کیا آپ نے کبھی کسی ہائوسنگ سوسائٹی کی ابتدا سے الیکٹرانک یا پرنٹ میڈیا پر ایسا کوئی اشتہاردیکھا ہے جس کے ماسٹر پلان کے ساتھ ہی وہاں آنے والے رہائشیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے کوڑا کرکٹ کو منظم انداز میں ٹھکانے لگانے کے لئے کوئی ٹینڈر یا پروپوزل مانگا گیا ہو۔یقینا نہیں۔۔ایسا ہوا ہی نہیں ہوگا،یا ہم نے کبھی دھیان ہی نہیں دیا کہ یہ بھی کوئی کام ہے یا ہم سوچتے ہی نہیں کہ جیسے ہی کسی سوسائٹی کی بنیاد رکھی جائے گی اس کے ساتھ ہی کوڑا کرکٹ کی پیداوار بھی ایک حقیقت بن جائے گی۔اس کے باوجود کسی بھی ہائوسنگ سوسائٹی کو اپنے قیام کے لئے ملنے والے ضروری لائسنسزمیں ایک یہ لائسنس بھی ہے جو اس شہریا علاقے کے لئے کام کرنے والی مطلقہ اتھارٹی کی طرف سے ملنا ضروری ہے۔
شہروں میں ماحولیاتی بہتری کے لئے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم’انسٹیٹوٹ آف اربن ازم‘کے مطابق پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں کوڑا کرکٹ ڈمپنگ یا کوڑا کرکٹ کیسے بہتر انداز میں ٹھکانے لگایا جائے،وقت کے ساتھ ایک چیلنج بن چکاہے لیکن سنجیدہ حلقے ابھی اس جانب توجہ دینے کو تیار نہیں ہیں۔اسلام آباد،کراچی ہو یا لاہور یاپھر پنجاب کے ترقیاتی وکاروباری شہر ہم ایک منظم انداز میں کوڑاپھیلانے کے عادی تو ہیں لیکن اسےکیسے شہریوں کی زندگی میں جراثیم پھیلانے سے بچایا جائے،نہیں جانتے۔
۲۰۰۹ میں مجھے بھارت کے شہر دلی جانے کے اتفاق ہوا تو داخل ہوتے ہی پہاڑی سلسلہ شروع ہو حیرت ہوئی کہ دلی میں پہاڑوں کا کبھی نہیں سنا مگر سوال کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ دلی کا ڈمپنگ اسٹیشن ہے اور یہ گندگی یا پھر کوڑا کرکٹ کے پہاڑ ہیں۔ ایسے ہی پہاڑ لاہور شہر میں آپ کو محمود بوٹی اورلکھو ڈیرہ کے مقام پر مل جائیں گے جو تعفن کے ساتھ ساتھ ایک بڑے علاقے کو گھیرے ہوئے ہیں جن کا مستقبل سوائے اس کے کچھ نظر نہیں آتا کہ ان پہاڑوں کی لمبائی اور چوڑائی میں اضا فہ ہوتا رہے گا۔
پاکستان کاشماران ترقی پزیر ممالک میں ہوتا ہے جہاں کوڑا کرکٹ کو جلا دیا جاتا ہے یا ہھر کسی خالی پلاٹ کی قسمت کا حصہ سمجھ لیا جاتا ہے جس سے علاقے میں ایک مخصوص باس روٹین بن جاتی ہے،تعفن پھیلتا ہے یا بیماریاں،مگر اس سے نجات حاصل کرنے پرتوجہ نہیں دی جاتی ۔پاس ہی پڑے ڈرم میں کوڑا پھینکنے کی بجائے ڈرم کے آس پاس ہی ڈھیر لگا دیا جاتا ہے۔لاہور جیسے میٹروپولیٹن شہر کی بات بھی کریں تو ہمیں تقریبا ہر چوک چوراہے پر لاہور ویسٹ مینجمنٹ کی جانب سے رکھے گئے ڈرم تو ضرور نظر آتے ہیں مگر عموما ہم بطور شہری غیر ارادی طور پراس کے ارد گرد گند کا ڈھیر لگاتے جاتے ہیں اپنے گھروں سے لاکر کوڑا بھی اس ڈرم کی بجائے کہیں قریب ہی پھینک دیتے ہیں۔
لاہور کی سطح تک ویسٹ مینجمنٹ بہتر انداز میں معاملات کو قابو رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔حال ہی میں ’انسٹی ٹیوٹ آف اربن ازم‘نے انوائرمنٹ پر کام کر نے والے صحافیوں کے لئے ری سائکلنگ اور ڈمپنگ پر کام کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر دوروزہ وزٹ پروگرام کاانعقاد کیا جس کا مقصد شہریوں میں کوڑا کرکٹ کو بہتر انداز میں ٹھکانے لگانے کے لئے شعور پیدا کرنا تھا۔ سنئیر مینجرلاہور ویسٹ مینجمنٹ عمرچوہدری نے صحافیوں سے بات کرتے پوئے کہا’’ہمارا ادارہ لاہور کی حد تک کوڑا کرکٹ اکٹھا کرنے اور ٹھکانے لگانے کی سر توڑ کوشش کر رہا ہے ہم ایشیا کا بڑا ادارہ ہونے کے دعوی دار ہیں ،ایک بڑی ورک فورس ،پندرہ ہزار ملازمین،چودہ سو گاڑیاں(جو تین مختلف شفٹس میں مسلسل کام کرتی ہیں)کی مدد سے ہم شہر سے پانچ سے چھ ہزار میٹرک ٹن کوڑا روزانہ اکٹھا کرتے ہیں۔اس کوڑے کو شہر میں دو بڑے مقام محمود بوٹی اور لکھوڈیرہ کے مقام پر ڈمپ کیا جا رہا ہے ۔ہمارے پاس وسائل کی کمی نہ ہو تو اس کوڑے کے بہتر انداز میں ری سائیکل کیا جا سکتا ہے ہم اپنے وسائل میں رہتے ہوئے دن رات یہ کوشش کر رہے ہیں کہ مزید بہتری لائی جائے اور اس کوڑے کومفید بنایا جا سکے۔ہم اس کوڑے سے کھاد اور گیس بنانے جیسے کام کر رہے ہیں جس سے ادارے کو مستقل آمدنی کے ذرائع ملیں گے۔‘‘
سی ای اور لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی بابر صاحبدین کہتے ہیں۔’’ہم بطور ادارہ سب سے زیادہ اس بات کے خواہشمند ہیں کہ لوگوں میں یہ شعور مزید پیدا ہو جائےکہ کیسے کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانا ہے ہمارےہاں سڑک کنارے گند پھینک دیا جاتا ہے یا پھر دوسری صورت میں چھوٹی چھوٹی ہائوسنگ سوسائیٹیز کے ٹھیکیدار کسی خالی سنسان جگہ ٹرک لے جا کر کوڑا پھینک دیتے ہیں اگر ہمارے لوگ سمجھداری کے ساتھ کوڑے کو الگ الگ رکھیں تو شیشہ،پلاسٹک اور کاغذ ری سائیکنلگ کے کام آسکتے ہیں اور کوڑے کی صرف ڈمپنگ کا کانسپٹ مسئلے کا مستقل حل نہیں ہے۔ہمیں مستقبل میں اس کوڑےکو مزید مفید بنانے کے پراجیکٹس پر کام کرنا ہوگا۔جس کے لئے ہم بطور ادارہ پوری کوشش کر ہے ہیں ‘‘۔
کئی پرائیویٹ ادارے اور کارخانے اس ویسٹ کو ری سائیکل کر کے مفید بنانے کا کام بھی کر رہے ہیں۔
ادارہ تحفظ ماحول۔پاکستان، کے مطابق پاکستان سالانہ بیس ملین ٹن سالڈ ویسٹ پیدا کرتا ہےاور ہر سال اس شرح میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن انفراسٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے یہ کوڑا ڈمپنگ تک تو پہنچ سکتا ہے مگر ابھی مکمل طور پر مفید بننے سے کوسوں دور ہے۔ ۔
گرین ارتھ ری سائیکل کے نام سے۱۹۹۴ سے کام کر رہے ادارے کے منیجر بزنس ڈیولپمنٹ سید بلال ترمذی کہتے ہیں ’’ری سائیکنلگ ایک بہترین کاروبار ہے اورہم ڈورٹو ڈور کوڑا کرکٹ اکٹھا کرکے ایک منافع بخش کاروبار تک پہنچ چکے ہیں اس کوڑا کرکٹ کو ری سائیکل کر کے ہم شاہکارپلاسٹک پراڈکٹس بنا رہے ہیں۔جو دیرپا اور مضبوط ہیں ۔بلا ل کہتے ہیں ’ہمارے ہاں ری سائیکلنگ پر کام ہو رہا ہے جو بہت ضروری ہے تا کہ ہم ماحول دوست بن سکیں مگر ابھی یہ کام اپنی جگہ بہت کم ہے ہم اس پر مزید مفید کام کر سکتے ہیں ۔تاکہ ہم جگہ جگہ بکھرے کوڑے کو کام میں لا کر مفید پراڈکٹس بنانے کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقع پیدا کر سکیں۔‘
دنیا بھر میں ری سائیکلنگ کومستقبل کے ایک بہترین کاروبار کی طور پر دیکھا جا رہا ہے۔پاکستان میں بھی پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کے اشتراک سے یہ کام آسان بنایا جا سکتا ہے