وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے حالیہ بیان نے کاروباری حلقوں میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ وزیر خزانہ نے عندیہ دیا ہے کہ ملک میں مہنگائی کی کمی اور مثبت معاشی اشاریوں کے پیش نظر اسٹیٹ بینک آف پاکستان آئندہ مہینوں میں سود کی شرح کو موجودہ 11% سے مزید کم کر سکتا ہے۔ اگلی مانیٹری پالیسی کا اعلان 15 ستمبر کو متوقع ہے، جس پر سرمایہ کار، صنعتکار اور بینکار سب کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔
میکرو اکنامک تجزیہ
گزشتہ ڈیڑھ سال میں پاکستان نے بلند شرحِ سود کے ذریعے افراطِ زر کو قابو کرنے کی حکمتِ عملی اپنائی۔ عالمی منڈی میں تیل اور کموڈیٹیز کی قیمتوں میں کمی، زرِ مبادلہ کے ذخائر میں بہتری اور روپے کے قدرے مستحکم ہونے کے باعث مہنگائی کی رفتار نیچے آئی ہے۔
CPI انفلیشن جون میں سنگل ڈِجٹ میں داخل ہوا
کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ محدود سطح پر آ گیا
زرِ مبادلہ کے ذخائر 9 بلین ڈالر سے زائد ہیں
ان عوامل نے اسٹیٹ بینک کو پالیسی ریٹ میں کمی کے لیے ایک معقول جواز فراہم کیا ہے۔
بزنس کمیونٹی پر اثرات
1. صنعتی لاگت میں کمی
شرحِ سود میں کمی کے براہِ راست اثرات صنعتی شعبے پر پڑیں گے۔ ورکنگ کیپٹل اور لانگ ٹرم فنانسنگ کی لاگت کم ہو گی، جس سے پیداواری لاگت گھٹے گی اور برآمدی مصنوعات کی قیمتیں مسابقتی رہیں گی۔
2. SME سیکٹر کی بحالی
چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار (SMEs) جو مہنگے قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے، آسان فنانسنگ تک رسائی حاصل کر سکیں گے، جس سے کاروباری سرگرمیوں میں تیزی آئے گی۔
3. کنزیومر ڈیمانڈ میں اضافہ
کم سودی ماحول میں ہاؤسنگ، آٹو، اور کنزیومر ڈیوریبلز کی فروخت میں اضافہ متوقع ہے، جو مینوفیکچرنگ اور سروس سیکٹر کے لیے مثبت خبر ہے۔
ممکنہ خطرات اور احتیاطی پہلو
افراطِ زر کا دوبارہ دباؤ: اگر شرحِ سود بہت تیزی سے کم کی گئی تو کھپت میں غیر متناسب اضافہ ہو کر مہنگائی کو دوبارہ اوپر لے جا سکتا ہے۔
روپے پر دباؤ: کم شرحِ سود کے باعث سرمایہ کاری کا کچھ حصہ ہاٹ منی کی صورت میں باہر جا سکتا ہے، جس سے کرنسی پر دباؤ بڑھ سکتا ہے۔
سرمایہ کاری کا معیار: آسان قرضی ماحول میں غیر پیداواری سرمایہ کاری کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں، جس سے معاشی پائیداری متاثر ہو سکتی ہے۔
کاروباری طبقے کے لیے سفارشات
سرمایہ کاری کے منصوبے تیز کریں — کم لاگت فنانسنگ کو پیداواری صلاحیت میں اضافے اور ٹیکنالوجی اپ گریڈ کے لیے استعمال کریں۔
ایکسپورٹ پر مبنی حکمت عملی — سستے قرضے برآمدی آرڈرز بڑھانے کے لیے بروئے کار لائیں، تاکہ زرمبادلہ میں اضافہ ہو۔
رسک مینجمنٹ پلان — اگر آئندہ افراطِ زر دوبارہ بڑھے تو کاروباری اخراجات کنٹرول کرنے کے لیے متبادل فنڈنگ آپشنز تیار رکھیں۔
پاکستانی معیشت اس وقت ایک نازک مگر امید افزا موڑ پر کھڑی ہے۔ سود کی شرح میں ممکنہ کمی جہاں کاروباری سرگرمیوں کو نئی زندگی دے سکتی ہے، وہیں پالیسی سازوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسے ایک متوازن فریم ورک کے اندر نافذ کریں۔ کم شرحِ سود کا فائدہ صرف اسی وقت پائیدار ہو گا جب مالی نظم و ضبط، برآمدی استعداد میں اضافہ، اور پیداواری شعبے میں حقیقی سرمایہ کاری کو یقینی بنایا جائے۔