فدوی کافی عرصہ سے پاکستان میں بالعموم اور پنجاب کی پبلک و پرائیویٹ یونیورسٹیز میں بالخصوص تعلیم و تحقیق کے میدان میں ہونے والی ترقی کا جائزہ لیتا رہا ہے- یوں تو ہر میدان میں پاکستانی قوم واضح زبوں حالی کا شکار ہے لیکن یونیورسٹیز میں جس قسم کا اور جس درجے کا قحط الرجال دیکھنے میں آ رہا ہے اس کی مثال ماضی قریب میں نہیں ملتی-
حال ہی میں صوبہ پنجاب کی ایک بڑی پبلک سیکٹر یونیورسٹی میں منعقدہ ریسرچ کانفرنس کی تصویری جھلکیاں فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر دیکھنے کا اتفاق ہوا- کانفرنس ہال کی سجاوٹ دیکھ کر پہلی نظر میں یہ گمان گزرا کہ جیسے کسی امیر کبیر خاندان کی بیٹی کی شادی کے لیے حال کو سجایا گیا ہے- مین سٹیج کے ارد گرد جھولتے ہوئے گلابی رنگ کے نفیس کپڑے لٹک رہے تھے جن پر چنٹیں ڈلی ہوئی تھیں- ساتھ ہی دیواروں پر گلابی اور نیلے رنگ کے غبارے لٹک رہے تھے- فدوی ان جھولتے کپڑوں اور رنگین غباروں کا اس ریسرچ کانفرنس میں کردار سمجھنے میں ناکام و نامراد رہا- فدوی چونکہ ایک منحنی دماغ کا مالک ہے تو اس کی سوچ بھی اسی قدر چھوٹی ہے- کانفرنس حال کی یہ سجاوٹ دیکھ کر میرے ذہن میں یہ اچھوتا خیال ضرور ایا کہ اگر یہ قوم ان غباروں کا جائز و شرعی استعمال کرنا سیکھ لیتی تو احساس کمتری کے مارے سینکڑوں دیسی سائنسی و غیر سائنسی شعبدہ باز محققین سے اس کی جان چھوٹ جاتی۔-
ایسی کسی بھی بے مقصد ریسرچ کانفرنس کے لیے ایک عدد استقبالیہ ڈیسک ضرور لگایا جاتا ہے جس کے پیچھے جاذب نظر اوراداوں سے بھرپورلڑکیوں کو بٹھا دیا جاتا ہے جوآنے والے شرکاء کی نام نہاد رجسٹریشن کا فریضہ سرانجام دیتی ہیں اور اگر ان طلباء سے کسی بھی شریک سائنس دان کے نام کے سپیلنگ غلط لکھ دیے جائیں یا ایسے کسی بھی شریک کو کانفرنس بیگ نہ دیا جائے تو اسی استقبالیہ ڈیسک پر غدر مچ جاتا ہے اور ادب کے بہت سے مینار اور ریسرچ کے بہت سے شعبدہ باز وہیں اپنی اوقات رجسٹرکروا دیتے ہیں۔-
پاکستان میں منعقد ہونے والی کسی بھی ریسرچ کانفرنس کی کامیابی کا معیار کبھی بھی اس میں شریک سائنس دانوں کی تحقیق نہیں رہی بلکہ کسی بھی ریسرچ کانفرنس کی کامیابی کا معیار اس میں ملنے والا بیگ، ڈائری، پین اور کھانے کا مینیو طے کرتا ہے- یہ بات بھی کبھی واضح نہیں ہو پاتی کہ کوئی محقق جو اپنی تحقیق اس کانفرنس میں پیش کر رہا ہوتا ہے کیا وہ اس سے پہلے بھی کسی کانفرنس میں وہی تحقیق پیش کر چکا ہے کیا وہ تحقیق پہلے ہی کسی تحقیقی جنرل میں چھپ چکی ہے- بسا اوقات ریسرچ کانفرنس کے شوقین شرکا ایک ہی ریسرچ کو مختلف ریسرچ کانفرنس میں پیش کرتے رہتے ہیں یعنی اپنے مقالہ جات کی فوٹو کاپیاں کروا کے حسب موقع بانٹے رہتے ہیں جس سے ان ریسرچ کانفرنسز کا مقصد اور ان پر اٹھنے والے اخراجات دونوں ہی فوت ہو جاتے ہیں۔-
بے مقصد ریسرچ کانفرنسز کا ایک اہم پہلو ان کانفرنسز کی افتتاحی و اختتامی تقریبات ہوتی ہیں اور اصل میں ان ریسرچ کانفرنسز میں یہی دو تقریبات ہوتی ہیں اور باقی تمام سیشنز کا حال وہی ہوتا ہے جو کسی فوتگی کے گھر چوتھے اور پانچویں دن دیکھنے کو ملتا ہے- کانفرنس کی افتتاحی و اختتامی تقریبات کے مہمان خصوصی عمومی طور پر اسی یونیورسٹی کے وائس چانسلرز ہوتے ہیں اور ان وائس چانسلرز صاحبان کا خطاب ہی اس ریسرچ کانفرنس کا حقیقی مدعا ہوتا ہے- حضرت وائس چانسلر صاحب نے مختلف میٹنگز میں شرکت کے بعد کچھ کی ورڈز سیکھ لیے ہوتے ہیں جیسا کہ امپیکٹ فیکٹر نہیں امپیکٹ کی بات کریں, ریسرچ کمرشلائزیشن پیٹنٹس انٹرپرنیورشپ اور زمانہ حال میں ہاتھوں ہاتھ بکنے والا چورن سسٹینیبل ڈویلپمنٹ گولز- وائس چانسلر صاحب کی تقریر ان کی ورڈ سے بھرپور ہوتی ہے اور سامعین جن میں زیادہ تر اسی یونیورسٹی کے انڈر گریجویٹ طلباء ہوتے ہیں اساتذہ ہوتے ہیں اور آٹے میں نمک کے برابر زیادہ تر شعبدہ باز ریسرچ سائنٹسٹ ہوتے ہیں وہ وائس چانسلر صاحب کی اس تقریر کے بعد گویا ان کی دیدہ بینا اور دور اندیش قیادت کے معتقد و مرید ہو جاتے ہیں- حضرت وائس چانسلر صاحب بھی جھوم جھوم اور لہک لہک کر تقریر فرما تے ہیں کیونکہ انہیں بخوبی اس کا ادراک ہوتا ہے کہ ان کی تقریر کا ان کے عمل و کردار کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہے- وائس چانسلر کی ریسرچ کانفرنس ہال میں موجودگی کے دوران ان کی یونیورسٹی کا تمام سٹاف خصوصا سٹیج سیکرٹری کانفرنس سیکرٹری متعلقہ شعبے کا ہیڈ اور ڈین تو چوکس ہوتے ہی ہیں لیکن اس سب دھما چوکڑی میں فائر فائٹنگ کردار کیمرا مین کا ہوتا ہے جس کی واحد ذمہ داری وائس چانسلر صاحب کے ہر انگ، ہر پوز اور ہر زاویے سے تصاویربنانا ہوتی ہیں کیونکہ یہ تصاویر فوری طور پر یونیورسٹی کے فیس بک، ٹوئیٹر، انسٹاگرام اور لنکڈ ان جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جاری ہونی ہوتی ہیں تاکہ صاحب بہادر کا قد کاٹھ ان کے ہم عصر وائس چانسلرز سے بلند و برتر دکھایا جا سکے۔-
ریسرچ کانفرنس کی حقیقی کامیابی کا تعین کانفرنس میں حصہ لینے والے شرکاء کی اُن تصاویر جنہیں وہ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پوسٹ کرتے ہیں ان سے لگایا جاتا ہے ایسے تمام شرکاء ریسرچ کانفرنس کو انتہائی کامیاب گردانتے ہیں اور اپنے فالورز کو اپنی کامیابی سرٹیفیکیٹ کی شکل میں شو کرواتے ہیں- کچھ کاروباری قسم کے شرکاء کچھ اور آگے بڑھ کر متعلقہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور باقی افسران کو ایک عدد ای میل بھی کر دیتے ہیں جس میں وہ ان کی مہمان نوازی کے شکر ادا کرتے ہوئے اس امید پر تعریفوں کے پُل باندھتے ہیں کہ شاید وہ اس یونیورسٹی کی انے والی اگلی ریسرچ کانفرنس میں اپنی سیٹ پکی کروا لیں۔
ایسی بے مقصد ریسرچ کانفرنسز ہوتی رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی کیونکہ ایچ ای سی بھی خوش ہے یونیورسٹی کےملازمین بھی خوش ہیں اور قوم پاکستان تو ہر حال میں خوش رہنے اور شکر گزار رہنے کا فن سیکھ چکی ہے، رہی بات ان ریسرچ کانفرنسز کوبا مقصد بنانے کی تو اس پر زیادہ مغز ماری کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جب قوم خوش ہے تو کسی منفی سوچ والے شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنے کوتاہ ذہن کا استعمال کر کے قوم کو گمراہ کرے- لیکن حقیقت یہ ہے کہ پنجاب کی پبلک سیکٹر یونیورسٹیز میں ہونے والی ایسی درجنوں نام نہاد اور بے مقصد ریسرچ کانفرنسز کا امپیکٹ صفر ضرب صفر ہے اور اکیلا شخص جسے ہم ڈاکٹر صبیح انور کے نام سے جانتے ہیں وہ کسی اور ہی سوچ اور خیال کے مالک ہیں اور وہ نہ جانے کیوں ایسی ریسرچ کانفرنسز سے متاثرہی نہیں ہوتے۔ یوں لگتا ہے کہ وہ پاکستانی قوم کو حقیقی سائنس سے اگاہ کرنے کی ذمہ داری تنہا ہی اٹھائے ہوئے ہیں اور شہر شہر نگری نگری گھوم کرنوجوانان قوم کو سائنسی علوم سے اگاہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ڈاکٹر صبیح کو نہ تو کسی نمود و نمائش کا شوق ہے اور نہ ہی کسی سے کوئی معاوضہ درکار ہے جب تک اس قوم میں ڈاکٹرصبیح جیسے شاہکار زندہ ہیں تو یہ قوم زندہ ہے وگرنہ، خوابوں ، خیالوں، خواہشوں اور سوشل میڈیا پر کیے گئے دعووں کو دیکھا جائے تو یوں لگتا ہے کہ ہم پاکستانی بہت جلد امریکہ اور یورپ کو ہر شعبے میں مات دے دیں گے۔