ایک وقت میں عمر ابن الخطاب کا شمار حضرت محمدﷺ اور اسلام کے شدید ترین دشمنوں میں کیا جاتا تھا مگر جب انہوں نے اسلام قبول کر لیا تو وہ اپنے پیغمبرﷺ اور دین کے سب سے زیادہ مضبوط ترین حامی بن گئے ۔ مرادِ رسول اللہ ﷺ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تاریخِ اسلام کی وہ نامور شخصیت ہیں جو اپنی جرأت و بہادری کی وجہ سے قبولِ اسلام سے قبل ہی ناصرف مکہ بلکہ تمام عرب دنیا میں اپنی بہادری اور اصول پسندی کی وجہ سے شہرت کے حامل تھے۔ امام ترمذی نے بیان کیا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کی اسی جرأت کی وجہ سے حضور نبی اکرمﷺ نے بحضورِ الہٰ التجاء کی: اے اللہ! عمر بن خطاب اور عمرو بن ہشام (ابوجہل) میں سے اپنے پسندیدہ بندے کے ذریعے اسلام کو غلبہ اور عزت عطا فرما۔ اللہ رب العزت نے اپنے محبوب کی دعا قبول کرتے ہوئے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اس عظیم مقصد کے لیے چنا ۔
آپ رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام سے قبل مسلمان مشرکینِ قریش سے چھپ کر عبادات کیا کرتے تھے لیکن جب آپ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا، تو آپ رضی اللہ عنہ نے اعلان کیا کہ آج سے مسلمان عبادات چھپ کر نہیں بلکہ علی الاعلان کیا کریں گے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:’’بے شک سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قبولِ اسلام ہمارے لیے فتح تھی۔ خدا کی قسم ہم بیت اللہ میں نماز پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے، مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وجہ سے ہم نے مشرکین کا مقابلہ کیا اور خانہ کعبہ میں نمازیں پڑھنا شروع کیں۔‘‘
(المعجم الکبیر للطبرانی، رقم: 8820)
اُس دن سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا لقب فاروق رکھ دیا گیا۔ یعنی حق و باطل میں فرق کرنے والا۔ جب مسلمانوں نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تو وہاں نماز کے لیے بلانے کا مسئلہ پیش آیا، جس پر مختلف آراء پیش کی گئیں، مگر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ اس اعلان کے لیے ایک شخص مقرر کرلیا جائے۔ گویا اذان جیسا شعارِ اعظم آپ رضی اللہ عنہ کی رائے سے وجود میں آیا۔ اسیرانِ بدر کے بارے میں اختلاف کی صورت میں تائیدِ الہٰی آپ کی رائے کے موافق تھی۔ حجاب کی آیت بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کی تائید میں نازل ہوئی۔امام مسلم نے باب الوقف میں بیان کیا ہے کہ فتح خیبر کے بعد خیبر کی زمین مجاہدین میں تقسیم کی گئی، زمین کا ایک ٹکڑا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے حصے میں آیا، مگر آپ نے زمین کا وہ ٹکڑا اللہ کی راہ میں دے کر اسلام میں وقف کی بنیاد رکھی۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی سیرت وتاریخ ایسی اہم چیز ہے، جس کی ہر دور میں ہر مسلمان مرد و زن کو ضرورت رہی ہے۔ ان بہادر و بے مثال اشخاص کی زندگی ہمارے لئے ایک نمونہ ہے۔انہی اشخاصؓ کی وجہ سے اللہ تعالی نے ہمارے سینوں میں اسلام کی مشعل روشن کی۔۔۔انکی سیرت و تاریخ کا ہر پہلو خواہ وہ صحابیتؓ کے حوالے سے ہو،خلافت کے حوالے سے ہو،علم وقضا ہو،خواہ طب و حکمت سے متعلق ہو،یقیناً امت اسلامیہ اس پر فخر کر سکتی ہے اور کرتی رہے گی۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ساری زندگی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت میں گزری۔ آپ صلیٰ ﷺ نے جہاں دنیا کو گمراہی کے اندھیرے سے نکال کر ہدایت کے راستے پر گامزن کیا وہین معاشرے میں پسے ہوئے طبقات کی بحالی کا کام بھی انجام دیا۔ آپ صلیٰ اللہ ﷺ نے معاشی نظام کو مستحکم بنیادوں پر استوار کیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے حکومت کے استحکام کے لئے جو معاشی نظام عطا کیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس حقیقی نظام کو باقاعدہ ملکی سطح پر انتظامی محکمہ جات کی صورت میں قائم کیا۔ جس نظام نے تمام طبقات کو متاثر کیا وہ نظام حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ہے۔
آپؓ کے دور خلافت میں مسلمانوں کو بے مثال فتوحات اور کامیابیاں نصیب ہوئیں۔ آپؓ نے قیصر و کسریٰ کو پیوند خاک کرکے اسلام کی عظمت کا پرچم لہرانے کے علاوہ شام، مصر، عراق، جزیرہ، خوزستان، عجم، آرمینہ، آذربائیجان، فارس، کرمان، خراسان اور مکران فتح کئے۔ آپؓ کے دور خلافت میں 3600 علاقے فتح ہوئے، 900جامع مساجد اور 4 ہزار مساجد تعمیر ہوئیں۔ حضرت سیدنا عمر فاروقؓ نے اپنے دور خلافت میں بیت المال اور عدالتیں قائم کیں، عدالتوں کے قاضی مقرر کئے۔ آپؓ نے سن تاریخ کا اجراء کیا جو آج تک جاری ہے ۔ مردم شماری کرائی، نہریں کھدوائیں، شہر آباد کروائے،دریا کی پیداوار پر محصول لگایا اور محصول مقرر کئے، تاجروں کو ملک میں آنے اور تجارت کرنے کی اجازت دی۔ جیل خانہ قائم کیا، راتوں کو گشت کرکے رعایا کا حال دریافت کرنے کا طریقہ نکالا۔ پولیس کا محکمہ قائم کیا۔ جابجا فوجی چھاؤنیاں قائم کیں، تنخواہیں مقرر کیں، پرچہ نویس مقرر کئے۔ مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تک مسافروں کے لئے مکانات تعمیر کروائے۔ گم شدہ بچوں کی پرورش کے لئے روزینے مقرر کئے۔ مختلف شہروں میں مہمان خانے تعمیر کروائے۔ مکاتب و مدارس قائم فرمائے۔معلمین اور مدرسین کے مشاہرے مقرر کئے۔ تجارت کے گھوڑوں پر زکوٰۃ مقرر کی۔وقف کا طریقہ ایجاد کیا،مساجد کے آئمہ کرام اور موذنین کی تنخواہیں مقرر کیں،مساجد میں راتوں کو روشنی کا انتظام کیا۔ علاوہ ازیں آپ رضی اللہ عنہ نے عوام کے لئے بہت سے فلاحی و اصلاحی احکامات اور اصطلاحات جاری کیں۔ (تاریخ اسلام )
حضرت عمر فاروق ؓ نے دعا مانگی تھی کہ اے اللہ مجھے تیرے راستے میں موت آئے اور تیرے نبی ﷺ کا شہر نصیب ہو۔اللہ تعالی نے آپ کی دعا کو قبول فرمایا اور اس کا عجیب انتظام فرما۔حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کا ایک مجوسی غلام فیروز نامی تھا،اس نے ایک مرتبہ اپنے مالک حضرت مغیرہ کی شکایت کی کہ وہ مجھ سے زیادہ محصول طلب کرتے ہیں ،حضرت عمر ؓ نے اس بے جا شکایت پر کوئی توجہ نہیں دی ،اس نے غیض و غضب میں ایک تیز خنجر تیار کیا اور نمازِ فجر میں چھپ کر آ کر بیٹھ گیا،جب حضرت عمر ؓ نے تکبیر کہی، اس نے اس زور سے تین وار کیے جس سے امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروقؓ گر پڑے ،موت و حیات کی اس کشمکش میں حضرت عبد الرحمن بن عوف کو نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھایا ،نماز مکمل ہوئی تو آپ نے صحابہ کو کہا کہ قاتل کا پتہ لگاؤ کہ کس نے مارا ،ابولؤلؤ نے تقریبا تیرہ صحابہ کو زخمی کردیا اور جب وہ بالکل گرفت میں آچکا تو از خود خنجر مار کر ہلاک ہو گیا،حضرت عمرؓ کو ۲۶/ذی الحجہ۲۳ھ کو خنجر مارا گیا اور یکم محرم الحرام ۲۴ھ کو شہادت عظمی کا سانحہ پیش آیا اور تدفین عمل میں آئی ،آپ کی خلافت دس سال پانچ مہینے اکیس دن رہی۔(طبقات ابن سعد:۲/۱۲۳)آپ کی خواہش تھی کہ آپ کو اپنے دورفیقوں کے پہلو میں جگہ ملے ،حضرت عائشہ نے امیر المؤمنین کی اس تمنا کو پورا کیا اور حجرہ میں تدفین کی اجازت دی۔
مائیکل ایچ ہارٹ اپنی کتاب The Hundreds میں حضرت عمر فاروق ر ض کو ان الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کرتا ہے کہ ” عمر ابنِ الخطاب کو شارلی مان اور جولیئس سیزر جیسی مشہور شخصیات سے بلند درجہ اس لیے تفویض کیا گیا کہ وہ تمام فتوحات جو عمر رض کے دور میں ہوئیں اپنے حجم اور پائیداری میں بہت اہم ہیں جو سیرز یا شارلمین کے زیر سایہ ہوئیں۔”
آگے چل کر وہ لکھتا ہے کہ ” اسلام کی ترویج میں عمر رض کی کامیابیاں زیادہ مؤثر ثابت ہوئیں اور ان سریع الرفتار عرب فتوحات کے بغیر اسلام کا پھیلاؤ شاید ممکن نہ ہوتا، کیونکہ یہ مفتوحہ علاقے بعد میں عرب تمدن کا گہوارہ بن گئے ، ظاہر ہے کہ ان کامیابیوں کا اصل محرک تو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی تھے تاہم عمر رض کی کوششوں کو نظر انداز کرنا ایک بہت بڑی غلطی ہو گی ۔( مترجم : ملیحہ سید )