ہمسایہ ملک بھارت کے حوالے ایک خبر اپنے اندراتنے مثبت اثرات رکھتی ہے کہ میں متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی ۔ خبر کے مطابق بھارت کی وزارت تعلیم نے ملک بھر کے کوچنگ انسٹی ٹیوٹ کے لیے گائیڈ لائنز جاری کر دی ہیں جسکے تحت اب کوچنگ ادارے 16 سال سے کم عمر بچوں کو داخلہ نہیں دے سکیں گے۔ اس کے علاؤہ گمراہ کن وعدے کرنے اور اچھے نمبروں کی ضمانت دینے پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ یہ رہنما اصول ان کوچنگ مراکز کے لیے بنائے گئے ہیں جو داخلہ امتحانات ، جیسے JEE, NEET,CLAT اور بارہویں جماعت کے بعد ہونے والے تمام مسابقتی انتحابات کی تیاری کر رہے ہیں ۔ بنیادی طور پر یہ فیصلہ بھارت میں کم عمر طلباء میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے رحجانات اور واقعات ، کلاسسز میں آگ لگنے کے واقعات اور کوچنگ سینٹرز میں سہولیات کی کمی کے پیش نظر محکمہ تعلیم کی جانب سے جاری کی گئی ہیں۔ مزید کہا گیا ہے کہ گریجویٹ سے کم قابلیت والے ٹیوٹرز کو فیکلٹی ممبرز مقرر نہیں کیا جائے گا۔ کوچنگ سینٹرز والدین کو گمراہ کن وعدے نہیں دے سکتے یا اچھے نمبروں اور رینک کی ضمانت نہیں دے سکتے ۔کوچنگ سنٹر سولہ سال سے کم عمر بچوں کو داخلہ نہیں دیں گے ۔ اندراج صرف سیکنڈری سکول کے امتحان کے بعد کیا جائے گا ۔ اخلاقی جرائم کے مرتکب اساتذہ کو فیکلٹی کے طور پر تعینات نہیں کیا جائے گا ۔کونسلنگ سسٹم کے بغیر کسی کوچنگ کو رجسٹریشن نہیں دی جائے گی ۔ ہر کوچنگ سنٹر کو اپنی ویب سائٹ پر فیکلٹی کی اہلیت ، کورس کی تکمیل کی مدت، ہوسٹل کی سہولیات اور فیس کے بارے میں مکمل معلومات دینی ہوں گی جبکہ ہمارے ہاں اگر ایسی کوئی پالیسی آئے گی تو احتجاج شروع ہو جائے گا اور ریاست گھٹنے ٹیک دے گی ۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن کے مطابق پاکستان میں 2 کروڑ 62 لاکھ کے قریب بچے اسکول سے باہر ہیں۔
پی آئی ای کے مطابق صرف صوبہ پنجاب میں ایک کروڑ 11 لاکھ سے زائد بچے تعلیم سے محروم ہیں جبکہ سندھ میں 70 لاکھ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ خیبر پختونخوا میں 36 لاکھ اور بلوچستان میں 31 لاکھ سے زائد بچے تعلیم سے محروم ہیں، اسلام آباد میں تقریباً 80 ہزار تعلیم سے محروم ہیں۔دوسری جانب پاکستان میں 2 کروڑ سے زائد بچے سکول سے باہر اور بڑی تعداد میں غذائی قلت کا شکار ہیں۔پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن کے مطابق سکول جانے کی عمر کے 39 فیصد بچے اس وقت سکول سے باہر ہیں، بلوچستان میں سب سے زیادہ 65 فیصد بچے سکول سے باہر ہیں۔پی آئی ای کے مطابق اس سے قبل /17/2016 میں سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد 44 فیصد تھی، 2021-22 میں 39 فیصد بچے تعلیم سے محروم تھے، ہائرسیکنڈری سطح پر 2021-22 میں 60 فیصد بچے اسکول سے باہر تھے اور درمیانی اور پرائمری سطح پر 44 فیصد بچے اسکول سے باہر تھے۔ پاکستان میں تعلیم سرکار کے ساتھ ساتھ عوامی ترجیحات میں بھی شامل نہیں ہے۔ یہاں زیادہ بچوں کا مطلب زیادہ مزدور اور ایک وقت کی روٹی۔ معاشرہ اور معاشرتی زندگی منظم نہیں ہے ۔ تعلیمی میدان میں پاکستان کہیں بھی نہیں ہے جبکہ قابلیت اور استعداد میں پاکستانی نوجوانوں کی صلاحیتوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ لاکھوں ہنر مند پاکستانی بیرون ملک اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں ۔
عالمی سطح پر دیکھیں تو اس وقت تعلیمی درجہ بندی کے اعتبار سے فن لینڈ پہلے نمبر پر ہے جبکہ ” سپر پاور ” امریکا 20ویں نمبر پر کھڑا ہے۔2020ء تک فن لینڈ دنیا کا واحد ملک بن گیا تھا جہاں مضمون ( سبجیکٹ ) نام کی کوئی چیز سکولوں میں نہیں پائی جاتی تھی۔ فن لینڈ کا کوئی بھی سکول زیادہ سے زیادہ 195 بچوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ 19 بچوں پر ایک ٹیچر۔ دنیا میں سب سے لمبی بریک بھی فن لینڈ میں ہی ہوتی ہے، بچے اپنے سکول ٹائم کا 75 منٹ بریک میں گزارتے ہیں، دوسرے نمبر پر 57 منٹ کی بریک نیو یارک کے سکولوں میں ہوتی ہے جبکہ ہمارے یہاں اگر والدین کو پتہ چل جائے کہ کوئی سکول بچوں کو ” پڑھانے” کے بجائے اتنی لمبی بریک دیتا ہے تو وہ اگلے دن ہی بچے سکول سے اٹھا لیں۔ یہاں کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ پورے ہفتے میں سکولوں میں محض 20 گھنٹے ” پڑھائی ” ہوتی ہے جبکہ اساتذہ کے 2 گھنٹے روز اپنی ” اسکلز ” بڑھانے پر صرف ہوتے ہیں۔
سات سال سے پہلے بچوں کے لیے پورے ملک میں کوئی سکول نہیں ہے اور پندرہ سال سے پہلے کسی بھی قسم کا کوئی باقاعدہ امتحان بھی نہیں ہے۔ ریاضی کے ایک استاد سے پوچھا گیا کہ آپ بچوں کو کیا سکھاتے ہیں تو وہ مسکراتے ہوئے بولے ” میں بچوں کو خوش رہنا اور دوسروں کو خوش رکھنا سکھاتا ہوں، کیونکہ اس طرح وہ زندگی کہ ہر سوال کو با آسانی حل کرسکتے ہیں “۔ وہاں اساتذہ کا احترام ہے اور انہیں اپنی خدمات انجام دینے کا بہترین معاوضہ دیا جاتا ہے تاکہ وہ کسی معاشی دباؤ کے بغیر وہ اپنی صلاحیتوں کا بہترین استعمال کریں ۔دںیا کے بہت سے ممالک میں استاد بننے کے لیے ریاستی سطح پر امتحانات پاس کر کے سرٹیفکیٹ لینا ضروری ہے یہاں دس جماعت پاس کر کے استاد لگ جاتے ہیں اور کسی قسم کی بنیادی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم کا جو حال ہے وہ ہمارے سامنے ہے ۔
کئی لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان میں تبدیلی لانے کے لیے کئی سال لگیں گے جبکہ میرے خیال میں دیانت دار قیادت اور پہلے سے موجود فیصلوں پر سختی سے عملدرآمد کروانے سے کئی مسائل حل ہو سکتے ہیں ، کیونکہ اگر نجی سیکٹر کے مگرمچھوں پر بھاری ٹیکس عائد کر دئیے جائیں اور غیر جانبداری سے وصولی کی جائے تو وہ اپنے دھندے بند کرنے پر مجبور ہو جائیں گے یا کم از کم قانون کے دائرے میں آ جائیں گے ۔ بنیادی طور پر پاکستان میں تعلیمی نظام کا بیڑہ غرق ہو چکا ہے جس وجہ سے نہ تعلیم اور نہ ہی شعور۔ صرف ایک اچھی ملازمت کے حصول کے لیے ڈگری حاصل کرنے کی خواہش ہے یہ اور بات ہے کہ ڈگری تو مل جاتی ہے جاب نہیں ملتی۔ نہ سرکاری اور نہ ہی پرائیویٹ ۔یہاں آپ جاپان کی مثال لے لیں تیسری جماعت تک بچوں کو ایک ہی مضمون سکھا یا جاتا ہے اور وہ ” اخلاقیات ” اور ” آداب ” ہیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ “جس میں ادب نہیں اس میں دین نہیں “۔ مجھے نہیں معلوم کہ جاپان والے حضرت علیؓ کو کیسے جانتے ہیں اور ہمیں ابھی تک ان کی یہ بات معلوم کیوں نہ ہو سکی تاہم اس پر عمل کی ذمہ داری فی الحال جاپان والوں نے لی ہوئی ہے۔
کچھ دن پہلے ایک تحریر نظر سے گزری جس میں صاحب تحریر نے بہت کمال بات لکھی تھی کہ آپ حیران ہوں گے میٹرک کلاس کا پہلا امتحان 1858ء میں ہوا اور برطانوی حکومت نے یہ طے کیا کہ بر صغیر کے لوگ ہماری عقل سے آدھے ہوتے ہیں اس لیے ہمارے پاس ” پاسنگ مارکس ” 65 ہیں تو بر صغیر والوں کے لیے 32 اعشاریہ 5 ہونے چاہئیں۔ دو سال بعد 1860ء میں اساتذہ کی آسانی کے لیے پاسنگ مارکس 33 کردیے گئے اور ہم میں بھی ان ہی 33 نمبروں سے اپنے بچوں کی ذہانت کو تلاش کرنے میں مصروف ہیں
۔علامہ اقبال ؒ کے شعر کا یہ مصرعہ اس تمام صورتحال کی صیح طریقے سے ترجمانی کرتا نظر آتا ہے کہ
شاخ نازک پر بنے گا جو آشیانہ ، ناپائیدار ہو گا