گلوبل بیوٹی انڈسٹری میں جلد ہلکی کرنے والی مصنوعات کا استعمال ایک تیزی سے بڑھتا ہوا رجحان ہے۔ اس وقت یہ صنعت تقریباً 10.7 بلین ڈالر کی ہے اور اندازہ ہے کہ 2033 تک یہ 18.1 بلین ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ کچھ تحقیقی رپورٹس اس کا موجودہ حجم 9.67 بلین ڈالر (2024) اور 2032 تک 16.42 بلین ڈالر بتاتی ہیں، جبکہ دیگر کے مطابق یہ 10 بلین ڈالر (2021) سے بڑھ کر 22 بلین ڈالر (2032) ہو سکتی ہے۔ فرق چاہے جتنا ہو، ایک بات واضح ہے کہ یہ مارکیٹ مسلسل بڑھ رہی ہے۔
اس مانگ کی جڑ میں کالرزم یعنی رنگ کی بنیاد پر سماجی امتیاز ہے، جو تاریخی طور پر نوآبادیاتی دور کے طبقاتی اور نسلی تصورات سے جڑا ہوا ہے۔ افریقہ، جنوبی ایشیا، کیریبین اور مشرقِ وسطیٰ میں ہلکی رنگت کو اب بھی معاشرتی برتری کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ یہی رجحان اشتہارات اور میڈیا کے ذریعے مزید پختہ ہوتا ہے، اور آن لائن تلاشوں کے اعداد و شمار میں پاکستان اور نائجیریا جیسے ممالک نمایاں نظر آتے ہیں۔ کچھ برانڈز نے دباؤ کے تحت اپنی زبان نرم کی، جیسے Fair & Lovely کا نام بدل کر Glow & Lovely رکھنا، مگر ماہرین کے مطابق یہ محض لفظی تبدیلی ہے، ذہنیت کی نہیں۔
ان مصنوعات میں سب سے زیادہ خطرناک اجزاء میں مرکری (پارہ)، ہائیڈروکینون اور طاقتور ٹاپیکل اسٹرائیڈز شامل ہیں۔ مرکری گردوں اور اعصاب کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے، حتیٰ کہ بینائی متاثر ہونے تک کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود، غیر قانونی مارکیٹ اور آن لائن فروخت میں حد سے ہزاروں گنا زیادہ مرکری والے کریمز عام ہیں۔ ہائیڈروکینون میلانن بننے کے عمل کو روکتا ہے، مگر طویل استعمال سے جلد پر نیلاہٹ/سیاہ دھبے (اوکرونوسس) جیسی مستقل خرابیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ طاقتور اسٹرائیڈز جلد کو پتلا کر دیتے ہیں، ہارمونل بگاڑ پیدا کرتے ہیں اور انفیکشنز کے خطرات بڑھاتے ہیں۔
قانونی سطح پر کئی اقدامات کیے گئے ہیں، جیسے میناamata کنونشن کے تحت 2020 سے 1ppm سے زیادہ مرکری والے کاسمیٹکس پر عالمی پابندی، یورپی یونین میں ہائیڈروکینون پر مکمل ممانعت، اور امریکہ میں اس کی OTC فروخت پر پابندی۔ تاہم عملی نفاذ کمزور ہے اور کسٹمز یا آن لائن مارکیٹ پلیسز پر یہ مصنوعات اب بھی دستیاب ہیں۔
پاکستان میں 2019 میں حکومتی کریک ڈاؤن کے دوران کئی برانڈز کو غیر معیاری پایا گیا۔ لیب رپورٹس میں ان میں بھاری دھاتوں کی موجودگی ظاہر ہوئی، مگر صارفین میں ان مصنوعات کی سماجی قبولیت اب بھی بلند ہے۔ ری-برانڈنگ مہمات اور اشتہاری زبان میں تبدیلی کے باوجود، گورا پن حاصل کرنے کی خواہش ایک گہری سماجی جڑ رکھتی ہے جسے ختم کرنے کے لیے تعلیمی اور ثقافتی سطح پر مہمات ضروری ہیں۔
سوشل میڈیا اور انفلوئنسر مارکیٹنگ نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے، کیونکہ یہ خطرناک مصنوعات خوبصورت پیکیجنگ اور مثبت بیانیے کے ساتھ نوجوان نسل تک پہنچائی جاتی ہیں۔ قوانین میں کمزوریاں اور آن لائن پلیٹ فارمز پر غیر مؤثر اسکریننگ اس کاروبار کو سہارا دیتی ہیں۔
صحت کے پہلو سے یہ مصنوعات صرف جلد کو ہی نہیں، بلکہ پورے جسم کو متاثر کر سکتی ہیں۔ مرکری گردوں اور اعصاب کو، ہائیڈروکینون جلد کو، اور اسٹرائیڈز ہارمونل توازن کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ان کے اثرات بعض اوقات مستقل اور ناقابلِ واپسی ہوتے ہیں۔
اس بحران سے نمٹنے کے لیے صرف پابندیاں کافی نہیں۔ ضروری ہے کہ کسٹمز اسکریننگ سخت کی جائے، اشتہارات میں “فیرنس” یا “وائٹننگ” جیسے دعووں کے لیے سائنسی ثبوت اور ڈسکلیمر لازمی ہوں، تعلیمی نصاب اور میڈیا میں رنگ کے امتیاز کے خلاف بیانیہ مضبوط کیا جائے، اور محفوظ متبادل صرف ماہرِ جلد کی نگرانی میں فراہم کیے جائیں۔ اسی طرح برانڈز کو بھی مارکیٹنگ زبان اور پروڈکٹ لائنز میں پائیدار تبدیلی کے لیے جواب دہ بنایا جانا چاہیے۔
بالآخر، جلد ہلکی کرنے کی یہ معیشت خوبصورتی کے نام پر ایک ایسا تجارتی کھیل ہے جو طاقت، رنگ اور تاریخ کی سیاست سے جڑا ہوا ہے۔ جب تک سماج میں رنگت کو برتری کی علامت سمجھا جائے گا، یہ مارکیٹ بڑھتی رہے گی—اور انسانی صحت و وقار اس کی قیمت چکاتے رہیں گے۔