ایڈیٹر : سید بدر سعید

ایڈیٹر : سید بدر سعید

ست رنگی نواب بھائی

وہ جولائی کی حبس ذدہ صبح اسکول کی اسمبلی میں آج پھر قومی ترانہ پڑھتے ہوئے اپنی سوئی ”پاک سرزمین کا نظام“پر پھنسا بیٹھا تھا ہیڈ ماسٹر سمیت پورا اسکول ترانے کے احترام میں الرٹ کھڑا تھا جھنڈے کو سیلوٹ کرنے والا اسکاوٹ اسے بار بار ٹہوکا دے رہا تھا لیکن وہ آنکھیں بند کئے ”پاک سر زمین کا نظام“ گائے جا رہا ہے تھاکافی دیر انتطار کے بعد ہیڈ ماسٹر نے پی ٹی ماسٹر کو اشارہ کیا جنہوں نے اسے جا کر جھنجھوڑا تب کہیں جا کر اس نے اگلا مصرعہ پکڑا ”قوت،اخوت عوام“طالب علموں سمیت سارے اساتذہ یہ دعا کر رہے تھے کہ وہ ترانہ سوئی پھنسائے بغیر پڑھ دے ورنہ پورا ترانہ پڑھے بغیر اس نے اسمبلی کا ڈائس نہیں چھوڑنا تھا۔
اسے بچپن سے ہی صحافی بننے کا بہت شوق تھا اس کی پریکٹس وہ اکثر اپنی ساتھی طالب علموں کو کہانیاں سنا کر کیا کرتا تھا اس کی یہ بے ربط کہانیاں انڈین فلموں کے سوپ ڈراموں کی طرح اتنی طویل ہوتی تھی کہ ایک کہانی اس نے پانچویں میں شروع کی تھی اور آٹھویں تک وہی چل رہی تھی یہ الگ بات تھی کہ اب اسے بھی پتہ نہیں تھا کہ کہانی کہاں سے شروع ہوئی تھی بس اسے کہانی کا عنوان ہی یاد تھا۔آٹھویں میں اس کی ایک سبزیوں کی وین کو آنے والے حادثے کی رپورٹنگ کو ”بزم ادب“میں بہت پسند کیا جارہا تھا ساتھی طالب علم ہنستے ہوئے اسے بار بار آلو کو لگنے والی رگڑوں،بینگن کو کی جانے والی سفید پٹیوں اور تربوز کا سر پھٹنے کی رپورٹنگ سن رہے تھے اور وہ سوچ رہا تھا کہ اتنی پذیرائی وہ ضرور صحافی بنے گا۔ ایک اخبار کی عارضی ملازمت میں اسے ایک حادثے کی رپورٹنگ کرنے کے لئے بھیجا گیا اس نے اپنی رپورٹ میں زخمیوں کی تعداد بیس اور ہلاکتوں کی تعداد پچیس بتائی،خبر اسی طرح چھپ گئی دوسرے دن کے اخبارات اس کی ہلاکتوں اور زخمیوں بتائی جانی والی تعداد کی نفی کر رہے تھے ایڈیٹر کے پوچھنے پر اس نے عجیب سی توضیح پیش کی اس نے کہا ”جن کو ایدھی والوں نے اٹھایا ان کو گن کر میں نے میت کے خانے میں لکھ دیا اور جو 1122کی ایمبولینس والے لے گئے وہ میں نے زخمیوں میں شمار کئے“اس جواب پر ایڈیٹر نے دروازے کی طرف اس کا منہ کرکے شاباش کے طور پر اس کی پیٹھ”ٹھونکی“تھی۔
اس نے صحافت کی اعلی ترین خدمات کے لئے بہت سی زبانیں بھی سیکھنے کا سلسلہ شروع کر رکھا اس کی خواہش تھی کہ وہ انٹرنیشنل صحافی بن جائے پرنٹ میڈیا میں کامیابی کے ”جھنڈے گاڑنے“کے بعد اس کا اگلا ٹارگٹ الیکٹرونک میڈیا تھا اس کی ”سی وی“ کے احترام میں چینل نے اسے آزمائشی نشریات میں ایک لائیو ایونٹ چاند رات کی کوریج دینے کا فیصلہ کیا تھا وہ مائیک ہاتھ میں پکڑے بہت خوش نظر آ رہا تھا اس نے ساری زبانیں ذہن میں اکھٹی کر لیں تھیں یہی موقع تھا اپنی صلاحیتوں کو منوانے کا وہ بڑے اعتماد کے ساتھ کیمرہ مین کو ساتھ لئے پھر رہا تھا کیمرہ مین نے اسے لائیو کا اشارہ دیا تھا بس رپورٹنگ شروع ہوئی اسے جتنی زبانیں یاد تھیں اس نے ان سب میں پہلے تو پاکستانی قوم کو چاند کی مبارک باد دی اس کے کان میں ڈی ایس این جی وین سے بار بار ”لائن“ پر آنے کا کہا جا رہا تھا اور اس نے اپنی انگلی سے کیمرہ مین کو اشارہ کیا کہ بس ایک زبان رہ گئی ہے اتنے میں ڈی ایس این جی وین سے نکل کر غصے سے ایک شخص نے کہا ”بس کریں جی ہمیں کنٹرول روم کٹ کر چکا ہے“۔
ایک چینل کا مالک اس کی ’‘سی وی“ غورسے دیکھ رہا تھا مالک شائد امپریس ہو چکا تھا اس نے کہا ”میڈیا میں بہت سے منہ زور دریا بہہ رہے ہیں اس میں ایک ہمارا ایک کمزور سا ”انڈس“ بھی ہے، کبھی اس کے بہاؤ میں رکاوٹ نہ بنئے گا“۔اور اس نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے کہ جیسے بہت کچھ سمجھ گیا ہے اپنا سر ہلا دیا۔اسے ایک اسٹیشن پر عید پر چلائی جانے والی ٹرین سے آنے والے مسافروں کی کوریج کرنی تھی چونکہ ٹرین بھی تیار کھڑی تھی اور کیمرہ بھی تیار تھا لیکن مسافر اس کے کام بڑی رکاوٹ بن رہے تھے اس کے کوسنے،گالیاں ریکارڈ ہوتی رہیں وہ چینل پر تو نہ چل سکیں لیکن سوشل میڈیا اس ریکارڈ کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔
اسی ایک ریکارڈنگ کی بدولت جو ایک فلم کا حصہ بن چکی ہے اس کی پہچان بنی وہ خوش ہے کہ اس کا صحافتی کئیرئیر جو داؤ پر لگا ہو تھا اس کا ”داؤ“ لگا گیا ہے رات اس نے تارے گنتے ہوئے ایک تارے پر ہاتھ رکھے اپنے بیٹے سے کہا ”اوئے اس تارے پر ہاتھ رکھ اور میری بات سن“۔بیٹے نے اس کے بتائے ہوئے تارے پر ہاتھ رکھا اور کہا ”ابا۔۔! کتنے تارے اب تک گن چکے ہیں“۔”ایک لاکھ پچپن ہزار پانچ سو بائیس،میری یہ رپورٹ جیو گرافک چینل پر تہلکہ مچا دے گی جیو گرافک والوں کو پتہ ہی نہیں میں ان کے لئے کام کر رہا ہوں“۔”ابا اپنا تارہ پکڑیں،میرا بازو درد کرنے لگا ہے“۔”اوہ اچھا پوچھنا یہ تھا کیا خیال ہے اس سلیمان خان پر کیس نہ ٹھوک دیں جیسے امجد صابری نے ٹھوکا ہے اس نے بغیر اجازت میرا نام اور میرا کام استعمال کیا ہے کروڑ دو کروڑ تو دے ہی دے گا“۔ابا تمہیں پتہ ہے انڈیا کہاں ہے“۔”ادھر پاکستان میں ہی کہیں ہوگا“ اس نے دنیا کا جغرافیہ نظروں کے سامنے لاتے ہوئے کہا۔ابا تیرا اسکوٹر پنکچر ہے اور صبح تونے بی بی سی کو انٹرویو بھی دینا ہے تیری جیب میں صرف پچاس روپے ہیں اگر دو پنکچر نکل آئے تو،تو انڈیا میں کیس ٹھوکنے کی بات کر رہا ہے،یہ اپنا تارہ پکڑ ورنہ تیری جیو گرافک والی رپورٹ بھی خراب ہو جائے گی“ اس کے بیٹے نے تارہ اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔اس نے تارہ پکڑ فارسی زبان میں گنتی شروع کر دی ایک لاکھ پچپن ہزار پانچ سو تیئس“۔”ابا،یہ فارسی میں کیوں گن رہا ہے۔؟“۔”یہ ستارے ایران والی سائیڈ کے ہیں اس لئے فارسی میں گن رہا ہوں“۔اس نے اپنی انگلی اگلے ستارے کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔

Copyright © The Journalist Today

کچھ صاحب تحریر کے بارے میں

کے ایم خالد
کے ایم خالد
کے ایم خالد کو مزاح تخلیق کرتے تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے . پاکستان کے معتبر رسائل و اخبارات میں ان کے لاتعداد نثر پارے شائع ہو چکے ہیں . اپنی فکاہیہ تحاریر پر متعدد ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں .نجی چینلز پر مزاحیہ پروگرامز کے علاوہ ان کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ پاکستان ٹیلی ویژن پر ان کے لکھے ہوۓ طنزو مزاح پر مبنی ڈرامے شوخیاں،عید شوخیاں ( عید اسپیشل ڈرامہ)،نواب گھر (عید اسپیشل ڈرامہ)،مسٹر بین ان پاکستان کے علاوہ "آوے کا آوا" نشر ہو چکے ہیں۔ کے ایم خالد ""دی جرنلسٹ ٹوڈے" کے لیے مستقل اور مضبوط بنیادوں پر لکھ رہے ہیں

دیگر مصنفین کی مزید تحاریر

ڈاکٹر ناں۔بھٸ۔ہاں

اس کی بچپن سے ہی باتونی گفتگو سے اس کے گھر والے اندازے لگاتے تھے...

ویکسین: علاج یا سازش؟ حقیقت کا دوسرا رُخ

کل کی طرح آج بھی یہی سوال لوگوں کی زبان پر ہے کہ پولیو کے قطرے، کورونا کی ویکسین اور اب کینسر سے بچاؤ...

پاکستان اور سعودی عرب کا نیا دفاعی عہد! "خطے میں طاقت کا نیا توازن”

ریاض کے آسمانوں پر سعودی فضائیہ کے F-15 طیاروں نے اپنی گھن گرج سے فضا کو چیرا اور  برادر ملک پاکستان کے وزیر اعظم...

فصلیں جب دریا میں بہہ گئیں

جنوبی پنجاب کے ایک کسان غلام شبیر کی آنکھوں میں آنسو تھے جب اس نے کہا کہ میرے سامنے میری چھ ماہ کی محنت...

ڈاکٹر ناں۔بھٸ۔ہاں

اس کی بچپن سے ہی باتونی گفتگو سے اس کے گھر والے اندازے لگاتے تھے یہ بڑی ہو کر ڈاکٹر نکلے گی۔وہ باتوں پر...

اس پوسٹ پر تبصرہ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ سروس کی شرائط سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ ایک تحریری معاہدہ ہے جو اس وقت واپس لیا جا سکتا ہے جب آپ اس ویب سائٹ کے کسی بھی حصے کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کرتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

یہ بھی پڑھئے

ویکسین: علاج یا سازش؟ حقیقت...

کل کی طرح آج بھی یہی سوال لوگوں کی زبان پر ہے کہ پولیو کے قطرے، کورونا کی ویکسین...

پاکستان اور سعودی عرب کا...

ریاض کے آسمانوں پر سعودی فضائیہ کے F-15 طیاروں نے اپنی گھن گرج سے فضا کو چیرا اور  برادر...

فصلیں جب دریا میں بہہ...

جنوبی پنجاب کے ایک کسان غلام شبیر کی آنکھوں میں آنسو تھے جب اس نے کہا کہ میرے سامنے...

ڈاکٹر ناں۔بھٸ۔ہاں

اس کی بچپن سے ہی باتونی گفتگو سے اس کے گھر والے اندازے لگاتے تھے یہ بڑی ہو کر...

مزاحمتی شاعری اور ہماری ذہنی حالت

شاعری شاید لطیف جذبات کی عکاس ہے یا پھر انسانی جبلت کی لیکن شاعری میں ایسی باتیں کہہ دی جاتی ہیں جو عام انسانی...

حسین ہاتھ کا کنگن

اسے زمانہ طالب علمی سے ہی لوگوں کی زمینوں پر پھرنے کا بہت شوق تھا وہ اکثر میر،درد،جوش،غالب،حالی اور دوسرے قدیم شعرا کی زمینوں...

ڈیزائنوں والا شاعر۔۔ وسیم عباس

شاعر یا ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔جو نہیں ہوتا اسے زیادہ داد ملتی ہے کیونکہ اس کا کلام سننے والوں کو بھی بھلا کہاں...