اللہ کی دی ہوئی نعمتوں میں سے رزق ایک بڑی نعمت ہے ۔ انسان کی ساری جد و جہد رزق کیلئے ہی تو ہے اور سارے دن کی محنت و مزدوری کے بعد ایک عام انسان بمشکل ہی اپنی دال روٹی پوری کرتا ہے۔ لیکن سوال یہاں یہ اٹھتا ہے کہ کیا ہم اس رزق کی قدر کرتے ہیں ؟ بات عام دنوں کی نہیں ہے، ہم روز مرہ کے اوقات میں کھانا وقت پر کھاتے ہیں اور اعتدال کے ساتھ پکاتے ہیں لیکن یہی بات ہم شادی بیاہ کے دنوں یا کسی تہوار کے موقع پر کیوں بھول جاتے ہیں؟
شادیوں میں جس قدر کھانا ضائع ہوتا ہے شاید ہی عام دنوں میں کہیں ہوتا ہو۔ ایک باپ زندگی بھر تھوڑا تھوڑا جوڑ کر جمع اسی لیے کرتا ہے کہ کل کو جب اولاد کی شادی کا وقت آئے تو مہمانوں کی خدمت اچھی طرح ہو سکے لیکن مہمان اس بات کا خیال ہی نہیں کرتے ۔ ایک شخص تین تین لوگوں کے حصے کا کھانا پلیٹ میں ڈالتا ہے اور ضائع کرتا ہے۔ یقیناً ہر مہمان کو جا کر یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ جناب جتنا کھا سکتے ہیں اتنا ہی ڈالیے۔ مگر اس بات کا احساس وہاں موجود مہمانوں کو خود کرنا چاہیے کہ ایک دوسرے کو خاص کر بچوں کو کہیں کہ کھانے میں زیادتی مت کریں ۔
شادیوں کے علاؤہ رزق ضائع ہونے کا بڑا دن مذہبی تہواروں کا ہے۔ نویں دسویں محرم ہو یا ربیع الاول کا مہینہ ، ہر گھر میں پکوان بنتے ہیں اور دیگیں چڑھائی جاتی ہیں، گلی محلے میں کھانا بانٹا جاتا ہے اور جس گھر میں بانٹا جاتا ہے وہاں بھی دیگیں پکائی جا رہی ہوتی ہیں ۔ کئی کئی روز کھانا فریج میں پڑا رہتا ہے اور آخر کار کچھ دن کے بعد کچرے میں پھینک دیا جاتا ہے ۔ یقیناً ان تہواروں کو منانے کا سب کا دل کرتا ہے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اور سخاوت کرنا تو مسلمانوں کی رگ رگ میں ہے لیکن یہی خیال عام دنوں میں کیوں نہیں آتا ؟
جن گھروں میں رزق کی کوئی کمی نہیں ان گھروں میں ہی رزق سب سے پہلے کیوں بھیجا جاتا ہے ؟ یہ حق تو مسکینوں کا ہے اور ان غریب لوگوں کا ہے جو کئی روز بھوکے سوتے ہیں یا انہیں ایک وقت کا کھانا ہی بامشکل ملتا ہے اور کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی۔ زرا سوچئیے کہ اگر یہی کھانا جو سال میں ایک ہی بار پکایا جاتا ہے اور وہ بھی اس وقت جب کسی بھی گلی محلے میں کھانے کی کوئی کمی نہیں ہوتی ۔ عام دنوں میں تھوڑا تھوڑا کر کے یتیموں اور مسکینوں میں دیا جائے تو شاید اس کی قبولیت بھی ہو جائے اور رزق کی زیادتی بھی نہ ہو۔ حدیث مبارکہ ہے کہ “رزق ایک عزت دار چیز ہے اس کی عزت کرو”۔ یاد رکھئیے کہ بے حرمتی پر جب اللہ کسی قوم سے اس کا رزق چھین لیتے ہیں تو واپس نہیں کرتے۔