14 اگست محض ایک تاریخ نہیں بلکہ ایک ایسی داستان ہے جو قربانی، جدوجہد اور ایمان کی روشن سطور سے لکھی گئی ہے۔ یہ وہ دن ہے جب برصغیر کے مسلمان غلامی کی طویل رات کا پردہ چاک کر کے آزادی کی صبح میں داخل ہوئے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمارے بزرگوں نے محض زمین کا ایک ٹکڑا نہیں بلکہ ایک نظریہ حاصل کیا — ایک ایسا وطن جہاں ہم اپنی مذہبی، تہذیبی اور اخلاقی اقدار کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔
قائداعظم محمد علی جناح کی بصیرت اور علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر کے لیے لاکھوں افراد نے ہجرت کی۔ وہ قافلے جو پاکستان کی سرزمین پر پہنچے، صرف لوگ نہیں تھے بلکہ امید، حوصلے اور قربانی کے پیکر تھے۔ انہوں نے اپنے گھر بار، کاروبار اور عزیز ترین رشتے قربان کر دیے تاکہ آنے والی نسلیں آزادی کی فضا میں سانس لے سکیں۔ ان قربانیوں کا تقاضا تھا کہ یہ ملک انصاف، مساوات اور بھائی چارے کا گہوارہ بنے۔
مگر آج، 78 برس بعد، یہ سوال ہمارے سامنے کھڑا ہے کہ کیا ہم نے اپنے وطن کو اس خواب کی تعبیر بنایا ہے؟ کیا ہماری سیاست، معیشت اور معاشرت اس نظریے کی جھلک پیش کرتی ہیں؟ ہم نے قوم کو زبان، نسل اور ذاتی مفادات میں تقسیم کر دیا ہے۔ کرپشن اور بے انصافی ہمارے نظام میں جڑیں مضبوط کر چکی ہیں اور تعلیم و انصاف اب بھی ہر شہری کی دسترس سے دور ہیں۔
یومِ آزادی کا مطلب صرف جھنڈا لہرانا، نعرے لگانا یا آتشبازی کرنا نہیں۔ یہ دن خود احتسابی کا دن ہے، اپنے ماضی کو یاد کر کے حال کو سنوارنے اور مستقبل کو محفوظ بنانے کا عہد لینے کا دن ہے۔ حقیقی جشنِ آزادی تب ممکن ہے جب ہر بچہ تعلیم پائے، ہر شہری کو انصاف ملے اور ہر انسان کی عزتِ نفس محفوظ ہو۔
آئیے، اس 14 اگست پر ہم یہ عہد کریں کہ ہم اپنے وطن کو اس خواب کی عملی تصویر بنائیں گے جو ہمارے بزرگوں نے دیکھا تھا۔ ہم اس آزادی کی حفاظت کریں گے کیونکہ آزادی ایک دن میں حاصل ہوتی ہے مگر اسے قائم رکھنا ہر دن کا امتحان ہے۔