گھر سے ہی انکم حاصل کر سکتا ہوں ۔ اس کے چہرے کی شادابی اس کی کامیابی اور والدین اور بہن بھائیوں کی محبت کی کہانی تھی جسے پڑھ کر ، سن کر محسوس کر کے آپ بھی اپنے اندر کے منفی رویوں کو ختم کر سکتے ہیں ۔ میں نے اچھے بھلے لوگ دیکھے ہیں جو ہمت ہار کر بیٹھ جاتے ہیں ۔۔ مگر وہیں یہ لڑکا ہمت اور عزم کی علامت بن کر ہمارے سامنے آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے صحت کاملہ عطا فرمائے آمین ثم آمین