فیس بُک پر ایک دوست نے بڑے ہی کمال جملے لکھے وہ کہتے ہیں کہ ”
اس دنیا میں آج تک کسی مسلمان نے بائبل یا انجیل مقدس کو نہیں جلایا ، کبھی مشرق میں گیتا یا رگ وید یا توریت کی بے حرمتی نہیں کی گئی، کبھی کسی مذہبی کتاب یا صحیفے کو نذر آتش نہیں کیا گیا۔
یہ کام کبھی فرانس کرتا ہےتو کبھی سویڈن تو کبھی نیدر لینڈر ، یہ لوگ پہلے فلسفیوں اور سائینسدانوں کو جلاتے تھے آج کتابوں کو جلاتے ہیں ۔
پیغمبرِ اسلام حضرت محمّد ﷺ کے توہین آمیز خاکوں کے مقابلے منعقد کئے جاتے ہیں اور یہ سب حکومتی سرپرستی میں کیا جاتا ہے ؟
بنیادی طور پر تو یہ کام صدیوں سے جاری و ساری ہے مگر
دو ہزار پانچ سے اس کی شدت میں اضافہ ہو گیا ہے شاید اسکی وجہ مواصلات کی ترقی اور سوشل میڈیا کا آغاز تھا۔ دوہزار پانچ میں ہمارے پیارے پیغمبرﷺ کی کردار کشی کرنے کے لیے غلیظ اور گستاخانہ خاکے چھاپتے چلے جا رہے ہیں۔
وہ مسلمانوں کے احتجاج کو پرکاہ کی حیثیت دینے کو تیار نہیں۔ وہ اس کو اپنی ‘رائے کا ظہار’کہتے ہیں کہ ہمیں حق حاصل ہے کہ ہم اپنی رائے کا اظہار کریں۔ اور مسلمانوں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ لہٰذا تمام مغربی ممالک یکے بعد دیگرے دل پسند مشغلے کے طور پر خاکے چھاپتے چلے جا رہے ہیں۔
آٹھ جنوری 2010 میں ناروے کے اخبار آفتن پوسٹن (Afton Poston) نے رسول پاک ﷺ کے توہین آمیز خاکے دوبارہ شائع کر دئیے۔ ساتھ ہی اخبار کی چیف ایڈیٹر Hilde Haugrjerd نے ڈیڑھ اَرب مسلمانوں کو چیلنج کرتے ہوئے کہا:
”مجھے یقین ہے کہ خاکوں کی اشاعت سے کوئی مضبوط ردِ عمل سامنے نہیں آئے گا۔” (گویا نعوذ باللہ اس کے نزدیک مسلمانوں نے ناموسِ رسول کی کوئی خاص قدر نہیں کی۔ وہ اب اس توہینِ رسالت کے عادی ہو چکے ہیں).
تحقیق کے مطابق نائن الیون کے بعد منظم انداز میں قرآن ذی شان کی بے حرمتی کے واقعات اوپر تلے پیش آ رہے ہیں۔ گوانتانا موبے او ربگرام کے عقوبت خانوں میں قیدیوں کو ذہنی اذیت دینے کے لیے ان کے سامنے متعدد بار قرآن پاک کے اوراق پر فوجی چڑھ کرنا چتے رہے، ان کو فلش میں بہاتے رہے، ان پر کتے دوڑاتے رہے، یہ واقعات میڈیا میں چھپے، مگر کوئی احتجاج نہ ہوا۔
پھر 2005 میں ان ملعونوں نے قرآن پاک کا ایک جعلی ایڈیشن ‘فرقان الحق’ The True Quran کے نام سے چھاپ کر سارے میڈیا میں پھیلا دیا مگر وہ بھی مؤثر نہ ہوا۔
قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعات پر کوئی مؤثر احتجاج نہ ہونے سے ان کو مزید شہہ ملی اور ایک ملعون پادری ٹیری جونز نے آگے بڑھ کر نائن الیون کی برسی کے موقع پر قرآن پاک کو جلانے کی دعوتِ عام دے ڈالی۔
فیس بک پر ایک پیج بنا دیا گیا:
"Every body burn the Quran Day” اور ساتھ ہی پیغام دیا کہ
”آزادئ اظہارِ رائے زندہ باد… انتہا پرستی مردہ باد! ”
آخر اہلِ مغرب کے اس طرح کے توہینِ قرآن اور توہینِ رسالت کے پروگرام کے خلاف اسلامک لائرز فورم نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک رٹ دائر کی کہ فیس بک پر پابندی لگائی جائے، کیونکہ اس میں جان بوجھ کر پیغمبرِ اسلام کے بارے میں توہین آمیز مواد رکھا گیا ہے اور دیگر لوگوں کو بھی ایسے مواد کی اشاعت کی دعوت دی گئی ہے۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اعجاز چودھری نے پاکستان میں 31 مئی 2010ء تک فیس بک پر پابندی لگا دی تو عدالت میں موجود تمام لوگ یک دم خوشی سے اُچھل پڑے۔ پھر پاکستان کی ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی نے اس عدالتی حکم کے اگلے ہی دن 450 ویب سائٹس بلاک کر دیں کیونکہ ان میں قابل اعتراض اور اشتعال انگیز مواد پایا گیا تھا۔
لوگوں نے امریکی سازش کی شدید مذمت کی اور عدالت کے حکم کی تعریف کی۔ پھر ہزاروں غیور طلبہ نے بھی اس کا بھر پور ساتھ دیا۔ صرف چند دن کی اس پابندی نے دشمن کے حواس مختل کر دئیے۔ امریکی میڈیا فیس بک پر پابندی سے بہت پریشان ہوا، ان کی آمدنی میں یک دم کمی آ گئی ۔
یہ بد بخت صرف معاشی بائیکاٹ ہی کو سمجھتے ہیں اور تو کوئی احتجاج اور مظاہرہ وغیرہ ان پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ اس کے جواب میں سی این این کی ایک رپورٹ تھی: ”پاکستان انتہا پسندی پر پابندی لگائے، فیس بک پر نہیں۔” آخر یہ آزادیٴ اظہار کا پرچار کرنے والے کیوں دوسروں کے جذبات واحساسات سے بے بہرہ ہو جاتے ہیں۔
اپنا معاشی نقصان دیکھ کر وہ وقتی طور پر اپنے منصوبے پر عمل درآمد سے باز آ گیا۔ لیکن کچھ دیر بعد 15 جنوری 2011 کو اس نے پھر اعلان کر دیا کہ اب تو وہ لازماً 20 مارچ کو اپنے چرچ میں قرآن پر مقدمہ چلائے گا اور اپنی جیوری کے فیصلے کے مطابق قرآن کو سزا دے گا۔ قرآن پر مقدمہ یہ ہے کہ نعوذ بالله یہ’دہشت گردی’کی کتاب ہے اور یہی دنیا میں دہشت گردی پھیلاتی ہے
22 مارچ کو روزنامہ نوائے وقت میں خبر شائع ہوئی:
”ملعون پادری ٹیری جونز کی نگرانی میں قرآن پاک کو ایک گھنٹہ مٹی کے تیل میں ڈبو کر نذرِ آتش کر دیا گیا۔ یہ 30؍افراد کی جیوری کافیصلہ تھا کہ قرآن واقعی دہشت گردی کی کتاب ہے اور ساتھ اُس نے کہا کہ ”مسلمانوں نے اپنی کتاب کا دفاع نہیں کیا، اسلئے یہ اقدام کیا گیا ہے۔” جلتے قرآن پاک کے نسخے کے فوٹو بھی بنائے۔ فلوریڈا کے چھوٹے سے چرچ گینز ولی میں پادری وین سلیپ نے یہ قبیح فعل انجام دیا۔”
اور پھر یہ سلسلہ چل نکلا ،کبھی قرآن مجید کی بے حرمتی تو کبھی نبی کریم ﷺ گستاخانہ خاکے بنائے گئے اور مسلم ممالک میں ہونے والے احتجاج کو چنداں اہمیت نہیں دی گئی ۔
سویڈن اور ہالینڈ میں حالیہ دنوں میں ایک بار پھر قرآن مجید کی بے حرمتی کر کے دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی دل آزاری کی گئی۔ سویڈن میں قرآن حکیم کے مقدس اوراق کو نذر آتش کیا گیا اور ہالینڈ میں قرآن پاک کے اوراق کو پھاڑ کر سڑکوں پر بکھیرا گیا۔
تاہم اس بار ان حرکتوں کا پس منظر بالکل واضح ہے دراصل سویڈن نیٹو کے فوجی اتحاد میں شامل ہونا چاہتا ہے اور نیٹو کا رکن ملک ترکی اس کے خلاف ہے۔ نیٹو کا رکن ہونے کی وجہ سے ترکی کسی دوسرے ملک کے اس اتحاد میں شامل ہونے پر اعتراض کر سکتا ہے اور اسے روک سکتا ہے۔
روس یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد سویڈن اور فن لینڈ نے نیٹو کی رکنیت کے لیے درخواست دی تھی۔ اسی وجہ سے سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں دائیں بازو کے کارکن ترکی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
ان مظاہروں کے دوران انتہائی دائیں بازو کی سٹرام کرس پارٹی کے رہنما راسموس پالوڈان نے 28 جون کو ہفتہ کے روز عراقی شہری کہ مدد سے سٹاک ہوم میں ترکی کے سفارت خانے کے باہر قرآن مجید کا ایک نسخہ نذر آتش کر دیا۔ پالوڈن نے گذشتہ سال بھی ریلیاں نکالی تھیں جس میں اس بد بخت نے قرآن جلانے کی دھمکی دی تھی جس کے بعد مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔
سویڈن کے بعد ہالینڈ میں بھی ایک بد طینت شخص کے ہاتھوں قرآن کریم کی بے حرمتی کے شرمناک واقعات کے خلاف مسلمانوں کے احتجاج کا دائرہ پوری دنیا میں پھیل رہا ہے اور عوام کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک کی حکومتیں بھی اس احتجاج میں شریک ہیں۔ قرآن کریم کی بے حرمتی کے یہ واقعات منظر عام پر آنے کے بعد ہر مسلمان سراپا احتجاج ہے۔
سویڈن کی سرکاری سرپرستی میں ہونے والے اس واقعے میں قرآن کے ایک زبر زیر کو فرق نہیں پہنچا لیکن مغرب کی اخلاقی تاریخ کے سیاہ دھبوں میں ایک بڑے دھبے کا اضافہ ضرور ہوا۔ یہ کتاب اللہ کی آخری نشانی ہے ، اسے پھونکوں سے بجھایا نہیں جا سکے گا ، اسکی بے حرمتی کرنے والوں کے لئے اللہ کافی ہے۔